کسان اور موجودہ پاکستان۔۔محمد اسلم خان کھچی

کسان اور موجودہ پاکستان کا رشتہ “محبوب اور محبوبہ ” کے رشتے جیسا ہے ۔ آج کہ زمانے میں چونکہ رشتوں کا بھی کامرس سے گہرا تعلق ہے تو یہاں یہ مثال فٹ بیٹھتی ہے کیونکہ محبوب کی بھری جیب محبوبہ کی ہر پل کی خوشی کا سامان بنتی ہے۔اگر محبوب خوشحال ہے تو وہ محبوبہ کے نخرے اٹھائے گا۔ برانڈڈ کپڑے, جوتے, گوچی کے پرس, گاڑی اور اس طرح کے بہت سے لوازمات محبوبہ کے حسیں لبوں پہ خوبصورت مسکان سجائے رکھیں گے اور زندگی رات دن کی مدبھری سرگوشیوں میں مہکتے خوشبودار سانسوں کی مدہوشیوں میں رواں دواں رہے گی۔

یہ خواب اس وقت ٹوٹے گا جب عاشق کی معاشی ترقی رکے گی۔ کریڈٹ کارڈ بند ہونا شروع ہوجائیں گے جب معشوقہ کی برتھ ڈے پہ Diamond Ring کی فرمائش پوری نہیں ہو پاتی تو معشوقہ کے دل میں پہلی دراڑ پڑتی ہے اور وہ کسی ہائی فائی ریسٹورینٹ میں کھانا ادھورا چھوڑ کے ہائی ہیل Gucci Shoes کی ٹک ٹک کی آوازوں سے ڈائننگ ہال سے نکلتی ہے۔ ریموٹ سے ہونڈا سوک کا ڈور اوپن کرتی ہے غصے سے بھری GUCCI BAG کو پسنجر سیٹ پہ پھینکتی ہے اور پش سٹارٹ سے گاڑی سٹارٹ کرتی تھرلنگ ڈرائیو کے ساتھ اپنے گھر کو روانہ ہو جاتی ہے۔ معیشت کے ہاتھوں تباہ حال عاشق بیچارہ جو پہلے ہی حالات کا ستایا ہوا ہے ہونقوں کی طرح شرمندگی سے ڈائننگ ہال کےحالات کا جائزہ لیتا ہے۔ خفت چھپاتے ہوئے ویٹر کو بل ادا کر کے وہاں سے روانہ ہوجاتا ہے۔ کمزور معاشی پوزیشن سے محبوبہ کے دل میں پڑی دراڑ مزید گہری ہوتی چلی جاتی ہے ۔عاشق دوبارہ نئی امنگوں اور توانائیوں کے ساتھ اپنی معاشی حکمت عملی نئے سرے سے ترتیب دیتا ہے تاکہ وہ اپنی حسین و جمیل ملکہ کو پہلے جیسی زندگی کی خوبصورتیاں فراہم کر سکے۔کامیاب نہ ہونے کی صورت میں خودکشی پہ مجبور ہو جاتا ہے۔

محبت و عشق کے اس کھیل میں رقیب کا عنصر شامل ہونا لازمی امر ہے جو دو دلوں کے درمیاں دوریاں پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رھتا ہے ہر موقع پہ وار کرتا ہے لیکن اسکی کامیابی یا ناکامی کا انحصار عاشق معشوق کی ذہنی تنزلی و ترقی پہ ڈیپینڈ کرتا ہے

90 کی دہائی میں ریاست اور کسان کا رشتہ بھی کچھ اس جیسا تھا۔ کسان عاشق تھا اور ریاست محبوبہ تھی۔
محبوبہ کو خوش کرنے کیلئے کسان جان توڑ محنت کرتا۔ صبح سویرے منہ اندھیرے ٹریکٹر اسٹارٹ کرتا۔ کھیتوں میں ہل چلاتا اور سورج نکلنے کے ایک دو گھنٹے بعد گھر واپس آتا۔ تندوری پراٹھا, چاٹی کی لائیٹ براؤن لسی اور مکھن کے ساتھ ناشتہ کرتا اور مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا گاؤں کی مشترکہ چوپال میں حقہ کے نشے سے خود کو مدہوش کرنے کی کوشش کرتا۔ قہقہے, ہنسی مذاق, پنجہ آزمائی سے دل بہلائے جاتے اور دوپہر ہوتے ہی کسان گھروں کو لوٹ جاتے کیونکہ شام سے پہلے دوبارہ کھیتوں کے کسی معاملے کو ہینڈل کرنا ہوتا۔

میں چونکہ پینڈو آدمی ہوں تو مجھے اندازہ ہے کہ کسان کی مصروفیات کیا ہوتی ہیں۔ پانی کی وارہ بندی ہوتی ہے۔ ہر کسان کو فی ایکڑ کے حساب سے پانی ملتا ہے تو ہر کسان اپنے مقررہ وقت پہ کسی اٹھائے اپنے مخصوص نکے پہ پہنچ جاتا ہے ۔ مقررہ وقت پہ دوسرے کسان بھائی کی موجودگی میں کسی کے دو تین ” ٹپوں ” سے پانی کا رخ اپنے کھیتوں کی طرف کرتا ہے ۔ کھیت سے لیکر ٹیل تک کسان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ پانی کے ضیاع کا خیال رکہے اس لئے وہ کندہے پہ کسی اٹھائے کھیت سے نہر تک چکر لگاتا رہتا ہے تاکہ کھال ٹوٹنے کی صورت میں پانی کا ضیاع نہ ہو۔

جان توڑ اور ان تھک محنت کرتا ہے تاکہ وہ اپنی محبوبہ یعنی ” ریاست ” کو زندگی کی تمام ضروریات سے محروم نہ ہونے دے ۔گندم اگاتا ہے۔ کپاس کاشت کرتا ہے۔ طرح طرح کی سبزیاں کاشت کرتا ہے۔ مکئی, چاول, گنا اور اس طرح کی تمام اجناس کی بھرپور پیداوار کیلئے ان تھک محنت کرتا ہے۔ گندم کی پیداوار میں سے سال بھر کی ذاتی ضرورت کیلئے رکھتا ہے۔ پٹواری کی خدمت کرتا ہے۔ کچھ غریبوں میں تقسیم کرتا ہے اور باقی کی گندم محبوبہ کی خدمت میں پیش کر دیتا ہے۔ 6 ماہ کیلئے اتنا کچھ بچا لیتا ہے کہ شادی, خوشی, غمی میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہیں آتی۔ وقت ہنسی خوشی گزرتا رھتا ہے۔ عاشق اور معشوق کی محبت بھی برقرار رہتی ہے۔

میرا تعلق چونکہ گاؤں سے ہے۔ مکمل طور پہ پینڈو آدمی ہوں۔ تھوڑا بہت پڑھنے لکھنے کے باوجود بھی میری اپنی شخصیت کا اصل پینڈو پن ہی ہے۔
1990 سے لیکر 2009 تک کسان بہت خوشحال تھا۔ ہل بیلوں کی جوڑیوں کی بجائے ٹریکٹر سے چلایا جانے لگا تھا۔ نہری پانی وافر مقدار میں موجود تھا جو ایک گھنٹے میں ایک ایکڑ زمین سیراب کر دیا کرتا تھا۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ 80 کی دہائی میں بھی کسان بہت خوشحال تھا ٹریکٹر موجود نہیں تھا لیکن اس کے باوجود کسان اپنی زمیں کا چھوٹا سا ٹکڑا بھی خالی نہیں رکھتے تھے۔ بیلوں کی جوڑیوں سے ہل چلانا بہت ضرور تھا ۔کسان اپنی پوری کوشش کے باوجود بھی پورے دن میں ایک ایکڑ سے زمین کا سینہ نہیں چیر سکتا تھا لیکن کسان اس کا حل بھی نکال لیتے تھے۔
جو لوگ اس شعبہ سے وابسطہ ہیں۔ انہیں پتہ ہے کسی بھی فصل کی بوائی کا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے جو کہ پندرہ دن کے دورانیئے پہ مشتمل ہوتا ہے جس میں یہ ممکن ھی نہیں ہوتا تھا کہ کوئی کسان اپنی پوری زمین پہ فصل کاشت کر سکے ۔

میرے والد صاحب اَن پڑھ ضرور ہیں لیکن اللہ رب العزت نے انہیں فہم و فراست سے نوازا ہے اس مسئلے کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ کسانوں کا ایک ” جائنٹ وینچر ” بنا دیا کہ جس بھائی کے کھیت میں ہل چلانےہوتے تو گاؤں کے کم از کم دس کسان اپنے بیل جوڑی لیکر آتے اور ایک ہی دن میں پورے کھیت میں ہل چلا کے کام مکمل کر دیتے ۔
یقین کیجئے۔۔۔ شادی کا سا ماحول ہوتا۔ سردیوں کی سرد راتوں میں 4 بجے ہی بیلوں کے ٹل کھڑکنا شروع ہو جاتے اور بیلوں کی جوڑیاں میزبان کسان کے کھیت کی طرف روانہ ہو جاتیں۔

میرا چونکہ سکول سے ” اِٹ کتے ” جیسا ویر تھا تو میں بھی پیٹ درد کا بہانہ کر کے کھیتوں کی طرف روانہ ہو جاتا۔
وہاں ایسا ماحول اور محبت بھرا جذبہ دیکھنے کو ملتا کہ جنہیں الفاظ میں سمونا مشکل ہے۔ تمام بیل جوڑیاں ایک لائن میں کھڑی ہوجاتی۔ یوں سمجھیے کہ لائن لگائی جاتی۔ ہل کی لائن کو ایک دوسرے سے ملانا ضروری ہوتا تاکہ زمیں کی چیرائی کے درمیان کوئی گیپ نہ آئے۔ کسان بہت پرجوش ہوتے اور مقابلے کی سی کیفیت ہوتی۔ دنیا میں جتنے جاندار ہیں۔ سب میں مقابلہ اور جیتنے کی شدت سے خواہش ہوتی ہے۔ کمزور سے کمزور جانور بھی ہارنا نہیں چاہتا۔یہی حالت مشترکہ بیلوں کی ٹیموں کی ہوتی۔ کمزور سے کمزور بیل بھی اس وقت اتنے پھرتیلے ہو جاتے کہ ان کے جسموں میں کرنٹ دوڑنے لگتا۔اس لمحے ان کے جسموں پہ ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ منہ سے جھاگ نکالتے غراتے بیل زمین کا سینہ چیرنے کو بے تاب ہوتے۔ ہل چلانا شروع ہوتے۔ بیلوں کے گلے میں ڈلی گھنٹیاں اور کسانوں کا ایک دوسرے کو چیلنج کرنا خوبصورت سماں باندھتا ۔ٹخ ٹخ کی آواز سے بیلوں میں بجلی دوڑنے لگتی۔گھنٹہ بھر میں ھی ایکڑ مکمل ہو جاتا اور بیل اگلے کھیت میں داخل ہو جاتے۔

جس کسان کے کھیت میں ہل چلائے جاتے, اس دن ناشتہ اسی کسان کے گھر سے آتا۔ تندوری مکھن سے چوپڑی موٹی روٹیاں, لسی سے بھرے مٹی کے مٹکے, گڑ, مکھن اٹھائے گاؤں کی مائیں بہنیں کوئی 9 بجے کے قریب سروں پہ سامان اٹھائے کھیتوں میں آتیں  اور کسی خالی کھیت میں کھیس بچھائے لنگر سجا دیتیں۔گرم کھانا کھانے کا رواج نہیں تھا۔ کسان مرضی سے کام روکتے اور بیٹھ کے ناشتہ نما کھانا کھاتے۔ ناشتے میں چھ چھ تندروی روٹیاں اور تین چار گلاس لسی پی کے ڈکار مارتے اور الحمد اللہ کہ کے اپنا فرض پورا کر دیتے۔

میں بھی شاندار ضیافت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پورا مقابلہ کرتا کیونکہ زور تو میرا بھی بہت لگتا تھا ۔مجھے تو ایسا محسوس ہوتا کہ میں خود ہی گلے میں ہل ڈالے زمین کا سینہ چیر رہا ہوں۔ بابا مجھے دیکھ کے گھورتے ضرور تھے کہ میں سکول نہیں گیا لیکن وہ مجھے کچھ کہتے نہیں تھے۔ لیکن میرے ایک چچا سید خاں مرحوم میری تاک میں رہتے تھے اور میرا ان سے چھپن چھپائی کا کھیل چلتا رہتا تھا۔ انہیں دیکھتے ہیں میں تیر کی طرح کھیتوں میں غائب ہوتا اور چھپتا چھاتا ہانپتے کانپتے گھر پہنچ جاتا۔ عجیب آدمی تھے خود تو چٹے ان پڑھ تھے لیکن میرے اور سکول کے استادوں کے پیچھے  ہاتھ دھو کے پڑے رہتے تھے۔ کبھی کبھی تو مجھے 11 گیارہ بجے دن سکول چھوڑ آیا کرتے تھے۔

خوبصورت گھبرو جوان تھے۔ 6 فٹ 5 انچ قد, چوڑی چھاتی, سڈول بدن, تہمد باندہے سینہ تان کے چلتے تھے۔ انکی عادت تھی کہ بڑے سائز کی تیز دھار کلہاڑی اپنے کندہے پہ سجا کے رکھتے تھے اور روزانہ اسکی دھار پتھر سے تیز کیا کرتے تھے۔ کلہاڑی سے ہی وہ تکبیر پڑھتے ہوئے بڑے سے بڑا جانور بھی ذبح کر لیتے تہے اور مجھے انکی کلہاڑی سے شدید نفرت تھی کیونکہ جیسے ھی وہ کسی جانور کو کلہاڑی سے ذبح کرتے تو مجھے یوں لگتا کہ کلہاڑی میرے گلے پہ ہے۔ ہزاروں منصوبے بناتا کہ کسی طرح اس منحوس کلہاڑی کو غائب کر دوں کیونکہ یہی تمام مصیبتوں کی جڑ ہے۔ اگر یہ نہیں ہو گی تو سکول کے استاد بھی نہیں ڈریں گے اور مجھے سکول بھی نہیں جانا پڑے گا۔ اسی دشمن کلہاڑی نے ھی مجھے پرائمری سکول جانے پہ مجبور کیا اور میرے ٹیچروں کو مجھ پہ خاص توجہ دینے پہ مجبور کیا ورنہ ہم تو بڑے بہادر تھے۔ اپنی عمر کے بڑے لڑکوں سے پنگا لینا اور لڑنا اپنی خاندانی شان سمجھتے تھے۔

چچا جان جوانی میں ہی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ورنہ یہ کلہاڑی ابھی بھی میری ساتھی ہوتی اور میں تیر کی طرح سیدھا ہوتا۔ اللہ رب العالمین انہیں بلند درجات عطا فرمائے۔۔۔۔
کسانوں کی مشترکہ ان تھک محنت اور جائنٹ ویٹر سے تمام زمیں پہ وقت پہ کاشت ہونے لگی۔ وقت بہت اچھا گزر رھا تھا۔ کسان خوشحال تھا۔ زرعی ترقیاتی بینک آف پاکستان کا مقروض نہیں تھا۔ 1990 سے لیکر 2009 تک کپاس کی فصل عروج پہ تھی۔ کسان اور ریاست کے درمیان رشتہ بہت مضبوط تھا دونوں اپنی ضروریات پوری کر رہے تھے لیکن محبت میں رقابت ضرور ہوتی ہے اس محبت میں بھی رقابت کے شاخسانے نے ریاست اور کسان دونوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔

وہ رقابت دار بزنس مین گروہ حکومت کی شکل میں آیا۔۔جس نے پورے پاکستان کو ایک بنجر چراگاہ میں تبدیل کر دیا۔ بزنس مین اقتدار میں آئے اور زراعت کی جگہ بزنس نے لے لی۔ میری نظر میں پاکستان چونکہ ایک بہترین موسموں کے ساتھ زرعی ملک تھا اور بہت تیزی سے ترقی کر رہا تھا لیکن اس شعبے کو باقائدہ سوچے سمجہے منصوبے کے تحت برباد کیا گیا جس میں ہماری دو حکومتیں ملوث تھیں۔
90 کی دہائی میں پاکستان کپاس پیدا کرنے والے ملکوں میں سر فہرست تھا۔ اعلی کوالٹی کی کپاس پروڈکشن پوری دنیا کی ٹیکسٹائل مارکیٹ پہ اپنا قبضہ کما چکی تھی۔ پاکستان ٹیکسٹائل کی صنعت میں بہت تیزی سے ترقی کر تھا تھا۔ کراچی سے پشاور تک ہزاروں ٹیکسٹائل ملز وجود میں آچکی تھیں۔ لاکھوں لوگ روزگار میں تہے کہ ایک اچانک ایسٹ انڈیا جیسی کمپنیاں پاکستان میں قدم جمانے لگیں کہ پاکستان میں کپاس کی فصل کو بہتر سے بہترین لیول تک لانے کیلئے آئی ایم ایف کی مدد سے ریسرچ ورک کر کے کپاس کی پیداوار کو بڑھایا جائے گا۔
ریسرچ ورک شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ اگر کچھ کیڑے مکوڑوں کو ختم کرنے کیلئے کپاس کی فصل پہ سپرے کیا جائے تو ہم اس سے بہتر پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی حکمرانی پہ چونکہ بزمین طبقہ مسلط تھا تو انہیں یہ پیشکش بہت بھائی اور انہوں نے بہت سوچ سمجھ کے اس پیشکش کو قبول کیا کیونکہ انکا بزنس ترقی کرنے والا تھا۔
یکے بعد دیگرے 4 ملٹی نیشنل کمپنیاں وجود میں آئیں اور انہوں نے لاکھوں ڈالر انویسٹ کرنا شروع کر دیئے۔ زرعی گریجویٹس کو ہینڈسم سیلیریز پہ ہائر کیا گیا اور انہیں کسانوں کو سپرے ورک پہ راضی کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ زرعی انجینیرز کو مالی سہولیات فراہم کی گئیں جن کا کام کسانوں کو سپرے ورک پہ قائل کرنا تھا۔ یہ کمپنیاں لاکھوں روپے خرچ کر کے کسی کسان کے ڈیرے پہ ورکشاپ منعقد کرتیں۔ کسانوں کو بہتر پیداوار کے لالچ دیئے جاتے اور بھولے بھالے کسان ان کے جھانسے میں آتے چلے گئے۔

جبکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک زرعی سائنسدان نے اس سارے معاملے میں ایک تفصیلی آرٹیکل بھی لکھا تھا کہ یہ پاکستان کے زرعی کلچر کو تباہ کرنے کی خوفناک سازش ہے حکومت پاکستان کو چاہئے کہ اس پہ خود ریسرچ کرے اور معاملے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے کوئی قابل عمل راہ اپنائے لیکن چونکہ اس سارے معاملے میں سب ملوث تھے تو انکی اس رپورٹ کو دبا گیا۔ انہوں نے مکمل تحقیق گوش گزار کی کہ کائنات کا اپنا ایک نظام ہے کہ اگر کپاس کو نقصان پہنچانے والا کیڑا پیدا ہوتا ہے تو اس کے مقابلے میں ختم کرنے والا کیڑا بھی پیدا ہوتا ہے۔ اگر ہم زہریلی ادویات کا استعمال کریں گے تو دوست اور دشمن دونوں کیڑے مر جائیں گے۔ کائناتی نظام کا توازن بگڑ جائے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ معاملات انسان کے قابو سے باہر ہو جائیں گے ۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ انکی بات سچ ثابت ہوئی اور معاملات انسانی دسترس سے باہر ہوتے چلے گئے۔

ابتدائی دنوں میں صرف ایک سپرے سے گزارا کیا جانے لگا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ تعداد 7 سپرے تک جا پہنچی۔ امریکن سنڈی,گلابی سنڈی, سفید مکھی, کالا تیلا, سفید تیلا جیسی بیماریاں وجود میں آتی گئی۔ سپرے بکتا رہا۔بزنس مین امیر ہوتا چلا گیا کسان مقروض ہوتا چلا گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں 192 غیر معیاری ان رجسٹرڈ جنرک پیسٹیسائیڈز کمپنیاں کام کر رہی تھیں۔ جنہیں کچھ سالوں بعد راتوں رات بند کر دیا گیا۔ کپاس کی کوالٹی خراب ہوتی گئی ۔دنیا بھر میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات ریجیکٹ کی جانے لگیں اور اس طرح دو دھائیوں میں تیزی سے ترقی کرنے والا ٹیکسٹائل سیکٹر تنزلی کا شکار ہوتا چلا گیا۔ ہزاروں ملیں بند ہو گئیں۔ لاکھوں مزدور بیروزگار ہوئے۔ رہی سہی کسر زرداری گورنمنٹ نے پوری کر دی۔ اچانک بجلی کا ایسا بحران پیدا کیا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری سروائیو نہ کر سکی۔ صنعت کار مقروض ہوتے چلے گئے اور بالآخر پاکستان کی 70 فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہو گئی اور اب وھی بنگلہ دیش دنیا میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی درآمد میں ٹاپ پوزیشن لے رہا ہے۔

پاکستان کپاس پیدا کرنے والا بہترین ملک تھا جو کہ دن بدن ترقی کی راہوں پہ گامزن تھا لیکن پاکستانی حکومتوں کے کارپوریٹ کلچر کی ڈھٹائی اور بددیانتی کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔
کسان کو ہر طرف سے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے۔2009 سے انٹرنیشنل ایجنڈے کے تحت تحت کسان کو ڈی ویلیو کرنے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ اور اس میں ،ماضی کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ، موجودہ حکومت ،بھی کافی حد تک کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔

ڈیمز کی تعمیر میں رکاوٹ کے خفیہ معاہدے, زہریلی کھادوں کا استعمال, نہری پانی کی کمی نے زرخیز زمینوں کو بنجر کر دیا ہے۔ ٹیوب ویل پہ سب سڈی دے کے کسانوں کی توجہ نہری پانی سے ہٹانے کی سازش کی گئی ہے کہ کسان کی توجہ ڈیم سے ہٹی رہے۔ کسان اور زرعی شعبے کو تباہ حال کر دیا گیا ہے۔زراعت کو کمزور کر کے پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی پہ وار کیا گیا ہے اور اس میں 2009 کے بعد آنے والی تمام حکومتیں ملوث ہیں۔ آج ریاست اور کسان کے درمیان عاشق معشوق کا رشتہ ختم ہو چکا ہے۔ خستہ حال مقروض کسان خودکشی کرنے پہ مجبور ہو چکا ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے کہ جب کسان تو مرے گا ہی مرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم بھی خوکشیوں پہ مجبور ہوں گے کیونکہ میٹرو, اورنج ٹرین اور موٹر وے کو چاٹ کے پیٹ کی بھوک نہیں مٹائی جا سکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب بھی وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور زرعی شعبہ پہ بھر پور توجہ دے۔ جتنا ہمارا کسان محنتی ہے اور جس طرح کی زمیں اس ملک کو عطا کی گئی ہے تو کسان کو دی گئی تین چار سو ارب کی سب سڈی اس ملک اور عوام کی قسمت سنوار سکتی ہے اور ہم ہمسایہ ملک ایران کی طرح پاکستان کی پوری آبادی کو دو روپے کی روٹی فراہم کر سکتے ہیں۔۔ ۔
اللہ رب العالمین ہمارے حکمرانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ ۔۔آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply