• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ماحولیاتی تبدیلیاں!ذمہ دار بھی اور متاثرین بھی ہم/سیّد بدر سعید

ماحولیاتی تبدیلیاں!ذمہ دار بھی اور متاثرین بھی ہم/سیّد بدر سعید

سوچتا ہوں بچپن میں ہمیں جو ماحول میسر تھا اب شاید ہی ہماری اگلی نسلوں کو مل سکے گا۔ ہم نے اپنا ماحول تباہ کرنے میں جتنی تیزی دکھائی وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے، چند سال پہلے تک پانی بیچنا گناہ سمجھا جاتا تھا اور پانی خرید کر پینے کاتصور تک نہ تھا پھر منرل واٹر کی بوتلیں نظر آنے لگیں تو اسے طبقہ اشرافیہ کی عیاشی سمجھا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی بار دبئی گیا تو وہاں ایک جگہ پانی کی اتنی چھوٹی بوتلیں بھی بک رہی تھیں کہ پہلی نظر میں آب زم زم کا گمان ہوا۔ میں نے پانی کی وہ بوتل خرید کر اپنے بیگ میں رکھ لی اور پھر پاکستان واپس آ کر اپنے گھر والوں کو دکھائی۔ سب حیران تھے کہ کیا واقعی دوائی کی طرح ایک ایک گھونٹ بھی بکتا ہے۔ اب وہی حالات یہاں نظر آتے ہیں۔ صاف پانی ہم سے روٹھ رہا ہے، گھروں میں واٹر فلٹریشن پلانٹ یا کمرشل پانی لایا جاتا ہے، جو قوم پانی بیچنا گناہ سمجھتی تھی اب اسی پانی کو بیچنے کا کامیاب کاروبار کرتی ہے۔ چند سال قبل تک سردیوں کی دھند رومانوی موسم کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب دھند تو پیچھے رہ گئی البتہ زہریلی گیسوں پر مشتمل سموگ ہر سال آتی ہے۔ آپ اس کی ہزار وضاحتیں دے سکتے ہیں لیکن فصلوں کو جلانے سے لے کر گاڑیوں کے دھویں تک ہر کام ماضی میں اس سے کہیں زیادہ ہوتا تھا لیکن موسم سرما کی اطلاع دینے والی خوشگوار دھند کبھی سموگ آلود نہیں ہوئی تھی۔

اگر اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم ایسے خطے میں رہ رہے ہیں جہاں زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں، موسمیاتی تبدیلیاں اتنی تیزی سے چہرہ بدل رہی ہیں کہ ہماری گرمیاں اور سردیاں مکس ہو گئی ہیں۔ پنجابی کے مہینوں کا وہ سارا حساب کتاب الٹ پلٹ ہو چکا ہے جس کے مطابق فلاں مہینے گندم کی فصل کٹنا تھی اور فلاں مہینے رضائیوں کو دھوپ لگوائی جانا تھی۔ زیر زمین صاف پانی کی تہہ مزید نیچے جا چکی ہے، ہمارے سارے موسم تبدیل ہو گئے ہیں اور زلزلوں کی رفتار پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کب بارش ہو جائے گی اور کب طوفان آئے گا،آندھیوں کا موسم کب رونما ہو گا اور برف باری کس وقت ہو گی، سردی کی لہر کتنے دن جاری رہے گی اور اچانک سے تیز سورج گرمی کی شدت کب بڑھا دے گا، ہماری فصلیں کب پکیں گی اور سیلاب کب آئیں گے، ہمارا کون کون سا علاقہ کس کس مہینے سیلاب میں ڈوبے گا اور کونسی فصل تیار حالت میں تباہ ہو جائے گی، ہمارے پہاڑوں سے تودے کب سرکیں گے اور کب زلزلہ ہماری زمین کو ہلانے لگے گا۔ ماضی میں بزرگوں کو ان سب کا علم ایسے ہی ہوتا تھا جیسے موسم اور ماحول دونوں ہی کیلنڈر کے پابند ہوں لیکن وہ سارا موسم اتنی تیزی سے کروٹ لے چکا ہے کہ اب کسی بات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ ہم ایک غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو چکے ہیں جس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں اور ہم ہی ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے متاثرین میں بھی شامل ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارا بڑا مسئلہ فضائی آلودگی کا خاتمہ ہے کیونکہ اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو اس کے نتیجے میں دیگر ماحولیاتی خرابیاں بھی درست ہونے لگیں گی لیکن سوال یہ ہے کہ جب ہم ہی غیر ضروری خریداری کا رجحان قائم کریں گے تو پھر پروڈکشن اور ری پروڈکشن کا عمل کیسے کم ہو گا۔ آپ خود غور کریں کہ ہماری ماہانہ خریداری میں بہت سی ایسی اشیا شامل ہوتی ہیں جو ہم عموماً استعمال نہیں کرتے یا جن کی ہمیں فوری ضرورت نہیں ہوتی۔ بچوں کی گولی ٹافی اور ایسی ہی کئی اشیا کی خریداری کے نام پر ہم کتنے ہی پلاسٹک بیگ اور ریپر گھر لاتے اور ضائع کرتے ہیں۔ ہر روز گھر دکانوں سے خریدے گئے ایسے ریپرز اور شاپنگ بیگ کا ہی اندازہ لگا لیں تو حیرت ہوتی ہے۔ ہم جو منرل واٹر خریدتے ہیں اس کی بوتل تک پلاسٹک میٹریل کی ہوتی ہے جسے ہم لاپرواہی سے پھینک دیتے ہیں، برانڈز اور دکانوں پر سیل کے نام پر ہم صرف اشیا کے مہنگے ہو جانے کے خوف سے قبل از وقت خریداری کرتے ہیں۔ بظاہر یہ معمول کی بات ہے لیکن اگر توجہ دیں تو اندازہ ہو کہ جب ایک چیز کی پیداوار ہو رہی ہے تو اس پروڈکشن کے لیے کارخانے میں جو تیل یا کوئلہ جلایا گیا جوماحولیاتی تبدیلیوں میں اپنا کردار ادا کرے گا اسی طرح انہیں ری پروڈیوس اور ڈی فیوز کرنے کے عمل کے دوران بھی گیسز پیدا ہوں گی، ہم سادگی اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دھویں کے اخراج کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ صرف پیسے کی گیم نہیں بلکہ اس دوران جو کاربن اور دیگر زہریلے مادے فضا میں شامل ہوتے ہیں وہ ماحولیاتی آلودگی اور تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ ان زہریلے مادوں نے ہمارے ماحول کو تباہ کر دیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے والی تنظیم ہے جس نے اس پر ریسرچ کرائی اور اس ریسرچ کی بنیاد پر چار پالیسی پوزیشن پیپرز تیار کیے تاکہ تیزی سے رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں پر سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کیا جائے۔ انہوں نے اس میں ریاستی سٹیک ہولڈرز، متاثرین، قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو اکٹھا کیا اور پھر ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسائل سے نمٹنے کے سیمینارز کرائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ پاکستان اس وقت انتہائی برے حالات کا شکار ہے جس سے ایک دم نکلنا مشکل ہے، ہمارے پاس کوئلہ کے ذخائر ہیں لیکن یہ کوئلہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا ہے، ہم فیول سے بجلی تیار کرتے ہیں جو کہ مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ جل کر ماحول کو مزید آلودہ کر دیتا ہے ہمیں ونڈ اور سولر کی طرف جانا ہو گا لیکن ملکی سطح پر یہ کام حکومت کو کرنا ہو گا، ہمارے صحرا اور میدان سولر کے بڑے پراجیکٹ لگانے کے لیے قدرت کا بہترین تحفہ ہیں، ہمارے پہاڑ قدرتی طور پر بنے بنائے ٹربائن ہیں جن پر تھوڑی سی محنت اور توجہ کی ضرورت ہے، ہمیں براہ راست برف پوش چوٹیوں سے صاف پانی ملتا ہے جسے ڈیم بنا کر محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے، ہم سب بچپن سے یہ سب پڑھتے اور سنتے آئے ہیں اس کے باوجود ہم پیکنگ کے نام پر پلاسٹک کا بے پناہ استعمال کر رہے ہیں، ہم برف پوش پہاڑوں، آبشاروں کے باوجود صاف پانی ذخیرہ کرنے کے لیے مناسب انتظامات نہیں کرتے اور یہ صاف پانی ضائع ہو جاتا ہے، ہمیں اللہ کی نعمت کے طور پر صاف پانی ملتا ہے جسے ہم سیلاب میں تبدیل کر کے تباہی کی علامت بنا دیتے ہیں، ہم ہر فالتو چیز کو فوراً آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں، ہم ماحول دوست اشیا اور گرین کلچر کو اپنانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ بہت سے پراجیکٹ حکومت کی سطح پر توجہ کے محتاج ہیں لیکن اگر 24 کروڑ عوام بھی اپنی اپنی سطح پر احتیاط شروع کر دے تو تبدیلی آ سکتی ہے۔

Facebook Comments

سيد بدر سعید
سب ایڈیٹر/فیچر رائیٹر: نوائے وقت گروپ ، سکرپٹ رائیٹر ، جوائنٹ سیکرٹری: پنجاب یونین آف جرنلسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply