مثل برگ آوارہ’سے
ایک روز سعد کام سے واپس آتے ہوئے کہیں سے نیویارک شہر میں شائع ہونے والا کوئی اردو اخبار اٹھا لایا تھا جس میں میں نے پڑھا تھا کہ معروف پاکستانی سیاسی کارکن اور دانشور شخصیت جوہر میر صاحب کسی ادبی رسالے کا اجراء کر رہے تھے جس کے لیے نیویارک شہر کے ایک ریستوران میں فلاں تاریخ کو ایک تقریب کا اہتمام کیا جانا تھا۔
میں ویسے ہی گھر میں بیٹھے بیٹھے اوبھ جایا کرتا تھا کیونکہ امریکہ میں کہیں جانے کے لیے گاڑی کا ہونا ضروری تھا۔ نہ تو میرے پاس گاڑی تھی اور نہ ہی میں نے امریکہ میں ڈرائیونگ کا لائسنس لیا ہوا تھا۔ میں کمرے میں بیٹھے بیٹھے اکتا جاتا تو ڈرائنگ روم میں آ بیٹھتا، جب ڈرائنگ روم میں سانس تنگ ہونے لگتی تو وسیع احاطے میں آ کر گھر سے سڑک تک بنے راستے پر مسلسل ٹہل لیا کرتا تاکہ ٹانگیں جمنے نہ پائیں اور جسم سے کم از کم کولیسٹرول کا اخراج تو ہو سکے۔
اردو دان لوگوں کے اکٹھ سے متعلق پڑھتے ہی میں نے اس تقریب میں شریک ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تین روز بعد میں اخبار میں بتائے گئے ریستوران پہنچا تھا۔ اس تقریب کا اہتمام کرنے والے جوہر میر صاحب مجھے ریستوران کے باہر ہی مل گئے تھے۔ میں نے انہیں پہچان لیا تھا کیونکہ ایک زمانے میں جب میں لاہور سے شائع ہونے والے ایک نظریاتی رسالے ” راستہ ” کی مجلس ادارت میں شامل تھا تو تب اس رسالے میں میر صاحب کے کچھ مضامین ان کی تصویر کے ساتھ چھپے تھے۔ میں نے اپنا تعارف کروایا تھا، میر صاحب خوش ہوئے تھے، وہ کچھ دیر باتیں کرتے رہے تھے جس کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ اندر ریستوران میں لوگوں کے ساتھ جا کر بیٹھیں۔
میں اندر جا کر انجان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا ،تھا۔ تھوڑی دیر بعد سیاہی مائل سفید داڑھی والا عینک پہنے ایک شخص داخل ہوا تھا۔ جب میں نے اسے اور اس نے مجھے دیکھا تو ہم دونوں کانوں تک پھیلی مسکراہٹ کے ساتھ ہنسی کے لڈو پھوڑتے ہوئے بازو پھیلائے “تیری تو ۔ ۔ ۔” کہتےہوئے ایک دوسرے کی جانب بڑھے تھے اور بار بار گلے ملے تھے۔ “اوئے مرزا تو یہاں” ” اوئے ظفریاب تو یہاں” کہتے اور ہنستے ہوئے ہم دونوں کی خوشی اور قہقہوں نے باقی سب لوگوں کی توجہ مبذول کرا لی تھی لیکن ہمیں کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ بالآخر جب ہم کسی حد تک نارمل ہوئے تو میں نے ظفریاب سے پوچھا تھا،” یار مجھے تو معلوم نہیں تھا کہ تم یہاں ہو، تم یہاں کیسے پہنچے؟” ظفریاب نے مجھ سے کہا تھا،” ملک دشمنی کے جرم میں ملک بدر ہو کر” اور یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا مخصوص قہقہہ بلند کیا تھا۔
ہم دونوں کے لیے اب تقریب کی اہمیت نہیں رہی تھی۔ ایک کھڑکی کے پردوں کے پاس کھڑے ہوئے ہم تقریب کی کارروائی سننے کی بجائے، دیکھتے ہوئے چپکے چپکے آپس میں باتیں کیے جا رہے تھے۔ ظفریاب نے پنجابی زبان میں پوچھا تھا، “پیو گے؟” “کہاں؟” میں نے کہا تھا۔ “یہیں اور کہاں” پتہ نہیں طفریاب نے کس وقت پردوں کے پیچھے ایک ادھا چھپا دیا تھا۔ سیون اپ کی بڑی بوتلیں تو ویسے ہی سامنے کی میزوں پر کھل چکی تھیں۔ اس نے ایک ڈسپوزیبل میں سیون اپ ڈالی تھی پھر پردے کے پیچھے سے اس میں وادکا ملا کر گلاس مجھے تھما دیا تھا۔ وہ خود پہلے سے ہی ایک گلاس بھرے پی رہا تھا۔
“یہ تم نے پردے کے پیچھے کیوں اور کس سے چھپائی ہوئی ہے؟” میں نے حیران ہو کر پوچھا تھا۔
” اس ریستوران کا مالک کوئی مولوی ٹائپ پاکستانی ہے جو الکحل کے سخت خلاف ہے۔ میر صاحب نے منع کیا تھا چونکہ میں بوتل پہلے سے خرید چکا تھا، اس لیے یہاں چھپا دی” وضاحت کرنے کے بعد ظفریاب نے محقل کے خیال سے اپنا مخصوص قہقہہ نہیں لگایا تھا البتہ ہنسا ضرور تھا۔
“تو بڑا ۔ ۔ ۔” باقی بات سمجھنا میں نے اس پر چھوڑ دیا تھا۔
“محفل تمام ہو گئی تھی۔ ہم دونوں نے میر صاحب سے اجازت چاہی تھی، ہاتھ ملایا تھا اور نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ظفریاب نے کہا تھا کہ آج رات اکٹھے بتائیں گے۔
ایک پاکستانی طالب علم کے اپارٹمنٹ جانے کے لیے ہم پیدل ہی چلتے رہے تھے۔ راستے میں ظفریاب نے مجھے اپنی کتھا سنائی تھی جو مختصرا” یوں تھی:” ہندوستان سے ایک ٹیم محنت کش بچوں پر دستاویزی فلم بنانے پاکستان پہنچی تھی۔ میں نے انہیں قالین بافی سے منسلک اور بھٹوں میں کام کرنے والے بچوں سے متعلق معلومات فراہم کیں اور ایسے بچوں اور ان کے والدین سے ملانے میں اس ٹیم کی معاونت کی تھی۔ حکومت نے مجھے دھر لیا اور مجھ پر ملک دشمنی اور ہندوستان کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام لگا دیا تھا۔ بین الاقوامی تنظیموں نے شور مچایا تو کہیں جا کر ضمانت ہوئی اور پھر مجھے امریکہ نے ٹیچنگ کے لیے یہاں بلا لیا”۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ بمنگھٹن یونیورسٹی میں لیکچر دیتا ہے۔ میں ڈاکٹر سعید باجوہ سے ملنے اس شہر میں گیا تھا لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ پاکستان کا منفرد صحافی اور میرا دوست ظفریاب احمد، جس سے اسے ملے ہوئے عشرے بیت گئے تھے، اسی شہر میں تھا۔
ہم ٹوین ٹاورز کے نیچے سے گذرتے ہوئے جہاں جانا تھا اس جانب گئے تھے۔ رات بو چکی تھی ورنہ نیویارک کی ان بلند ترین عمارتوں کو دیکھنا چاہیے تھا۔ ہم دونوں اس طالب علم کے گھر پہنچے تھے جو بہت عزت کرنے والا نوجوان تھا۔ ہم رات بھر پیتے اور باتیں کرتے رہے تھے۔ صبح ہو گئی تھی تو ہم دونوں سڑک پر نکل گئے تھے اور نیویارک سٹی کی خالی سڑکوں پر قہقہے لگاتے اور شور مچاتے رہے تھے۔
مجھے محسوس ہوا تھا کہ ظفریاب عادی شراب نوش ہو چکا ہے۔ وہ جتنا ہنستا تھا اتنا ہی اپنے اندر ٹوٹا ہوا تھا۔ مگر مجھے یقین تھا کہ ظفریاب باہمت شخص ہے اور زندگی سے عرق نچوڑنے کا عادی۔ میں اسے جانتا تو طالب علمی کے زمانے سے تھا جب میں اپنے ہم خیال طالب علموں سے ملنے پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے ہوٹلوں میں جایا کرتا تھا لیکن ہم دونوں میں یگانگت تب سے بڑھی تھی جب وہ بائیں بازو کے خیالات کو فروغ دینے والے ایک انگریزی محلہ ” ویو پوائنٹ” میں کام کیا کرتا تھا۔ میں اپنی بیوی میمونہ کے ہمراہ اکثر اس کے پاس جاتا تھا۔ بعض اوقات جب بیوی ساتھ نہ ہوتی تو ہم شام گئے دفتر کے کھلے احاطے میں بیٹھ کر پینے کا شغل کر لیا کرتے تھے۔
مجھے اتنے عرصے کے بعد ظفریاب کے ساتھ ملنا بہت اچھا لگا تھا اور ظفریاب بھی اس اچانک ملاقات سے بے حد خوش تھا۔ کہیں صبح کے سات بجے ہم ایک دوسرے سے جدا ہوئے تھے اور میں گھر جانے کے لیے نیویارک سنٹرل ریلوے سٹیشن کے لیے روانہ ہو گیا تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں