یہ خاکی اپنی فطرت میں /ڈاکٹر اظہر وحید

کہتے ہیں کہ ہم جو کچھ کھاتے پیتے ہیں، ہمارا وجود وہی خُو بُو اختیار کر لیتا ہے۔ انگلش میں ایک محاورہ ہے: You are what you eat۔ یہ محاورہ شائد صرف جسم کی حد تک ایک کلیہ فراہم کرتا ہے، لیکن اس کا اطلاق ہماری عادات و اخلاق اور کردار سب پر ہوتا ہے۔ کھانے اور پینے سے مراد صرف ظاہر میں کھانا اور پینا نہیں، بلکہ محاورتاً بھی ہم بہت کچھ کھاتے اور پیتے رہتے ہیں۔ غصہ کھانے والے کسی اور کھاتے میں ہیں اور غصہ پینے والے کسی اور قرینے میں۔ یہ محسنین کا قرینہ ہے۔ محسنین وہ ہیں جن سے اللہ محبت کرتا ہے۔ غصہ پی جانا معاف کرنے کا دیباچہ ہے۔ جب معافی اور تلافی کی کتاب مکمل ہوتی ہے تو اس کا اجر اتنا عظیم ہے کہ اللہ کریم قرآن کریم میں اعلان کرتا ہے کہ وہ ان سے محبت کرتا ہے۔

عمل کرنا بھی عمل ہے اور عمل سے رک جانا بھی ایک عمل ہے۔ صبر، برداشت اور تحمل اپنی کنہ میں کسی ممکنہ ردِّعمل سے خود کو روک رکھنے کا نام ہے۔ وجود چونکہ ایک وحدت میں ہے، اس لیے جب ہم عمل نہیں کرتے تو ہماری جگہ کوئی اور ذات جائے عمل سنبھال لیتی ہے۔ ہماری ذاتی اَنا جب کسی کام سے نکل جاتی ہے تو ذاتِ کُل کی اَنائے کُل اُس کی جگہ لے لیتی ہے۔
جب ہم کوئی ایک کام کرتے ہیں تو بہت سے کاموں سے خود کو الگ بھی کرتے ہیں۔ ایک انسان سب کام نہیں کر سکتا۔ مسجد میں جانے کے لیے بازار سے نکلنا پڑتا ہے۔ کتابِ لقاء کھولنے سے بہت پہلے ہمیں بہت سی لغویات کے ابواب بند کرنا ہوتے ہیں۔ رب کی طرف توجہ کو نصب کرنے کے لیے بہت سے کاموں سے فراغت درکار ہوتی ہے۔ بہت سے کام جائز ہونے کے باوجود حرم کے مسافر کے لیے ناجائز قرار پاتے ہیں۔ ایک مسافرِ حرم جب عازمِ سفر ہوتا ہے تو ایک مخصوص مقامِ میقات پر دنیاوی لباس کے رنگ رنگ لباس اتار کر اسے سفید احرام باندھنا ہوتا ہے۔ یہ احرام باندھتے ہی اس پر بہت سے حلال کام حرام قرار دے دیے جاتے ہیں۔ خوشبو لگانا سنت ہے، لیکن احرام باندھ لینے کے بعد اسے خوشبو سے بھی اعراض کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ اب وہ شخص جس نے کبھی اس راستے پر قدم نہ رکھا ہو، اس کے لیے یہ سمجھنا خاصا دشوار ہو گا کہ ایک حلال اور مسنون عمل کیسے متروک ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے وہ اسے دین میں بدعت یا اختراع سمجھ لے اور جھٹ سے اس پر کوئی فتویٰ صادر کر دے۔ دراصل جسے کوئی سفر درپیش ہوتا ہے، اسے ہی اس سفر کی جزیات و کلیات سے آگہی کا شرف حاصل ہوتا ہے۔

آمدم برسرِ مطلب، ہم وہ نہیں جو ہم کہتے ہیں، ہم وہ ہیں جو ہم کرتے ہیں۔ حاجی، حج کرنے والے کو کہتے ہیں، صرف حج کے لفظ کی تکرار کرنے سے کوئی حاجی نہیں ہوتا۔ بہت سے ٹریول ایجنٹ صبح شام لوگوں حرمین شریفین بھجوا رہے ہوتے ہیں، وہ صبح سے شام تک حج، عمرہ اور زیارت ایسے الفاظ دہراتے ہیں، لیکن انہوں نے خود کبھی زیارت نہیں کی ہوتی۔ مبلغین کو غور کرنا چاہیے، منصبِ وعظ و نصیحت پر براجمان صاحبانِ گفتار کو بہت غور کرنا چاہیے۔ کہیں وہ زائرین کو بک کرنے والے ٹریول ایجنٹ تو نہیں بن گئے۔ خود زیارت نہیں کرتے …… مصروفیت، کسالت اور کہولت کے باعث …… لیکن دوسروں کو زیارت پر آمادہ کیے جا رہے ہیں۔ اس کلیے کا اطلاق کلمے، قرآن اور اسلام پر بھی ہو سکتا ہے۔

حدیثِ پاک میں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا، جب تک اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ نہ ہوں۔ گویا مسلمان ہونے کے لیے یہ ایک ابتدائی کلیہ ہے۔ اس کی طرف کس نے توجہ کی ہے۔ اس کلیے کی طرف توجہ مبذول کرانا کس کی ذمہ داری تھی۔ کیا میں خود کو دوسروں کے لیے بے ضرر بنائے بغیر مسلمانی کا دعویٰ کر سکتا ہوں۔ جن کی یہ اُمّت ہے، وہ فرما رہے ہیں کہ جس نے ملاوٹ کی، وہ ہم میں سے نہیں۔ کیا خوراک اور ادویات میں ملاوٹ کا ارتکاب کرتے ہوئے میں اپنا شمار اُمتِ محمدیؐ میں کر سکتا ہوں۔ واضح اعلان ہے کہ جس نے اپنے چھوٹوں پر شفقت نہ کی اور بڑوں کا ادب نہ کیا، وہ ہم میں سے نہیں۔ اپنے سے چھوٹے مرتبے و مقام میں، علم و عمل میں اپنے سے جونیئرز پر تعذیب و تعذیر کا تازیانہ اٹھانے والا خود کو کیونکر مسلم اُمّہ کا فرد قرار دے سکتا ہے؟ اپنے سے بڑوں کے ساتھ گستاخانہ رویے کو، منہ ماری کو اپنا پیدائشی حق سمجھ لینے والا آخر کس منہ سے خود کو مسلمان کہلوا رہا ہے۔ عجب رویہ ہے …… چوری اور سینہ زوری کا محاورہ شاید ہمارے لیے ہی بنا ہے۔

پاؤں چلنے کے لیے ہیں، سر اٹھانے کے لیے ہے، زبان بولنے کے لیے اور کان سننے کے لیے …… اسی طرح علم عمل کے لیے ہے، نصیحت پکڑنے کے لیے، نہ کہ کرنے کے لیے …… عبرت پکڑنے کے لیے ہے، نہ کہ بننے کے لیے!! قرآن میں جہاں بھی ”آمنو“ کا لفظ آیا ہے، اس کے ساتھ ”عملوالصالحات“ بھی بتایا گیا ہے۔ جہاں بھی نماز کا ذکر ہے، وہیں زکوٰۃ کا حکم بھی ہے۔ نماز اگر پڑھنے والی چیز ہے تو زکوٰۃ ایک کرنے والا کام ہے۔ نماز کے تقاضے پورے ہی نہیں ہوتے، ہماری نماز قائم ہی نہیں ہوتی، جب تک ہم عملی طور پر معاشرے میں خرچ کرنے والے نہ بنیں۔ زکوٰۃ، صدقہ اور خیرات کے تمام احکامات ہمیں خرچ کرنے والا بناتے ہیں۔ خرچ کرنا ایک عمل ہے۔ اس باب میں بخل ایک بے عملی کہلائے گی۔

ایمان کے ساتھ عمل اور مسلسل عمل لازم و ملزوم ہیں۔ انبیاء، اوصیاء، اولیاء و صوفیاء سب عمل کرنے والے لوگ تھے۔ ایمان فکر کا عمل ہے۔ عمل وجود کا عمل ہے۔ کفر فکر کا جمود ہے۔ تشکیک فکر کا گرداب ہے۔ ایمان عمل کو ایک سمت دیتا ہے۔ جس کا ایمان قوی ہے، اس کا عمل راستی ہے، اور راست ہے۔ بے سمت عمل لغو کے باب میں آتا ہے۔ وہ عمل جس کی تصدیق و تائید کسی صاحبِ ایمان سے میسر نہیں آتی، لغو ہی کہلائے گا۔ عمل ایک سفر ہے۔ سفر منزل تک پہنچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اگر منزل پیشِ نظر نہ ہو تو مسافر راستے کے کھیل کود میں مشغول ہو جاتا ہے۔ منزل کسی صاحبِ منزل کی مراد تک پہنچنے کا نام ہے۔ صفات کی دنیا سے ہجرت کرتا ہوا، انسان اگر ذات تک نہ پہنچے تو مدعائے سفر حاصل نہیں ہوتا۔ فرمان ِ رسولِ کریم ہے: ”عمل کا دار و مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملتا ہے جس کی وہ نیت کرے۔ اس لیے جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسولؐ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو، اسے اللہ اور اس کے رسولؐ کی رضا حاصل ہو گی لیکن جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی نیت سے ہو، اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی“۔

اسلام کی خوب صورتی یہ ہے کہ یہ صرف ایمان اور عمل کی بات تک ہی محدود نہیں رہتا، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر نیت کو بھی ایڈریس کرتا ہے۔ ایمان لانے بعد مصروفِ عمل ہونے والوں سے وہ نیت کی پاکیزگی کا تقاضا کرتا ہے۔ کوئی عمل جس نیت سے کیا جاتا ہے، وہی اس کا صلہ اور انجام ہے۔ اگر نیک عمل رضائے الٰہی کے لیے کیا جائے تو حاصلِ کار لقائے الٰہی ہے۔ اگر کوئی عمل دولت، منصب یا شہرت کے لیے کیا جائے تو اس کا حاصل و ماحاصل بھی وہی ہے جو دولت کا ہوا کرتا ہے۔ دولت، منصب اور شہرت پر ایک وقتِ خزاں مقرر ہے۔ سدا بہار صرف اللہ کا نام ہے۔ رہے نام اللہ کا!!

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ نور السمٰوات والارض ہے۔ یہ خاکی انسان اپنی فطرت میں نوری ہے، نہ ناری ہے۔ نُور کی جستجو میں کیا گیا عمل نُور میں ڈھل جانے کا سامان و عرفان مہیا کرتا ہے۔ ایمان لانے کے بعد اِس خاکی وجود کو نُور میں ڈھلنا چاہیے۔ یہی مدعائے عمل ہے۔ دعوتِ عمل درحقیقت فنا سے بقا کی طرف ہجرت کا پیغام ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply