ترقی پسند تحریک اور میں ۔۔۔ ڈاکٹر ستیاپال آنند

سب سے پہلے فیض احمد فیض کی مشہور نظمہم جو تاریک راہوں میں مارے گئےپڑھتے ہیں اور پھر بات کرتے ہیں اس نظم کےپس منظر پر۔

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم

دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے

تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم

نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے

تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی

تیری زلفوں کی مستی برستی رہی

تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی

جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم

ہم چلے آئے، لائے جہاں تک قدم

لب پہ حرفِ غزل، دل میں قندیل غم

اپنا غم تھا گواہی تیرے حسن کی

دیکھ قائم رہے اِس گواہی پہ ہم

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی

تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی

کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے

ہِجر کی قتل گاہوں سے سب جا مِلے

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے عَلم

اور نکلیں گے عشّاق کے قافلے

جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم

مختصر کر چلے درد کے فاصلے

کر چلے جِن کی خاطر جہاں گیر ہم

جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

دوسری عالمی جنگ کے بعد سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ امریکا اور سوویت یونین کے زیر اثر دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ایکجانب سرمایہ دارانہ معاشرہ تھا اور دوسری جانب اشتراکی دنیا۔

ایسے میں امریکا میں سوویت یونین کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کے نام منظرعام پر آئےجنھیں دنیا بھر کی رحم کی اپیلوں کے باوجود برقی کرسی پر بٹھا کر سزائے موت دے دی گئی۔

اس کہانی کا آغاز سنہ 1950 سے ہوتا ہے جب امریکا کے شعبۂ سراغ رسانی ایف بی آئی نے ہیری گولڈ نامی ایک جاسوس کو گرفتارکیا۔

ہیری گولڈ پر الزام تھا کہ اس نے دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا کے ایٹمی راز روس کو فراہم کیے۔ ہیری گولڈ نے الزامقبول کیا اور کہا کہ اس مہم میں اس کی معاونت ڈیوڈ گرین گلاس نامی ایک شخص نے کی تھی۔ یہ شخص امریکی فوج میں مشین مینتھا اور لاس الاموس میں اٹامک مینوفیکچرنگ کمپنی سے وابستہ تھا۔

ڈیوڈ گرین گلاس گرفتار ہوا تو اس نے سلطانی گواہ بننے کی پیشکش کی اور اپنی جان بچانے کے لیے سارا الزام اپنی بہن ایتھل اوربہنوئی جولیس روزن برگ کے سر لگا دیا اور کہا کہ یہ دونوں کمیونسٹ ہیں اور انھوں نے اسے روس کو ایٹمی راز فراہم کرنے کےلیے مجبور کیا تھا۔

جولیس اور ایتھل کی شادی سنہ 1939 میں ہوئی تھی۔ دونوں میں کشش کا اصل سبب کمیونزم سے ان کی دلچسپی تھی۔ سنہ 1940 میں جولیس امریکی فوج کے سگنل کور سے وابستہ ہوئے۔

ان پر الزام تھا کہ وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ریڈار اور ائیر کرافٹ ٹیکنالوجی سے متعلق حساس معلومات روس منتقل کرتےرہے ہیں۔

جولیس اور ایتھل کی شادی سنہ 1939 میں ہوئی تھی اور دونوں میں کشش کا اصل سبب کمیونزم سے ان کی دلچسپی تھی

17 جولائی 1950 کو ایف بی آئی نے جولیس اور ایتھل روزن برگ کو بھی گرفتار کر لیا۔ جیل میں ان پر طرح طرح کے ہتھکنڈےاستعمال کیے گئے کہ وہ ان ساتھیوں کے نام بتا دیں جو ان کے ساتھ رابطے میں تھے لیکن جولیس نے سب کچھ برداشت کیا مگراپنی زبان نہ کھولی۔

وہ اور ایتھل آخر وقت تک اپنے جرم سے انکار کرتے رہے۔ 29 مارچ 1951 کو عدالت نے ہیری گولڈ کو 30 سال اور ڈیوڈ گرینگلاس کو 15 سال قید کی سزا سنا دی اور چند دن بعد 5 اپریل 1951 کو جولیس اور ایتھل روزن برگ کو موت کی سزا کا حقدار قراردیا۔

اس سزا کے سنائے جانے کے بعد پوری عالمی رائے جولیس اور ایتھل روزن برگ کی رہائی کے لیے کوشاں ہو گئی۔

عالمی رائے عامہ کے مطابق ان دونوں میاں بیوی کو کمیونسٹ ہونے کی سزا دی جا رہی تھی اور ان کا اس جرم سے کوئی تعلق نہتھا۔ مگر دنیا بھر کے رہنمائوں کی اپیلوں کے باوجود 19 جون 1953 کو جولیس اور ایتھل روزن برگ کی موت کی سزا پر عمل درآمد کردیا گیا۔ ان کی موت کا غم دنیا بھر میں منایا گیا۔

آغا ناصر نے اپنی کتابہم جیتے جی مصروف رہےمیں لکھا ہے کہعدالتی کارروائی کے دوران امریکی عوام میں ملزمان کے لیےہمدردی کے جذبات فروغ پانے لگے۔ اس زمانے میں امریکہ میں کمیونسٹ دشمنی کی زبردست تحریک چلی جس کے روح و رواںامریکی سینیٹر جوزف میکارتھی تھے۔

وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سوویت یونین کو ختم کر دیا جائے۔ ان کےاس فلسفے کومیکارتھی ازمکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے خیالات کی تشہیر اس مؤثر انداز میں کی کہ دنیا بھر میںخاصی بڑی تعداد میں لوگ ان کے ہمنوا ہو گئے۔ یہاں تک کہ اس کے اثرات سے امریکہ کی عدلیہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔

آغا ناصر نے لکھا ہے کہ جس جج نے روزن برگ کو موت کی سزا سنائی اس کا یہ فقرہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہمجھے اس باتکا یقین ہے کہ آپ کی حرکتوں اور کارکردگی کی وجہ ہی سے کوریا میں کیمونزم کو فروغ ملا جس کے نتیجے میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگمارے گئے۔

دنیا بھر کے رہنماؤ ں کی اپیلوں کے باوجود 19 جون 1953 کو جولیس اور ایتھل روزن برگ کی موت کی سزا پر عمل درآمد کر دیا گیا

آغا ناصر کے مطابقسزائے موت کے اس فیصلے کو ساری دنیا کے روشن خیال لوگوں نے ایک سنگین فیصلہ قرار دیا۔ عدالتی فیصلےنے جولیس روزن برگ کو براہ راست اس جرم کے ارتکاب اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ایٹمی راز ماسکو کے حکمرانوں کوفراہم کرنے کا مجرم قرار دیا۔ ساتھ ہی اس کی بیوی ایتھل کو بھی اس کا شریک جرم قرار دیتے ہوئے موت کی سزا دی گئی۔

دنیا بھر میں اس ناانصافی پر احتجاج کی لہر دوڑ گئی حتیٰ کہ پاپائے روم نے اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کی مگر جب آنکھیں آہنپوش ہوں تو انصاف کیسے ممکن ہے۔ اس جوڑے کو ایک صبح امریکہ کے ایک زندان میں برقی کرسیوں پر بٹھا کر ہلاک کر دیا گیا۔جولیس اور ایتھل روزن برگ سے امریکہ کی حکومت نے کہا تھا کہ اگر وہ اعتراف کر لیں تو ان کی سزا بدلی جا سکتی ہیں لیکن انھوںنے یہ مشورہ قبول نہیں کیا۔

اردو کے عظیم شاعر فیض احمد فیض ان دنوں راولپنڈی سازش کیس کے الزام میں منٹگمری جیل میں پابند سلاسل تھے۔ جیل میںروزن برگ جوڑے کے خطوط پر مشتمل ایک کتاب کسی طرح ان تک بھی پہنچی۔

وہ اس سانحے سے بے حد متاثر ہوئے اور 15 مئی 1954 کو انھوں نے اپنی وہ معرکہ آرا نظم لکھی جس کا پہلا مصرعہ تھاہم جوتاریک راہوں میں مارے گئے۔

فیض کے مجموعہ کلامزنداں نامہمیں شامل اس نظم کی تعارفی سطر میں لکھا ہے کہایتھل اور جولیس روزن برگ کے خطوط سےمتاثر ہو کر لکھی گئی۔

ادبی ناقدین نے اس نظم کو جولیس اور ایتھل روزن برگ کا نغمہ مرگ قرار دیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ فیض صاحب کےنزدیک اپنے آدرش کے لیے جان قربان کر دینے والوں کی کتنی قدر و منزلت تھی۔

ایک ہفتے بعد 22 مئی 1954 کو انھوں نے ایلس فیض کو لکھا کہمیں نے روزن برگ جوڑے کے خطوط ایک ہی نشست میں پڑھڈالے۔ اگرچہ بار بار دل زیادہ بھر آیا تو کتاب ہاتھ سے رکھنی پڑی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے الفاظ کا سوز اور ان کی عظمت اسیادیب کو نصیب ہو سکتی ہے جس کی مرگ و حیات ایسی ہی عظیم اور درد انگیز ہو۔ ان کا اور ان کے بچوں کا خیال آتا ہے تو اپنیمصیبت کی بات کرنا (اگرچہ یہ مصیبت بھی کچھ کم نہیں) بے ہودہ پن معلوم ہوتا ہے۔

فیض کا یہ خط ان کی کتابصلیبیں مرے دریچے میںمیں شامل ہے۔

عزیز حامد مدنی نے لکھا ہے کہفیض کی یہ معرکہ آرا نظم فکری دنیا کے ایک بنیادی سوال سے تعلق رکھتی ہے کہ کیا کوئی بھی تخلیقیکام، دریافت یا ایجاد جس کا تعلق پوری انسانیت سے ہو کسی قومی مفاد کے لیے صیغہ راز میں رکھی جا سکتی ہے؟ دانشوروں کے لیےیہ مسئلہ اس صدی میں ایک اہم بحث کا موضوع بنا۔ اس واقعے کو سائنسی دنیا کی ایک بڑی تمثیل سمجھا گیا جس میں شہادتیں بھیدنیا کے بڑے سائنسدانوں کی تھیں۔

آغا ناصر نے مزید لکھا کہیہ ایک آفاقی نظم ہے جو وقت، زمانے اور جغرافیائی حدود سے آزاد ہے۔ جب بھی اور جہاں بھی کسیمعصوم کو ناحق سولی پر لٹکایا جائے گا، اس نغمے کی گونج دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرتی رہے گی۔ سولی پر لٹکایا جانے والا پاکستان کاذوالفقار علی بھٹو ہو، ترکی کا عدنان میندریس ہو یا لیبیا کا عمر مختار۔ ان سب کی موت، تاریخ اور وقت کو ایک ہی پیغام دیتی ہے کہمستقبل میں آنے والی نسلیں امن اور جہد مسلسل کے پرچم بلند کرتی رہیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 البتہ ایک سوال  جو میرے ذہن  میں رہ رہ کرات ھتا ہے، وہ یہ ہے کہ آیا یہ گذرے ہوئےکل کے ہیرو آنے والے کل میںشیطان  یا غدار نہ مانے جائیں گے؟ میں جواب نہیں دے  سکتا کہ میں نے سٹالین کی زندگی میں اس کو ہیرو اور موت کے چند بر سبعد ہی اس کو ایک ظالم ڈکٹیٹر کے طور پر پہچانا ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply