اَگنی پتھ: کیا یہ آئین مخالف منصوبہ نہیں ہے؟۔۔ابھے کمار

ان دنوں پورے ملک میں” اَگنی پتھ اِسکیم “کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ اتر پردیش، بہار، ہریانہ، تیلنگانہ جیسی ریاستوں میں بے روزگار اور مصیب زدہ نوجوانوں کا غصہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کے بنیادی مسائل کو حل کرنا ارباب اقتدار کی اولین ترجیح نہیں رہی۔ روزگار پیدا کرنے سے زیادہ انہیں بڑے بڑے سرمایہ داروں کے خزانہ کو بھرنے اور انتخابات کو جینتے کی فکر رہتی ہے۔ نریندر مودی کی بی جے پی سرکار نے لوگوں سے یہ وعدیٰ کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ روزگار پیدا کرے گی۔ ملک کے نوجوانوں نے مودی جی کو ایک نہیں دو دو موقع دیے۔مگر آٹھ سال گزر جانے کے بعد بھی ان کی سرکار روزگار دینے میں پوری طرح سے ناکام رہی ہے۔ حالانکہ بھاجپا والے اپنے حریفوں کو آئین مخالف کہتے نہیں تھکتے ، مگر روزگار پیدا نہیں کرنا اور عوامی بہبود سے منہ موڑ لینا کیا آئین مخالف امر نہیں ہے؟

آئیں سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ” انگی پتھ منصوبہ” کیا ہے پھر ہم اس پر بھی چرچہ کریں گے کہ کس طرح یہ منصوبہ آئین کی روح کے خلاف ہے ؟ فوج میں اب جوانوں کی بھرتی” اگنی پتھ اسکیم “کے تحت ہی کی جائے گی۔ ساڑھے سترہ سال سے لے کر اکیس سال کی عمر تک ہی نوجوان فوج میں کام کر سکتے ہیں۔ جب احتجاج  نے زور پکڑا تو اس کی عمر ۲۱ سال سے بڑھا کر ۲۳ سال کر دی گئی۔جہاں پہلے جوان اپنی پوری عمر فوج میں گزار دیتے تھے، اب ان کی نوکری صرف چار سال تک محدود کر دی گئی ہے۔اس مدت میں تربیتی پروگرام بھی شامل ہے۔ ۲۳ سال پورے ہونے کے بعد صرف ۲۵ فیصد جوانوں کو آرمی میں رکھا جائے گا باقی جوان سبکدوش ہو جائیں گے۔ جہاں “اگنی پتھ اسکیم “کے تحت نوکری پانے والے” اگنی ویروں “کی تنخواہ بہت کم ہوگی، وہیں ان کو کوئی پنشن بھی نہیں ملے گا۔ اس طرح کے اسکیم نہ صرف نوجوانوں کو بے روزگاری کو جنم دے گا ، بلکہ اس سے فوج کی کارگردگی پر بھی منفی اثر پڑےگا۔ سرکار صرف پیسہ بچانے کے لیے نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہی ہے ۔ بھارت جیسے ملک کے فوج کے لیے بہت سارے چیلنجز ہیں اور یہاں کے مسائل بھی بہت ہی جدا جدا ہیں۔ اس لیے کسی جوان سے یہ توقع کرنا کہ  چار سال کے اندر وہ سب کچھ سیکھ لے گا اور فوج کی تمام ضرورتوں کےمطابق اپنے فرائض کو انجام دےگا یہ خام خیالی  ہے۔ اس طرح کے پروگرام کا ایک بڑا خطرہ یہ بھی ہے کہ چار سال کے اندر جب کوئی جوان اسلحہ چلانے کی تربیت لے کر سبکدوش کر دیا جاتا ہےتو اس کے دلوں میں احساس کمتری بھر سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسلحہ کی تربیت لے چکے ان نوجوانوں کو کوئی گمراہ کرنے کی کوشش کرے  اور انہیں کسی متنازع مسائل پر ہتھیار بند مخالفت کرنے کے لیے آمادہ کرے۔ ایسا بھی خطرہ ہے کہ” اگنی پتھ اسکیم” سے نکلے نوجوان کہیں شہریوں کی رضا کار فوج کا حصہ نہ بن جائیں۔کہا جاتا ہے کہ بھارت کی فوج کافی پیشہ وارانہ ہے اور اس نے ابھی تک سیاسی لیڈرشپ کی قیادت میں کام کیا ہے۔ کیا “اگنی پتھ منصوبہ” فوج کی پیشہ وارانہ کارکردگی پر منفی اثر نہیں چھوڑتا ؟

ملک کی سالمیت کے علاوہ اگنی پتھ منصوبہ ملک کے آئین کی روح کے بھی منافی ہے۔ بھارت کے آئین کی تمہید کہتی ہے کہ “ہم بھارت کے عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں اور اس کے تمام شہریوں کے لیے حاصل کریں: انصاف، سماجی، معاشی اور سیاسی؛ آزادی خیال، اظہار، عقیدہ، دین اور عبادت؛ مساوات بہ اعتبار حیثیت اور موقع، اور ان سب میں اخوت کی ترقی دیں جس سے فرد کو عظمت اور قوم کے اتحاد اور سالمیت کو تیقن ہو۔۔۔” آئین کی تمہد   کا خلاصہ اور نچوڑ ہے یہ ہے کہ سرکار عوامی فلاح کے لیے کام کرے۔ تمہید میں یہ بات صاف طور پر درج ہے کہ ریاست کا کام سماجوادی یعنی سوشلسٹ معاشرے  کو  تشکیل دینا ہے اور سب کے لیے انصاف ،جس میں سماجی اور معاشی انصاف بھی شامل ہے، کو یقینی بنانا ہے۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ سوشلسٹ یا سوشلزم سے کیا مراد ہے؟ ماہر سیاست کے بیچ میں ان سوالوں پر ایک رائے نہیں ہے، مگر اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ سوشلسٹ نظام کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ریاست عوامی کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرے۔ تعلیم، روزگار اور صحت عامہ کی سہولت غریب سے غریب آدمی کو میسر ہو۔ سرکار روزگار پیدا کرے اور اقتصادی مسائل کو خود سےحل کرے۔ معاشی نظام کو بازار کے سپرد نہیں کیا جا سکتا ہے ، بلکہ سرکار کو اس پر کنٹرول رکھنا ہے، کیونکہ بازار اکثر منافع  کمانے کے لیے لوگوں کا استحصال کرتا ہے۔ سرکار کو پبلک سیکٹر کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہیے۔ جو بھی اہم کارخانے اور وسائل ہیں ان کی ملکیت عوام کی ہونی چاہیے ۔ اسے ہم نیشنلائز یشن کہتے ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ سرکار ملک کے وسائل کو خود اپنی تحویل میں لے اور اہم اداروں اور شعبوں کو قومی بنائیں۔ جب ملک کے وسائل کو نیشنلائز کیا جاتا ہے تو وہ کسی ایک کی ملکیت نہیں رہتے،بلکہ وہ ملک کا سرمایہ بن جاتی ہے۔ پھر اس کا استعمال نفع کمانے کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ سب کی بھلائی کے لیے کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ریل کا  کرایہ کم رکھا جاتا ہے تو اس سے مسافرو ں کو فائدہ ہوتا ہے اور اگر ریل کا کرایہ کچھ بڑھادیا جاتا ہے اور اس سے ریل کی آمدنی بڑھ جاتی ہے تو وہ کسی کی جیب میں نہیں جاتا ، بلکہ وہ پیسہ ریل کے ملازموں کی سیل پاور ریل کے بنیادی ڈھانچہ اور سہولت کو بہتر بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ سرکاریں ، خاص کر بھاجپا کی حکومتیں، آئین کی روح کے خلاف عوامی وسائل کو بجی کمپنیوں کے ہاتھوں لیز پر دے رہی ہے ، جو اسے بیچنے کے مترادف ہی ہے۔

روزگار پیدا کرنا سرکار کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بے روز گاری کی وجہ سے نوجوانوں کا مستقبل برباد ہو جاتا ہے اور وہ غلط راستہ پر بھی بھٹک سکتے ہیں ۔دستور میں درج تمہید کے علاوہ بھارت کے آئین کے چوتھے حصہ “مملکت کی حکمت عملی کے ہدایتی اصول ” بھی سرکار کو فلاحی کاموں کے لیے کہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر دفعہ ۳۸ کہتی ہے کہ “مملکت ، ایسے سماجی نظام کو، جس میں قومی زندگی کے سب ادارے سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف سے آراستہ ہوں، جہاں تک اس سے ہو سکے، مکمل طور پر قائم اور محفوظ کر کے لوگوں کی بہبود  کو فروغ دینے میں کوشاں رہے گی”۔ مگر حکومتیں آج غلط سمت میں چل رہی ہیں۔ ہر شعبہ میں نوکریاں ختم کی جا رہی ہیں۔ اگر کچھ لوگوں کو نوکر ی پر رکھا بھی جا رہا ہے ان سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جا رہا ہے اور کم سے کم مزدوری دی جاتی ہے۔ نوکری میں کوئی سوشل گارنٹی نہیں ہے اور نہ کوئی پنشن۔ سب ٹھیکہ داری نظام پر چل رہا ہے۔ ملک کی بد قسمتی دیکھیے کہ حکومتوں کے پاس سرمایہ داروں کے خزانہ کو بھرنے کے لیے  مال ہے، مگر عوام کے لیے روزی، روٹی، تعلیم، صحت عامہ اور روزگار پیدا کرنے کے لیے بجٹ نہیں ہے۔اس ناانصافی کے خلاف اور اپنے حقوق کے لیے ہم سب کو پُر امن طریقہ سے احتجاج کرنا ہی ہوگا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply