قبرستان میں بانگ؟/یاسر جواد

کارل مارکس اپنے امیر دوست کے ٹکڑوں پہ پلتا تھا، اُس نے ساری عمر کوئی کام نہ کیا اور بیوی بچوں کو غربت سے دوچار رکھا۔ اشتراکیت کے حامی اپنی بیویوں کو بھی مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ کارل مارکس کے حامی ریاست کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یہ اُس پراپیگنڈا کے اہم ترین نکات ہیں جو پاکستان مذہبی جماعتیں اپنے پمفلٹوں کے ذریعے کرتی رہی ہیں۔

البتہ وہ اقبال کو نواب آف بھوپال سے ملنے والی رقم کو ’وظیفہ‘ کہہ کر اُسی طرح قابل قبول بناتے ہیں جیسے انرجی سیور کو قمقمہ کہہ کر بجلی چوری کو مباح بنایا جاتا ہے۔ جہاں تک ’عورتوں کے اشتراک‘ والی بات کا تعلق ہے تو خود مارکس نے بھی کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا: ’’بورژا طبقہ ایک آواز میں چیخ اُٹھتا ہے کہ تم کمیونسٹ تو عورتوں کو بھی ساجھے کی ملکیت بنا دو گے۔ بورژوا کی نظر میں اُس کی بیوی کی حیثیت بھی پیداوار کے ایک آلے سے زیادہ نہیں۔ جب وہ سنتا ہے کہ آلاتِ پیداوار کا استحصال ساجھے میں کیا جائے گا تو لامحالہ اسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ عورتوں کا بھی یہی حشر ہو گا۔‘‘
بہت کم تحریریں ہیں جو مارکس کو ایک انسان کے طور پر بھی پیش کرتی ہیں، ایسا انسان جس نے ساری زندگی ایک نظریے کی توضیح میں صرف کی، اور آج زیادہ تر فلسفہ مارکسی یا اینٹی مارکسی کے سوا بہ مشکل ہی کچھ لگتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سچائی تو دور کی بات ہے، صرف درست بات کا بھی معاملہ ہو تو یہ جماعتِ اسلامی اور پاکستانی مذہبی جماعتوں کے بیانیے سے اُلٹ ہو گی۔ لیکن کیا کیا جائے، کہ متواتر ٹیکے لگتے رہنے سے اوپر بیان کردہ خیالات راسخ ہو چکے ہیں۔ کوئی یہ جاننے کا تردد نہیں کرے گا کہ کارل مارکس کا پڑھنا لکھنا بھی تو کام ہے، کہ وہ ریاست کے خاتمے کی نہیں بلکہ ایک خاص مرحلے کے بعد ’تحلیل‘ کی بات کرتا ہے۔ سرمایہ داری دولت کی قسیم کا نظام ہے تو آخر اشتراکیت دولت کی تقسیمِ نو کا۔ اگر ریاست نہیں ہو گی تو یہ تقسیمِ نو کیسے ہو گی؟ خیر ہم تو ابھی تک سیکولرازم کی تعریف نہیں سمجھا سکے۔
مسئلہ یہ ہے کہ مارکس اور ڈارون کی سب سے زیادہ تردید وہ کرتے ہیں جو خود فلسفے اور سائنس سے قطعی نابلد ہیں۔ ہمارے ہاں دونوں کو ہمیشہ مذہبی لوگوں نے نشانہ بنایا۔ شاہ محمد مری کا شکریہ کہ وہ ابھی تک لگے ہوئے ہیں اور لگے رہیں گے۔
ایک بار ایک سیانے دوست نے میری پوسٹ پر کہا تھا کہ تم قبرستان میں بانگیں دیتے رہو، کوئی اُٹھ کر جماعت میں شامل نہیں ہو گا۔ بات تو اچھی ہے، مگر جب تک اِس قبرستان میں ہیں اور زندہ ہیں، جو کام آتا ہے وہی کریں گے۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply