پہلی قسط کا لنک
دوسری قسط
حقیقت کو دیکھ سکنے اور قبول کرنے کا نفسیات پر کیا اثر ہوتا ہے؟؟
ایک مشہور قول ہے “سب موہ مایا ہے”، اکثر لوگ سمجھتے ہیں اسکا مطلب ہے کہ “سب فریب/برم ہے”، لیکن یہ جملہ اتنا آسان ہے نہیں جتنا سننے میں لگتا ہے۔ مایا (مادی اشیاء، جذبات، احساسات، خیالات) ہماری اولین حقیقت ہے اور اس مایا کے ساتھ “موہ/لگاؤ” (attachment) ہمارے ذہن کی فطرت ہے۔ دراصل اس جملے کا مطلب ہے کہ چیزیں جیسی سطح پر نظر آتی ہیں وہ گہرائی میں اس کے برعکس ہوتی ہیں، اسی لیے انکی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ جب مایا کی تہہ ہٹ جاتی ہے تب تلخ حقیقت کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
میری جاب ایسی ہے کہ مجھے عموماً لوگوں کے گہرے جذبات اور ان کے مسائل کے متعلق جاننے کو ملتا ہے۔ زیادہ تر لوگ حقیقت کو ویسے قبول نہیں کرنا چاہتے جیسی وہ ہے، ایک بڑی تعداد موجودہ وقت کے تقاضوں کو قبول کرنے اور حقیقت سے نظریں چرانے کے لیے وہ سب کرجائیں گے جو نہ صرف ان کے لیے بلکہ آنے والی نسلوں تک کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اسکی وجہ آگاہی علم نہ ہونا، ٹروما یا پھر اپنے حس سے ملنے والے پلیژر سے بہت زیادہ لگاؤ (attachment)، اور جب آپ حس سے ملنے والے پلیژر کو ہی سچ مان لیں گے تو اس کے آگے جو درد آپ کی تاک میں بیٹھا ہے اسکی تاب نہیں لاسکیں گے۔
مادی اشیاء یا جذبات سے ملنے والی خوشی اور پلیژر کے احساسات جھوٹ نہیں بلکہ اس سے لگاؤ رکھنا نقصان کا سودا ہے کیونکہ وہ احساسات عارضی ہیں۔ ان احساسات کے پیچھے بھاگنا، درد اور بوریت سے کراہت اکتاہٹ محسوس کرنا آپ کے ذہن کو اذیت میں رکھتا ہے۔ کیونکہ پلیژر کی تہہ جب ہٹ جاتی ہے تو درد سے واسطہ پڑتا ہے۔
مثال کے طور پر جب آپ کو کسی سے محبت ہوتی ہے یا کوئی پرکشش لگتا ہے تو شروع کے دنوں میں جو پلیژر کا احساس ہے وہ آپ کو یہ محسوس کرواتا ہے کہ جیسے یہ احساسات ہی سب کچھ ہیں، آپ کا اس انسان کے ساتھ لگاؤ پیدا ہوجاتا ہے، لیکن لگاؤ میں پلیژر کے ساتھ جلن، حسد، توجہ کی بھوک، قابو میں کرنے کی چاہ، ہوس، وقت اور توانائی کا زیاں اور اس انسان کی جس سے آپ کو لگاؤ ہوچکا ہے اسکی آپ کی ذات میں وقت کے ساتھ مانند پڑتی دلچسپی وغیرہ جن کا سامنا بعد میں بہت ممکن ہے کہ آپ کو کرنا پڑے۔ بیشک آپ کے پلیژر والے احساسات بھی حقیقی ہیں، لیکن اس کی تہہ میں جو درد، عارضیت ہے آپ اسے نہیں دیکھ پارہے ہوتے۔
عموماً والدین یا معاشرہ کچھ بوسیدہ نظریات کو آپ پر سچ بتا کر لاگو کرتا ہے، لیکن جب وقت کے ساتھ اس بوسیدہ یا جھوٹے نظریے کی اصلیت سطح پر آتی ہے تو بہت نقصان ہوچکا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بچپن کے ٹروما کو شفایاب کرنے کے بعد جب آپ کا دماغ نئی حقیقتوں کو تجربہ کرتا ہے تب آپ کو یقین نہیں آرہا ہوتا کہ آپ آج تک کس اندھیری نگری میں رہ رہے تھے، آپ نے اپنا کتنا وقت ضائع کیا۔ٹروما شفایاب ہی تب ہوتا ہے جب آپ ماضی میں ہوچکے واقعات سے خود کو نکال کر حال میں لے کر آتے ہیں۔ آپ ماضی کے برم کو چھوڑ کر حال کی حقیقت سے جڑنے لگتے ہیں۔
میرا ذاتی تجربہ ہے، میں نے جب بھی حقیقت کو نظر انداز کیا ہے، جب بھی حقیقت کے خلاف دفاعی طریقہ کار (defence mechanism) کا ساتھ دیا تو بہت نقصان اٹھایا، کچھ نقصان تو ایسے تھے کہ جن کی کبھی بھرپائی نہیں ہوسکتی، ایسے میں آپ کو “قبول کرنا” (acceptance) جیسی تکنیک کو پریکٹس کرنا چاہیے۔ یہ سب ایک بار سے نہیں ہوتا، آپ کو جب بھی افسوس یا پچھتاوا ہو تو آپ کو اس افسوس کو قبول کرنے کی مشق کرنی ہوگی اور اس میں کئی دن/مہینے/سال لگ سکتے ہیں، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپکا ذہن کس قسم کا ہے، جلدی اور شدید لگاؤ پیدا کرنے والا، درمیانہ یا پھر ہلکا، جیسا ذہن ہوگا اتنا ہی وقت لگے گا قبول کرنے میں۔
دوسرا اہم پوائنٹ کہ اپنی حقیقت دیکھنا سیکھیں کہ آپ کتنے پانی میں ہیں، کسی کی موٹیویشنل وڈیو دیکھ کر جھوٹے سہانے خواب نہ بنائیں، بلکہ غور کریں کہ آپ کون ہیں، کہاں پیدا ہوئے ہیں، کیا صلاحیت ہے آپ کی، کتنا تجربہ ہے آپکا….. مجھے ہمیشہ تب تکلیف ہوئی جب میں نے خود کم (underestimate) یا زیادہ (overestimate) سمجھا، دوسروں کی رائے (feedback) بھی اکثر ہمیں اپنی حقیقت کو دیکھنے میں مدد دیتی ہے۔ بشرط یہ کہ رائے دینے والا سچی رائے دے نہ کہ اچھی رائے۔ دوسروں کی رائے سننا آسان نہیں ہوتا، میرے لیے بھی کبھی یہ سب آسان نہیں رہا، مجھے بھی سچ سننا یا حقیقت کو قبول کرنا خوشگوار تجربہ ہرگز نہیں لگتا۔ لیکن اس مضمون کے پہلے اقتباس میں لکھا قول یاد رکھیے کہ ‘اگر آپ حقیقت کا سامنا کرنے سے انکار کردیں گے تو حقیقت خود ایک دن آپ کی اجازت کے بغیر آپ کا سامنا کرنے آئے گی، جب مایا کی تہہ ہٹ جائے گی’!!!
Nida Ishaque
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں