• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سانحہ مینارِ پاکستان(2،آخری حصّہ)۔۔محمد وقاص رشید

سانحہ مینارِ پاکستان(2،آخری حصّہ)۔۔محمد وقاص رشید

سانحہءِ مینارِ پاکستان نے اس سماجی ناسور کی نشاندہی کی ہے ،یہ کہنا کہ پاکستان میں عورت کی ہراسانی سے متعلق کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں اور آدم کے بیٹے نے حوا کی بیٹی کے لیے اس سرزمین کو جنت بنا رکھا ہے۔ اس بات کے بے بنیاد ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ بات پاکستانی عورت من حیث المجموع نہیں کہتی اس طرح کی باتیں مرد ہی کہتے پائے جاتے ہیں ۔ ہم نے حصّہ اول میں مسئلے کی موجودگی پر بات کی اس دوسرے اور آخری حصے میں ہم مسئلے کے حل پر فکر کے گھوڑے دوڑائیں گے۔

آئیے خدا کی عدالت لگنے سے پہلے اسکی تیاری اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہو کر کریں جو کہ خدا نے ہمارے اندر اپنا ایک دربان مقرر کر رکھا ہے۔۔اگر وہ دربان اب تک ہماری منافقت تلے دب کر مر نہیں چکا ۔۔
٭ کیا ہمارے معاشرے میں بیٹی کی پیدائش اکثریت کے ہاں ناگوار نہیں۔؟
٭ کیا یہاں شوہر اپنی بیوی کی بے عزتی کر کے اپنے بیٹوں کی بنیاد میں احساسِ برتری اور بیٹیوں کی بنیاد میں احساسِ کمتری نہیں بٹھاتا ہے؟
٭ کیا یہاں اکثر بیٹوں کو بیٹیوں پر حقوق و فرائض میں ایک فوقیت حاصل نہیں ہوتی ؟
٭ کیا بنیادی انسانی حقوق میں پاکستانی بیٹی کی محرومی کا آغاز والدین ہی ہاتھوں نہیں ہوتا؟
٭کیا اکثر مردوں کی نظر میں عورت ان سے ایک کمتر مخلوق نہیں ہے؟
٭کیا عورت کو یہاں ہر وقت ہر جگہ غلاظت سے لتھڑی ہوئی ہوس پرست نگاہوں کا سامنا نہیں رہتا ؟
٭کیا باپ بھائی بہن بیٹی کو یہ اعتماد دیتے ہیں کہ وہ شادی کے لیے اپنی پسند کا اظہار کر سکے ؟
٭کیا عورت کو جائیداد میں اسکا حق ملتا ہے ؟
٭کیا آج بھی سماج نامی اس دشت میں وٹہ سٹہ ،ونی ، کاروکاری ، قرآن سے شادی ، عورتوں کو بیچنا وغیرہ جیسی عورت کا استحصال کرتی رسمیں نہیں ہیں ؟
٭کیا سڑک پر چلتی اکیلی عورت ہمارے مردانہ برتری کے شر سے محفوظ ہے ؟
٭کیا عورت کو اپنی موجودگی کی ہر جگہ پر ایک ہراسانی کا سامنا نہیں ہے ؟

ان سب سوالوں کے جوابات کے آئینے میں ہمیں اپنا انفرادی چہرہ دیکھنا ہے۔ جس سے مل کر ہی ہمارا اجتماعی سماجی تشخص قائم ہوتا ہے۔

اس ہجوم کو ایک قوم اور اس دشت کو ایک سماج بنانے کے لیے ہمیں “سماجی تعمیرِ نو ” کی مہم کا آغاز کرنا ہو گا ۔قومی مزاج اور سماجی صحت پر اثر انداز ہونے والے چار بنیادی اداروں گھر ،سکول،مسجد، پارلیمان (بشمول قانون نافذ کرنے والے ذیلی ادارے)۔ان چاروں اداروں کے سربراہان یعنی والدین ،اساتذہ ، علما دین اور سیاسی رہنما۔  ان سب کو اپنے اپنے فرائض پورے کرنے کے لیے ایک تجدیدِ عہد کی ضرورت ہے ۔ایک باپ اپنے بچوں کی ماں کا غیر مشروط اور پیہم عزت و احترام کر کے اس مہم کاآغاز کرے۔ماں اپنے بیٹوں کی یہ تربیت کرے گی کہ ہر ملت کی بیٹی کا احترام کیا جائے۔  مینارِ پاکستان سے لے لاہور سڑک کے رکشے تک ان اوباشوں کی مائیں تو انہیں پہچان ہی رہی ہوں گی ناں ۔۔ مائیں اپنے بیٹوں کی یہ تربیت کریں کہ اگر انکا بیٹا کسی ملت کی بیٹی کی ردا پر ہاتھ ڈال کر گھر آیا تو وہ اسے اپنا دودھ نہ بخشیں گی، چاہے اسکا لباس کوئی بھی ہو ۔وہ ٹک ٹاک بناتی ہو یا نہ بناتی ہو۔ مسجد سلامتی کے دین کے احیا کا ایک دفتر ایک ادارہ ہے،  اسے مسجدِ نبوی ص کی طرز پر استوار کرنے کی ضرورت ہے خصوصاً جمعہ کے خطبہ میں بجائے متنازع  تاریخ بیان کر کے تقسیم کر کے گروہی و مسلکی مفادات کے تحفظ کے ان معاشرتی مسائل خصوصا ً عورت کی غیر مشروط عزت و احترام اور ناموس کی حفاظت کی تلقین کرنی چاہیے، آج مسلمانوں کو یہ بتایا جانا اشد ترین ضروری ہے کہ قرآن پاک خدا نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں میں سے چند ایک کے قصے اپنے آخری پیغمبر پر قرآن مجید کی زینت بنا کر کیوں نازل کیے اور ان میں موجودہ ملکی منظر نامے کی بابت یوسف و زلیخا کا قصہ کیا ہے۔۔اسکا سبق کیا ہے۔ روزہ دار مسلمان کا کھانے پینے کی چیزوں کے باوجود اپنی اشتہا پر قابو رکھنا ہی امتحان ہے۔ ہر جمعہ کا خطبہ پڑھ کر جب لوگ باہر آئیں تو انکے دل میں ماضی پر تقسیم ہونے کی بجائے حال پر جمع ہونے کا جذبہ ہو ۔ محلے کی مساجد میں ہفتہ وار سماجی مسائل کے حل کی کارگزاری کے بارے گفت و شنید ہو سکے تو کیا ہی کہنے ۔اب آتے ہیں پارلیمان یعنی اس چوتھے ستون کی طرف جس کا کردار فیصلہ کُن ہے ۔اس سماجی مسئلے کے حل کے دو پہلو ہیں۔۔۔

ایک اخلاقی دوسرا قانونی

جو لوگ والدین استاد اور عالمِ دین کی اخلاقی تربیت سے باتوں کے بھوت ثابت ہوں فبہا۔ ۔ لیکن جو لاتوں کے بھوت ہوں انہیں عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ ۔ہراسانی کے متعلق قوانین سخت ترین ہوں۔ ایک سپیشل ہیلپ لائن ، ایمرجنسی ریسپونس کے لیے ہو جسے پارکوں سڑکوں اور چوراہوں میں آویزاں کیا جائے جسکا رسپونس منٹوں اور سیکنڈوں کی بنیاد پر ہو اور پہلے بھی عرض کیا تھا کہ وزارتِ انسانی حقوق ایک ہیلپ ڈیسک قائم کرے جس پر پورے ملک سے خواتین پورے اعتماد سے ہراسانی کے متعلق شکایات درج کروا سکیں کوئی ثبوت وغیرہ ہوں تو بھیج سکیں ۔

وزیراعظم صاحب سے ایک خصوصی گزارش ہے کہ آپ پوری قوم کے رہبر ہیں اور پوری قوم میں بہت سے مکتبہ ہائے فکر موجود ہیں جن کی دینی احکامات کی اپنی اپنی تفہیم ہے اور خود دین انہیں اپنی تعبیر و تشریح سے روکتا نہیں ۔پاکستان میں معاشی بنیادوں پر طبقاتی تقسیم بھی ایک زمینی حقیقت ہے ان میں بھی مذہبی حساسیت کا اپنا اپنا مزاج ہے۔  اسکے علاوہ پاکستان انکا بھی اتنا ہی ہے جو لا دین ہیں یا دین کو ذاتی معاملہ گردانتے ہیں ۔آپ کا کردار ان تمام کو ریاستی سربراہ کی حیثیت سے جوڑنے کا ہے آپ کی ذاتی دینی تفہیم اور مذہب کے مختلف احکامات پر آپکی حساسیت کا عالم جو بھی ہو یہ آپ کا حق ہے لیکن اسے اپنے ذاتی دائرہ کار تک محدود رکھنا آپ کا فرض ہے کیونکہ بارِ دگر عرض ہے کہ آپ ایک سیاسی جماعت یا ایک مکتبہ ءِ فکر کے نہیں 22 کروڑ کی پوری قوم کے سرخیل ہیں۔ آپ کو ایسے بیانات دینے سے قطعی گریز برتنا چاہیے جس سے آپ ایک طبقے میں تو بہت مقبول ہو جائیں لیکن اس سے اختلاف رکھنے والے لوگ اسے اپنی حق تلفی سمجھیں یا اس سے پہلے سے بکھرے ہوئے سماج میں مزید انتشار پھیلے ۔آپ کو ایسے بیانات بالکل نہیں دینے چاہئیں جسکی آپ کو بعد میں وضاحت دینی پڑے۔ آپ اکثر قرآن مجید سے مثالیں دیتے رہتے ہیں لیکن جہاں آپ نے جنابِ یوسف وزلیخا کی مثال دے کر اس بابت دینی فکر کو اجاگر کرنا تھا وہاں آپ کا ہراسانی کو عورت کے لباس سے جوڑنا اور یہ کہنا کہ مرد کوئی روبوٹ تو نہیں ،مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کے لئے ایک لائسنس کے مترادف تھا۔ اچھا کیا جو آپ نے اسے بعد میں stupidity کہہ کر وضاحت پیش کی۔۔۔ورنہ آج مینارِ پاکستان کے وہ چار سو حیوان ریاست جن پر 302 لگا رہی ہے عدالت میں جا کر کہہ سکتے تھے کہ جج صاحب دیکھیں ناں ہم کوئی روبوٹس تو نہیں تھے ۔

انتہائی ادب  سے عرض ہے کہ آپ کو ریاستی حکمران کی حیثیت سے لباس ، طبقہ ،مذہب ،پیشہ اور ذاتی رجحانات سے بالاتر ہر عورت کی عصمت و ناموس کی حرمت کو یقینی بنانا ہے کیونکہ دور کیا جائیں اگر خود آپ ہی سے منسلک آپکی اپنی زوجہ محترمہ خاتونِ اوّل اور آپ ہی کی محترمہ ہمشیراؤں میں پردے سے متعلق مذہبی تفہیم کا فرق ہے جو کہ بجا طور پر انکے عمل سے ظاہر اور انکا حق بھی ہے۔۔تو یہی حق پوری قوم میں موجود تمام خواتین کا بھی ہے کیونکہ یہ خدا اور اسکے بندے کا معاملہ ہے ۔

خطبہ حجۃ الوداع جسے ہم اسلام کو واقعی سلامتی کا مذہب ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو کہتے ہیں کہ یہ انسانی حقوق کا ایک مکمل چارٹر ہے۔ اس چارٹر کی عملی تصویر بنے بغیر دنیا ہمیں کبھی وہ عزت نہیں دے گی جسکے ہم متمنی ہیں۔  ہم منافق hypocrites ہی کہلائیں گے ،لیکن ہمیں عزت نہ ملنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن ہمیں سمجھنا ہو گا کہ ہم زمانے میں جس دین کی نمائندگی کرتے ہیں اسکا تاثر اقوامِ عالم میں ہماری وجہ سے متاثر ہوتا ہے ۔اسلامو فوبیا کو ختم کرنے کا طریقہ دنیا میں ایک ہے اور وہ ہے اپنے کردار کو ایسا بنانا کہ ہم واقعی سلامتی کے دین کے علمبردار لگیں۔۔۔خطبہ حجۃ الوداع اگر ہماری گفتار میں charter of human rights ہے تو ہمارے کردار سے کیوں نہیں جھلکتا ؟۔

رسول اللہ ص نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ ۔ کیا مندرجہ بالا سوالات کی روشنی میں ہم ایسا کرتے ہیں؟ ۔ یقیناً نہیں۔۔۔ تو جب ہم خود اس چارٹر پر عمل پیرا نہیں ہوتے تو دنیا کو اس پر کیونکر راغب کر پائیں گے۔ ؟

لباس جس کو اس قضیے میں زیرِ بحث لایا گیا ہے کو سلامتی کے مذہب کے مطابق مہذب ، شائستہ ،شرم گاہوں کو چھپانے والا ہونا چاہیے۔۔لباس کو اگر زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو لباس نے بھی دیگر انسانی امور کی طرح ارتقاء کا سفر طے کیا ہے جانوروں اور درختوں کی کھال سے شروع ہوتا یہ ارتقائی سفر دھاگے میں بُنتا ہوا انواع و اقسام کے کپڑے تک پہنچا۔۔۔ اور آج اسے پیشے ، تقریبات ، ثقافت، ماحول ، مشاغل ،انسانی ضرورت ،موسم ، جدت ، دیدہ زیبی ،فیشن اور پسند کے لحاظ سے انسانی استعمال کی چیزوں میں سب سے متنوع شے ہونے کا مقام حاصل ہے۔۔اسی لیے تجارت کا بہت بڑا حصہ اس سے جڑا ہے۔۔لباس جو ظاہر ہے ہر شخص کا اپنا انتخاب اور استحقاق ہے۔ اگر ہمیں کوئی لباس پسند نہیں تو ہمارا اسے زیبِ تن نہ کرنا فطری حق ہے۔ دوسروں کے پہناوے کو ہم اپنے لیے خاموشی سے نا پسند بھی کر سکتے ہیں،مگر “لا اکراہ فی الدین ” ۔ دین میں کوئی جبر نہیں ” کی تلقین کرتا سلامتی کا مذہب ہمیں یہ اجازت نہیں دیتا کہ ہم اس کے متعلق کسی پر جبر کریں ۔ پاکستانی معاشرے میں جس طرح مرد شلوار قمیض کرتا ، پینٹ شرٹ ،جینز ، نیکر/ برمودہ یا سوٹنگ میں نظر آتے  ہیں ، اسی طرح خواتین اوپر بیان کردہ انواع کی بنیاد پر مختلف ملبوسات میں نظر آتی ہیں۔ دوپٹہ ،چادر ، گاؤن ، برقعہ یا جینز شرٹ میں ملبوس خواتین کا انکے معاشرے کے مختلف فکری طبقات سے ہونے کی عکاسی کرتا ہے اور یہی وہ تنوع ہے جو معاشرے کی بنت میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ یہی وہ فکری آزادی ہے جسکی ترویج ہی سے سماج مختلف انسانوں کا ایک جگہ پر اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ پُرامن طور پر رہنے کا گہوارہ ہوتا ہے۔

ہراسانی کے واقعات کو لباس سے جوڑنا ایک تباہ کن اندازِ فکر ہے جسکی گونج یہاں اوپر سے نیچے تک سنائی دیتی ہے ۔ہراسانی کا تعلق مرد کی نفسیات سے ہے غلبہ پانے کی وحشت سے ہے۔  عورت کو کمتر سمجھنے کی خو سے ہے جسکی تربیت اوپر بیان کردہ وجوہات میں بد قسمتی سے ہمارے گھر ہی سے شروع ہوتی ہے  اور یقینی طور پر victim blaming کی معاشرتی روش سے ہے۔۔مثال کے طور پر ایک عرض ہے کہ یہی نفسیات جو یہاں پیارے پاکستان میں عام ہے یہ اندازِ فکر بیرونِ ممالک جا کر بالکل تبدیل ہو جاتی ہے اور مہذب بن جاتی ہے۔۔  اس بابت تحقیق کے لیے دبئی ،قطر ، آسٹریلیا اور یورپ میں موجود یا وہاں سے پلٹنے والے دوستوں سے گفتگو ہوئی تو اس خیال کو مزید تقویت ملی کہ اگر وہاں قانون کے ڈر سے پاکستانی خواتین سے کہیں مختصر لباس میں نظر آنے والی خواتین ہمارے ہی معاشرے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہراسانی سے محفوظ ہیں تو مسئلہ تو لباس کا نہیں مردانہ فکر کا ہوا ناں ؟ ہمیں ضرورت اس مہذب رویہ کو اپنے دیس میں اپنانے کی ہے ۔

ایک اور مثال جو انتہائی دکھے ہوئے دل کے ساتھ بطورِ دعوتِ فکر پیش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہاں آئے روز چھوٹے چھوٹے بچوں بچیوں سے بربریت و حیوانیت کے واقعات ہوتے ہیں۔۔۔کیا وہ بچے اپنے لباس اور بے پردگی کی وجہ سے یہاں ہوس کا نشانہ بنتے ہیں ؟اور اسکا یہ جواز گھڑنا کہ اصل میں وہ لوگ incite اور ذرائع سے ہوتے ہیں اور آسان شکار پر پِل پڑتے ہیں۔۔۔ تو یاد رکھیے ساحل انٹر نیشنل کی رپورٹ کے مطابق ان بچوں بچیوں میں بہت بڑی تعداد مدارس  جانے والوں کی ہے ۔تو سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے پردگی کو اس معاشرتی ناسور کی وجہ قرار دینے والے اور سارا دن حیا اور پاکیزگی کا درس دینے والوں کے ہاں اگر ایک کمزور طبقہ محفوظ نہیں تو مان لیجیے کہ یہ کمزور اور طاقتور کی جنگ ہے۔۔  ریاست اور اسکی رعایا کو آگے بڑھ کر کمزور کی طاقت بننا ہے ۔کسی بھی سانحہ پر اگر مگر لیکن ورنہ کے بغیر واضح اور واشگاف انداز میں اپنی رائے کا وزن مظلوم کے پلڑے میں ڈالنا ہے۔۔۔۔ سلامتی کے مذہب کے آخری درجے کے پیروکار بننا ہے جو برائی کو دل میں برا ضرور گردانتے ہیں۔

علما  دین کا اس معاشرے کی ذہن سازی میں بڑا مقام ہے۔ انکی اثر پذیری سے کون انکار کر سکتا ہے۔۔ انہیں اپنی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے اجتماعی فکر سازی میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔  جینز اور گٹار والے جنید جمشید مرحوم نے کُرتے شلوار داڑھی تسبیح والا بن کر ٹی وی کو خیر باد کہہ دیا لیکن کچھ عرصے بعد وہ معروضی حالات کا درست تجزیہ کرتے ہوئے اپنی ویڈیو کیا تصویر تک نہ بنوانے والے مولانا طارق جمیل کی سو سالہ تبلیغی جماعت کی فکر کو بدلتے ہوئے انہیں ٹی وی پر لائے۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے جنید جمشید نے ایک پروگرام میں گٹار پکڑ کر دل دل پاکستان گایا۔۔ ٹی وی و میوزک سٹارز خواتین و حضرات کے ساتھ پہلے کی طرح گھل مل گئے۔ مولانا طارق جمیل نے وینا ملک صاحبہ کو اپنی بیٹی بنایا ۔وہ شو بز سے متعلق مردوزن سے ملتے جلتے رہتے ہیں جن کے دینی خیالات ان سے نہیں ملتے۔ دوسری مثال سیاسی جماعتوں کے اکابرین کی ہے جنہوں نے اپنی سیاسی ضروریات ہی سہی لیکن درست طور پر اپنے ماضی کے کئی کٹر Rigid افکار سے رجوع کرتے ہوئے عورت کی حکمرانی ، لباس ، محرم /نا محرم وغیرہ میں ایک متوازن اپروچ اپنائی ہے۔ یہ اور باقی تمام علما  دین بھی اسی طرز فکر کے ساتھ واضح طور پر یہ اعلان کریں کہ بے شک پردہ داری ایک مقدس امر ہے ہم ضرور پردے کی تبلیغ و ترویج کریں گے۔۔۔لیکن کسی شخص یا گروہ کی جانب سے بے پردگی کو جواز بنا کر کسی عورت کی بے حرمتی کی شدید ترین مذمت کریں گے ۔دین کے باقی تمام احکامات و تعلیمات کی طرح پردہ سے متعلق بھی ہم پاکستان کے مردوزن کو پیار محبت اور احسن طریقے سے دعوت و تبلیغ ہی کریں گے لیکن اسکی عملداری لوگوں کا اور خدا کا معاملہ ہے۔۔۔ اب تک اس شدید اہم نوعیت کے اس بیانیے کا واضح تر اعلان جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے ہی کیا ہے خدا انہیں اسکی جزا دے۔

ہم نے یہ طرزِ عمل کیوں اپنا لیا ہے کہ پاکستانی عورت کو آزادی ملی تو نہ جانے کون سا حشر وہ برپا کر دے گی ،کون سی قیامت یہاں آ جائے گی۔ بھائیو سلامتی کا یہ مذہب مرد و زن دونوں سے مخاطب ہوتا ہے۔  دونوں کو متوازی احکامات جاری کرتا ہے۔  اپنی تخلیق کے لحاظ سے کمتری برتری تو عدل و انصاف کے اس دین کی روح سے بنیادی طور پر متضاد ہے۔ آپ نظر دوڑا کر دیکھ لیجیے جن ملت کی بیٹیوں کے پیروں میں یہ کمتری کی بیڑیاں نہیں ڈالی گئیں انہوں نے عمومی شعبہ جات سے لے کر پاکستان کی سربراہی تک اپنا نام پیدا کیا اگر آپ کے ذہن میں یہ ہے کہ مرد کو حاکم مقرر کیا گیا ہے تو حاکمیت کا تصور عدل و انصاف ، احساس ، حقوق کی ادائیگی ، پیار محبت ، آزادی ، اور رعایا کے مفادات کا پیہم تحفظ ہے۔  ان کی عدم موجودگی جابر و ظالم حاکم ہوتی ہے جسکے خلاف کلمہ حق جہاد ہے۔ احساسِ کمتری میں مبتلا علم کے حصول کی پہلی درسگاہ یعنی ماں کی گود پر اعتماد اور ترقی پسند قوم کیسے پروان چڑھائے گی ۔اپنی عورت کو اعتماد دیجیے۔ہماری قبائلی و جغرافیائی مردانہ برتری کے علاوہ کہیں حشر برپا نہیں ہو گا۔

سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے عرض ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری یا اسٹیج کی بہ نسبت ہماری ڈرامہ انڈسٹری اب تک اپنی ساکھ جس لیے بچائے ہوئے ہے وہ ہے Quality content۔۔۔۔ ہمیں اس امر پر ضرور توجہ دینی چاہیے کہ آپ وقت لگا رہے توانائیاں خرچ کر رہے ہیں تو آپ کے مطمع نظر کیا ہے ؟ یہ اہم سوال ہے۔۔ معیاری شے دیرپا ہوتی ہے۔۔۔ اسکی مانگ بڑھتی ہے غیر معیاری شے اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔

دس سال سے یہ ناچیز ایک ادنی سا شاعر اور لکھاری اپنی نظموں ،تحریروں اور ویڈیوز کے ذریعے آسمان پر خدا کی جنت کو چشمِ تصور سے دیکھتے ہوئے زمین پر اپنے محدود دائرہ کار میں اسکا عکس بنانے کی اپنی سی ٹوٹی پھوٹی سی کوشش کرتا ہوں۔۔۔عربی میں اسلام کی بجائے اردو میں سلامتی کے دین کا قائل ہوں۔ اب تک کی زندگی میں اچھے انسانوں ہی کو اچھے مسلمان بنتے دیکھا ہے۔ وہ لوگ جو رحیم خدا کے رحمت للعالمین نبی ص پر اترے سلامتی کے دین کے عملی نمائیندے بن کر انسانیت کے لیے بے ضرر ہو جاتے ہیں۔ وہ جو اسکے نائب ہی رہتے ہیں خدا نہیں بنتے ۔جن کی نیکی اس پھل کی طرح ہوتی ہے جو شاخ پر لگے تو وہ جھک جاتی ہے۔۔جن کے چہرے پر اُگے بال پھل ثابت ہو کر گردن کو جھکا دیں۔۔جو خدا کے پردے کے حکم  کے یوں قائل ہوں کہ اس کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے جیسے انسانوں کے پردے رکھیں جیسے خدا انکی پردہ پوشی کرتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک بڑے پیارے آدمی نے غلط فہمی میں آکر مجھ سے میرے دینی رجحان کی تاریخ پوچھی تو ہاتھ جوڑ کر عرض کیا خدارا غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ صف بندی کی جائے تو سب سے آخری صف میں کہیں گرتا گراتا ملوں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معافی چاہتا ہوں میں۔۔  فطری طور پر میں ،میں کا قائل نہیں بس سانحہ مینارِ پاکستان سے لے کر آج کے دن تک سوشل میڈیا پر بہت کچھ سننے کو ملا تو سوچا میں نے اس مضمون پر بہت عرق ریزی اور محنت کی اس سے پہلے کہ یہ کسی” ازم ” کا شکار ہو کر اپنا پیغام بھی آپ تک نہ پہنچا پائے آپ کو بتاتا چلوں کہ بچپن سے آج تک بھیڑ میں ،میں اپنی ماں کو اسکے برقعے سے پہچانتا رہا ہوں۔  اپنی پچھتر سالہ زندگی میں 40 برس مجھ پر نچھاور کر کے سفید ہوئے بالوں اور نحیف جسم کو جب اس شدید حبس اور گرمی میں ،میں پسینے میں شرابور دیکھا تو کہا کہ اب آپ ، برقعے کی بجائے چادر لے لیا کریں تو انہوں نے کہا نہیں۔۔۔۔ منوں چہکا  آندا اے (مجھے جھجھک آتی ہے)   ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply