• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • غزہ کا قید خانہ اور گھروں کو واپسی۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

غزہ کا قید خانہ اور گھروں کو واپسی۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

کیا آپ اس بات کا تصور کرسکتے ہیں کہ ایک انسانی آبادی جس کی ایک طرف سمندر ہو اور باقی اطراف سے اسرائیل نامی قابض ریاست نے اسے گھیرا ہو، جو آئے روز بمباری کرے، ضروریات زندگی کو روک لے، اپنی ہی سرزمین میں داخلے کے لئے شدید موسم میں بھی گھنٹوں لائنوں میں لگائے رکھے، ہر چیک پوسٹ پر انسانیت دشمن رویئے کا مظاہرہ کیا جائے تو انسان کی زندگی کسی جہنم سے کم نہیں ہوگی۔ ارض فلسطین کے بیٹوں کو مغربی کنارے اور غزہ نامی قید خانوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ غزہ بڑا علاقہ نہیں ہے بلکہ بڑی چھوٹی سی زمین ہے، چند دن پہلے ایک دوست نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ غزہ محض چوبیس کلومیٹر لمبا اور تقریباً چار ساڑھے چار کلومیٹر چوڑا علاقہ ہے۔ آپ تصور کریں کہ ایک شخص پیدا ہوا ہے اور اس کی پوری زندگی چار کلومیٹر چوڑے اور چوبیس کلومیٹر  کے دائرے میں ہی گھومتی رہے اور اس چوبیس کلومیٹر کا اکثر حصہ بھی بڑھتی آبادی کی وجہ سے کنکریٹ کی عمارتوں سے بھر چکا ہے۔

میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ غزہ کے لوگ دراصل ایک قید خانے میں رہ رہے ہیں۔ انہیں وہی صورتحال درپیش ہے، جو آزادی سے پہلے ہندوستان والوں کو درپیش تھی۔ استعمار آج کا ہو یا سو سال پہلے کا، اس کے آزادی پسندوں کو کنٹرول کرنے کے پیمانے ایک جیسے ہیں۔ انگریز آزادی کے متوالوں کو  ریاستی جبر سے اٹھاتے تھے اور کالا پانی بھیج دیتے تھے، سنا ہے وہاں جا کر  آزاد کر دیتے۔ یہ ایک ایسا جزیرہ تھا، جہاں  چاروں طرف پانی اور درمیان میں جنگل سے ڈھکا جزیرہ تھا۔ یہاں ہزاروں کی تعداد میں آزادی کے متوالوں نے آزادی کے حصول کے لئے اپنی زندگیاں قربان کر دیں مگر استعمار کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔ غزہ میں بھی یہی ہو رہا ہے، بس فرق یہ ہے کہ ہندوستان میں کچھ لوگوں کو علاقہ بدر کرکے محدود کر دیا جاتا تھا اور یہاں پوری قوم کے جذبہ حریت کی پاداش میں جلا وطن کر دیا گیا ہے۔

جب دنیا نے عدم توجہ کا رویہ اختیار کر لیا، اپنے دشمنوں سے مل گئے اور امریکہ نے اعلان کر دیا کہ ہم اپنا سفارتخانہ یروشلم یعنی بیت المقدس منتقل کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی خبر تھی، اس کا مطلب یہ تھا کہ اب اہل فلسطین اپنے گھروں کے واپسی کے حق سے دستبردار ہو جائیں۔ یہ بات فلسطینیوں سے ان کی شناخت چھیننے کے مترادف تھی۔ جذبہ حریت سے سرشار اہل فلسطین نے اپنی زمینوں پر واپسی کے لئے دنیا کی توجہ دلانے کے لئے یوم نکبہ کے نام سے ایک تحریک کا آغاز کیا۔ فلسطینی بچے، خواتین، جوان اور بزرگ ہاتھوں میں فلسطینی جھنڈے لئے بارڈر پر پرامن احتجاج کے لئے آگے بڑھے، پھر دنیا نے اسرائیل کی وہ ننگی بربریت دیکھی، جس میں ان نہتے مظلوموں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ ہاتھوں میں غلیل اور پتھر اٹھائے فلسطینی کیا مقابلہ کرتے؟ ان پر براہ راست فائرنگ شروع کر دی گئی، جس کے نتیجے میں دسیوں لوگ شہید ہوگئے سینکڑوں زخمی ہوئے۔

اسرائیلی بربریت کے خلاف دنیا کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ اتنے فلسطینی شہید و زخمی ہوئے، اس پر دنیا کا ردعمل ملاحظہ ہو۔ مسلمان دنیا میں عالم اسلام کو سلانے کا کردار ادا کرنے والے ادارے او آئی سی کا اجلاس طلب کیا، جس میں مسلمان ممالک جمع ہوئے اور اگر نتیجہ پوچھیں تو وہ  نشستن، گفتن، خوردن اور رفتن ہی رہا۔ کچھ ممالک نے مسلمانوں کے  جذبات کو اپنی حمایت کے لئے استعمال کرنے کے لئے بلند بانگ دعوے کئے اپنے سفیر کو بلایا، ان کے سفیر کو نکالا، مگر ماضی کا تجربہ یہی ہے کہ زیادہ قیمت لینے کے بعد ناصرف سفیر واپس آجائیں گے بلکہ  تعلقات پہلے سے زیادہ مستحکم ہو جائیں گے۔ اہل فلسطین کے قتل عام پر اقوام متحدہ کا کردار بھی شرمناک ہے، سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی ہر قرارداد کو تو امریکہ ویٹو کر دیتا  ہے۔ ابھی اس کے اجلاس میں بھی یہی ہوا، پوری دنیا ایک طرف تھی اور امریکہ دوسری طرف تھا، اب بہرحال ایک کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دنیا کی آنکھ پر اتنا تعصب آچکا ہے کہ دنیا کے ایک معروف جریدے نے ایک طرف اسرائیلی ٹنیک کی تصویر لگائی اور دوسری طرف ایک فلسطینی غلیل سے پتھر پھینک رہا ہے اور سرخی لگائی کہ یہ درست ہے کہ اسرائیل ظلم کر رہا ہے، مگر تم نے بھی تو تشدد کا سہارا لیا۔ عجب ثم العجب، انسان محو حیرت چلا جاتا ہے کہ انسان تعصب میں اس حد تک آگے جا سکتا ہے کہ وہ ظالم کے ظلم پر تو مطمئن ہو، مگر مظلوم کی چیخوں پر معترض ہو کہ یہ لوگوں کا سکون تباہ کر رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یوٹیوب پر وہ ویڈیوز دیکھی جا سکتی ہیں کہ بوڑھے فلسطینی اپنے گھروں کی چابیاں دکھا کر بتا رہے ہیں کہ ہم کس طرح راتوں راتوں ان کے ظلم و بربریت سے بچنے کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ کر نکل آئے۔ غزہ، اردن، شام، لبنان میں فلسطینوں کی تیسری نسل جوان ہوچکی ہے۔ یہ نسل شناخت کے بحران کا شکار ہے، یہ ہر روز اپنے والدین سے اپنے گھروں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ دنیا ان کو بھول چکی ہے، مسلمان ممالک انہیں فقط بیان دینے کا ایک مسئلہ سمجھتے ہیں۔ کچھ آوازیں جو بظاہر پہلے ان کی حمایت میں تھیں، اب اسرائیل کی حمایت میں جا چکی ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے مغربی جریدے کو انٹرویو میں کہا  کہ فلسطینی اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے مسلط کردہ معاہدوں کو مان لین یا منہ بند رکھیں۔ ہم کتنے سادہ اور بکھرے ہوئے ہیں اور دشمن کس قدر چالاک ہے، کل ہی اسرائیل نے فلسطینوں کی سمندری ناکہ بندی کا اعلان کر دیا ہے اور وہ سمندر میں ایسا بندو بست کرے گا کہ کوئی بھی فلسطینی کشتی ایک خاص حد سے آگے نہیں جا سکے گی۔ اس کا مطلب وہی ہوا، جس طرح بارڈرز پر چار دیواری کرکے فلسطنیوں کو عملی طور پر جیل میں بند کر دیا ہے، اب سمندر کی طرف سے بھی فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا جائے گا۔ یہ سب انتظام کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ جب اللہ کی مدد آتی ہے تو ہاتھیوں کو ابابیل سے شکست ہوتی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب اہل فلسطین اپنی زمینوں پر لوٹیں گے، اسی طرح جیسے جتنی مدت بعد بھی پرندہ آزاد ہو تو اپنے گھونسلے کی طرف پرواز کر جاتا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply