• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • جنسی جرائم میں ملو ث افراد کی نفسیات:ایک جائزہ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

جنسی جرائم میں ملو ث افراد کی نفسیات:ایک جائزہ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

میدانِ جنسیات میں ہم جس رفتار اور اسلوب سے نئی نئی “دریافتیں ” سامنے لا رہے ہیں، کچھ بعید نہیں کہ عنقریب وطنِ عزیز کی اس عبقری قوم کو کچھ اچھوتے ٹائیٹلز اپنے ماتھے پہ سجانے کا شرف حاصل ہو۔

ہر دفعہ کسی نئے حادثے کے وقوع پذیر ہونے سے جو شور اٹھتا ہے، اس میں مختلف مکاتبِ فکر اپنی اپنی رائے کو حرفِ آخر منواتے ہوئے ان حادثات سے بچاؤ کی تدابیر بتلاتے ہیں، اور اگلے حادثے تک صرف یہ باور کرانے کیلئے منتظر رہتے ہیں کہ چونکہ ان کی رائے یا مشورے کو نہیں مانا گیا اسی لئے اس تسلسل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس موضوع پر لبرلز اور مذہبی طبقہ ایک دوسرے کے مقابل ہیں، لبرلز کا کہنا یہ ہے کہ معاشرہ جنسی گھٹن کا شکار ہے، اس کیلئے آزادی ہی ایسے بھیانک حادثات سے بچانے کا واحد حل ہے، اس بات میں وزن ہے اور یہ نکتہ اس لائق ہے کہ اس پہ کان دھرے جائیں، اگرچہ یہ گورکھ دھندا ابھی تک لاحل ہے کہ ایسی آزادی ملنے کے بعد بھی افراد جنسی جرائم میں کیوں ملوث پائے جاتے ہیں ؟۔۔ لیکن بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب حقیقی لبرلز کو دیوار کے ساتھ لگاتے ہوئے نام نہاد لبرلز معاشرے میں مکمل مادر پدر آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ احباب اس آزادی کے خواہاں ہیں جس کا عصرِ حاضر میں مغربی معاشرہ علمبردار ہے، اور اس معاملے کا اہم ترین پہلو جو اِن حواس باختہ افراد کی سمجھ میں نہیں آرہا، وہ یہ کہ مغرب نے موجودہ آزادی اپنے سماجی اور شعوری ارتقاء کے ذریعے حاصل کی اور ہم ان تمام منازل کو نظر انداز کرتے ہوئے آخری سیڑھی کو پانا چاہتے ہیں، ایسے رویوں کے نتائج کبھی بھی مثبت نہیں آ سکتے۔

اس کو ایک سادہ مثال کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، مواصلات کی دنیا میں مغرب نے خط و قاصد کے بعد ٹیلی گرام، پھر گھریلو ٹیلیفون، پھر وائرلیس اور بعد میں موبائل تک کے مراحل طے کیے، ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم نے خط پَتر سے سیدھی موبائل پہ چھلانگ لگائی، آج موبائل سے ہمارے ہاں بالعموم جو کام لیا جاتا ہے وہ آپ کے سامنے ہے، اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ ہم ارتقائی سفر کی تمام درمیانی منازل کو بائی پاس کرتے ہوئے بلند سیڑھی پر جا وارد ہوئے، اسی طرح جنسی تعلیم و شعور کے میدان میں آزادی کی طرف اپنے سماج اور تمدن کے مطابق قدم بہ قدم آگے بڑھنا ہوگا وگرنہ صرف بگاڑ ہی مقدر ہوگا۔

مذہبی طبقے کا کہنا یہ ہے کہ پردے کے احکامات اور سخت ترین سزائیں جنسی بے راہ روی پہ قابو پانے کیلئے ناگزیر ہیں، پہلو یہ بھی اپنے اندر حکمت رکھتا ہے مگر سماجیات اپنا آپ منوانے میں بہت منہ زور ہے ، اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا پانچ پانچ سال کی بچیوں یا بے ریش نوجوانوں کیلئے بھی پردہ لازم کیا جائے ؟ کیونکہ یہ بھی آئے دن ایسے حادثات کا شکار ہوتے رہتے ہیں، اور پھر بات اب معصوم بچیوں، بے ریش نوجوانوں یا صرف نبض چلنے کی شرط تک بھی محدود نہیں رہی، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے نتائج تب ہی برآمد ہونگے جب تمام پہلوؤں پر کام کیا جائے گا، مثلا ً اگر زکوٰۃ کا نظام ناقص ہے تو چوری کو سزا کی مدد سے کبھی نہیں روکا جا سکتا، جنسیات کے ضمن میں اسلام نے اگرچہ مرد کو چار شادیوں کی اجازت ضرور دے رکھی ہے لیکن پسندیدہ شاید ایک ہی کو قرار دیا ہے اور ویسے بھی ہمارے ہاں سماجی رواج اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں، فرد کے مالی اور طبعی مسائل بھی عموما ً ایسے نہیں ہوتے کہ مرد چار چار ازواج کو افورڈ کر سکے، اور پھر ایسے میں خواتین کی گھٹن بارے کیا ارشاد فرمائیے گا؟

جنسی انحراف کی بے شمار جہتیں ہیں، ہر جہت ایک علیحدہ و مکمل مضمون کی متقاضی ہے، یہ انحراف اگر واقعتاً  کسی ذہنی یا واضح نفسیاتی پیچیدگی کا نتیجہ ہوتو الگ بات ہے، اس کیلئے شفا خانے اور ادویات کی سہولت اچھی یا بری سطح پر تقریبا ً ہر جگہ موجود ہے، لیکن چودہ طبق تب روشن ہوتے ہیں جب ایک سیدھا سادھا بھلے مانس، گاہے اعلیٰ  تعلیم یافتہ یا شریف النفس آدمی جنسیاتی خواہش کے ہاتھوں اس قدر یرغمال نظر آئے کہ تمام عقلی، سماجی و اخلاقی پیمانے روندنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرے۔

اگر نفسیاتی عارضے Manic disorders کو ایک طرف رکھتے ہوئے بظاہر سمجھدار اور معاشرتی طور پر باشعور افراد کے اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہونے کی وجوہات کا کھوج لگایا جائے تو راقم الحروف کی رائے درج ذیل ہے۔
نادیدگی ء لمس ۔

لمس کیا ہے ؟
فرد کا اپنے اندرونی جذبات کا جسمانی اظہار لمس کہلاتا ہے، لمس کی بے شمار اقسام ہیں اور ہر قسم اندرونی جذبے سے وابستہ ہے، ان جذبات میں چیدہ چیدہ انگلیوں پر گِنے جا سکتے ہیں، جیسے شفقتِ پدری، مامتا کی محبت، بھائی یا بہن کا انس، دوستی کے جذبات ، مخالف جنس کی طرف کشش اور اساتذہ یا بزرگوں کی شفقت بھی انہی جذبوں میں شامل ہے۔

ان تمام جذبات کے اظہار کے مختلف لمس ہیں، جیسے ہاتھ ملانا، گلے ملنا، سر پہ ہاتھ پھیرنا، بوسہ دینا وغیرہ  ۔

لمس ایک مکمل سائنس ہے، اگر اوائل عمر سے فرد لمس کی صورت میں مختلف نوعیتِ اظہار اور ان کی اہمیت سے ناواقف رہا تو بہکنے کے امکانات زیادہ ہیں، عمومی طور پر لمس کی بابت مضبوط ترین تصور جنسیات سے جڑا ہے، اسی لئے لمس کی سائنس سے ناواقف فاعل اور مفعول کسی بھی قسم کے لمس سے مراد جنسی جذبے کی آبیاری گردانتے ہیں، جو بچے زندگی میں لمس سے محروم رہے وہ آخری عمر تک اس کے متلاشی رہتے ہیں اور چونکہ ان کے جذبات میں تنوع نہیں ہوتا اس لیے تمام جذبات ایک ہی جہت، جنس، میں بہتے دکھائی دیتے ہیں، یہ لمس کے جذبے، اس کی اقسام، اس کی نوعیت سے نادیدگی کی علامت ہے، کسی بھی وجہ سے اگر درست عمر میں درست جذبات اور لمس کی صورت میں ان کے مناسب اظہار کے مواقع نہیں ملے تو تنوع کی غیر موجودگی ان جذبات اور ان کے اظہار کو ایک سمت، جنسی جذبہ و جنسی لمس، میں بہا لے جاتی ہے، اس لیے کچھ عجب نہیں کہ پیرانِ خانقاہ بھی جاتی بہاروں کو لوٹنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

تشنگی ء نفس :
دوسری بڑی وجہ بہت اہم ہے ،جس کی طرف کم ہی توجہ دی جاتی ہے، نفس اور اس کے حقوق کو عموما ً مذہبی پیرائے میں سمجھا اور بیان کیا جاتا ہے، لیکن جدید نفسیات کے میدان کا یہ اہم ترین موضوع ہے ، جس طرح کسی شر سے خیر کے برآمد ہونے کے امکانات ہوتے ہیں، اسی طرح خیر سے شر کا نکلنا بھی کچھ بعید نہیں، یہ جملے آپ نے متعدد بار پڑھے اور سنے ہوں گے
“زندگی وہی ہے جو دوسروں کیلئے جی جائے”
“اپنے لیے تو ہر کوئی جیتا ہے، دوسروں کیلئے جینا ہی حقیقی زندگی ہے”
“صرف اپنے لئے جینا بھی کوئی جینا ہے ؟”
یہ جملے اور ان پر عمل پیرا ہونا یقیناً آپ کے اخلاقی وجود کی آسودگی کا باعث ضرور ہے، لیکن اگر اس دوران حیوانی وجود یعنی نفس کی طرف توجہ نہ دی جائے تو یہ کسی اژدھے کی صورت جلد یا بدیر اپنا سر ضرور اٹھائے گا، اور اس کے نتائج جس قدر شدید ہوں گے، اس سے کہیں زیادہ ششد ر کر دینے والے ہوں گے، اس کیفیت میں مبتلا شخص کی زبان پر بس ایک ہی جملہ ہوگا کہ مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ میں کیا کر بیٹھا ہوں ۔

اگر فرد جذبۂ خیر سگالی میں ہمیشہ دوسروں کو خود سے اہم گردانتا رہا اور اپنی ذات اور خواہشات کی ہر قسم کی قربانی دیتا رہا تو فرد کے اندر ایک خاص نفسیات پنپتی ہے، یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح وہ دوسروں کیلئے خود کو وقف کرتا رہا، کیوں کسی دوسرے نے خود کو میرے لیے وقف نہ کیا ؟

خدا سے جزا کی امید اپنی جگہ، یہ معاملہ روحانی نفسیات تک تو درست ہے لیکن حیوانی وجود ایک علیحدہ حقیقت ہے، اگر اس کا مناسب اور جائز خیال نہ رکھا جائے تو یہ فرد کے ساتھ ساتھ اس کے اقارب کو بھی غارت کر دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑے گا۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ صحیح معنوں میں دوسروں کی مدد آپ صرف تب ہی  کر سکتے ہیں جب آپ خود مضبوطی سے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو جائیں، خود تیراکی سیکھیں گے تو ڈوبتے کو نکال پائیں گے۔

جن معاشروں میں ریاست فرد کو زندگی کی بنیادی سہولیات نہیں دے سکتی، وہاں فرد کے کندھوں پر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، وہ اپنے اقارب کو آسائشِ زندگی اور دکھ درد و غربت کے ماروں کیلئے جدوجہد کرتا ہے، گاہے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ یہ بوجھ اٹھائے رکھتا ہے، اخلاقی آسودگی کی سرشاری میں فرد محسوس نہیں کرتا کہ جس کیچوے کو وہ بھوکا رکھ رہا ہے، وہ کنڈلی مارے بیٹھا ناگ ہے ، اس ناگ یعنی نفس کے حقوق پورے نہ کرنے کی صورت میں حیوانی وجود میں انتقام کا ایک جذبہ پنپتا ہے، نفس کا اہم اور مضبوط ترین پہلو جنس ہے، اسی لئے نفس کا انتقامی رویہ اس سمت اس قدر شدید ہوتا ہے کہ محرم بچیوں یا بچوں تک کا لحاظ رکھنا ممکن نہیں ہو پاتا۔

میرا مشاہدہ ہے کہ جو افراد زندگی میں بہت زیادہ محنت کرتے ہیں، زندگی کی ایک سٹیج ہر آکر وہ گناہ کو اپنا حق سمجھتے ہیں، سی ایس ایس کے امتحان پاس کرنے والوں کی بڑی تعداد رشوت کو برا نہیں سمجھتی، کیونکہ اس حرام کے پیسے کو وہ اپنی محنت کا پھل سمجھتے ہوئے، ھذا من فضل ربی، کی دم پڑھ لیتے ہیں۔

اسی مثال کو اب مختلف ذوق اور مختلف شعور رکھنے والے افراد پر لاگو کرتے جائیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی میں غربت کا پہلو بھی شامل ہے کہ جب فرد زندگی کی ضروری آسائشوں اور لذتوں سے محروم ہے تو بالآخر، فطری لذت، کو ہی لطفِ اوّل و آخر سمجھتے ہوئے دل کھول کر اپنے ہونے کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے،اس سے آگے پھر اڈیکشن ، قانون سے بے خوفی اور اخلاقیات پر چار قل پڑھنے کی نفسیات ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply