دشنام(خاکم بدہن)۔۔خضر شمیم

اب دیکھئے کہ گالی یا جسے گاڑھی اردو میں “دشنام” کہتے ہیں اس کے لئے انگریزی میں کتنے الفاظ ہیں : profanity , curse words , swear words , cuss words , bad words , expletives وغیرہ وغیرہ ۔ یہ امر کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے ؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ انگریزی معاشرے میں گالی کی اہمیت و افادیت اور اس کی مرکزیت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جو چیز کسی قوم کے لئے بہت اہم ہوتی ہے اس قوم کی زبان میں اس کے لئے مترادفات بہت ہوتے ہیں تبھی تو آپ نے بچپن میں کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ عربوں کے یہاں اونٹ اور تلوار وغیرہ کے لئے دسیوں الفاظ ہیں اور بعض روایات کی مانیں تو اونٹ کے لئے ان کے یہاں تو پچاس سے زائد الفاظ ہیں ، اور کیوں نہ ہوں جب کہ حضرت اونٹ کی اہمیت و افادیت صحرا میں سب پر واضح ہے ویسے ہی جیسے کسی بندے کو سرکاری جاب مل جانے کے بعد اس کو داماد بنانے کی اہمیت و افادیت ہر ہونے والے سسر جی اور ساسو ماں پر واضح اور ہویدا ہوتی ہے ۔ خیر آپ یہ نہ سمجھیں کہ گالی کی اہمیت صرف انگریزی معاشرے میں ہی ہے اور ہم تو بالکل پاکباز قوم ہیں اور ہمارا گالی سے کیا سروکار ، ایسا ہرگز نہیں ہے ، ہم بھی دشنام طرازی جیسے اوصاف حمیدہ کے معاملے میں کسی قوم سے پیچھے نہیں ہیں ۔ بہرحال جب کہ ہم گالی پر بحث کر ہی رہے ہیں تو کیوں نہ ہم اس کے تعارف سے شروع کریں کیونکہ بغیر تعارف کے کوئی علمی بحث مکمل نہیں ہوتی۔

اب دیکھئے ہر وقت آپ اس قابل اور اتنے طاقتور نہیں ہو سکتے کہ اپنے دشمنوں سے بدلہ لے سکیں ، تو ایسے موقعوں کے لئے پروردگار نے آپ کو زبان دیا ہے کہ آپ اس سے گالی دے کر اپنے غصہ کو کچھ ٹھنڈا کر سکے ، بعد میں جب حشر کا میدان سجے گا تو اس وقت تو ہر ظلم کا بدلا لیا جائے گا ہی ، لہذا گالی آخرت سے پہلے استعمال کرنے کے لئے مظلوم کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا تسکین کا سامان ہے ، پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر گالی نہ ہو تو انسان مزید ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہے۔

تو اگر ہم گالی کا تعارف کرانا چاہیں تو کچھ اس طرح کرا سکتے ہیں کہ گالی وہ الفاظ ہوتے ہیں جو تہذیبی اور ادبی اعتبار سے اور اپنے معانی کے اعتبار سے گندے اور گرے ہوئے ہوتے ہیں ، ان میں زیادہ تر اوقات جنسی معانی ہوتے ہیں ، اور یہ اس کی تحقیر و توہین کے لئے استعمال ہوتے ہیں جس کے لئے یہ الفاظ بولے گئے ہوں ، معنی کی گندگی اور غلاظت گالی کا خاصہ ہوتا ہے اور توہین و تحقیر اس کا مقصد .. اب دیکھئے میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ گالی کی شرعی حیثیت کیا ہے ، آیا یہ جائز ہے ، مباح ہے ، مکروہ ہے یا حرام ہے ؟ یہ بحث میں مفتیانِ کرام کے لئے چھوڑ دیتا ہوں ، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گالی کی اپنی جگہ اپنی افادیت ہے۔
اب دیکھئے ہر وقت آپ اس قابل اور اتنے طاقتور نہیں ہو سکتے کہ اپنے دشمنوں سے بدلہ لے سکیں ، تو ایسے موقعوں کے لئے پروردگار نے آپ کو زبان دیا ہے کہ آپ اس سے گالی دے کر اپنے غصہ کو کچھ ٹھنڈا کر سکے ، بعد میں جب حشر کا میدان سجے گا تو اس وقت تو ہر ظلم کا بدلا لیا جائے گا ہی ، لہذا گالی آخرت سے پہلے استعمال کرنے کے لئے مظلوم کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا تسکین کا سامان ہے ، پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر گالی نہ ہو تو انسان مزید ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ گالی کے اور بھی بہت سارے محل استعمالات ہیں ، آپ اسے فرسٹریشن کی حالت میں بھی استعمال کر سکتے ہیں ، گالی اسی طرح علاج فرسٹریشن ہے جیسے شادی علاج جوانی ۔ آپ خود ایک ایسی دنیا کا تصور کیجیے جس میں گالی جیسی کسی چیز کا وجود نہ ہو ، کیا اس دنیا میں ایک فرسٹریشن کا شکار انسان صحیح سالم رہ سکے گا ؟ یا کیا وہ فرسٹریشن سے پاگل نہیں ہو جائے گا ؟ اب میں تو کوئی بڑا ماہر نفسیات نہیں ہوں لیکن کچھ چیزوں کے لئے آپ کو بہت دقیق علم کی ضرورت نہیں ہوتی آپ اپنی عقل سلیم استعمال کرکے خود اسے سمجھ سکتے ہیں۔
جہاں تک گالی کی تاریخ کی بات ہے تو اس پر کوئی مضمون یا کتاب میری نظر سے نہیں گزری لیکن یہ بات بھی بالکل عیاں ہے کہ جب سے انسانی وجود ہے تبھی سے گالی کا بھی وجود ہے ، کیونکہ جہاں انسان ہوگا وہاں فرسٹریشن بھی ہوگا ، ڈپریشن اور ظلم و جور بھی اور یہی وہ مواقع ہیں جہاں پے کسی انسان کو گالی کی اشد ضرورت پڑتی ہے ۔ چنانچہ ہمیں ایک حدیث کے حوالے سے پتہ چلتا ہے کہ جب ایک موقع پر کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدے کے لئے آئے تو کسی بات پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کے خدا “لات” کو بہت غلیظ گالی سے نوازا ۔ لہذا ہم یہ بات بالکل آنکھ بند کر کے کہہ سکتے ہیں کہ جب سے انسانی وجود ہے تبھی سے دشنامی وجود بھی ہے۔
یہ تو رہی گالی کے مواقع استعمال کی بات لیکن ہم اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں موند سکتے کہ کچھ لوگوں کو گالی کی لت لگ جاتی ہے اور یہ لت بالکل شراب کی لت کی طرح ہوتی ہے ، چنانچہ یہ لوگ گالی صرف اس وجہ سے نہیں دیتے کہ وہ فرسٹریشن میں ہیں یا ان پر ظلم ہوا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ انہیں اس کی لت ہے ، چنانچہ یہ لوگ ہر وقت اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے گالی کا سیون کرتے ہیں اور ان کا کوئی بھی جملہ گالی کے بغیر جملہ مفیدہ کاملہ نہیں ہوتا ، اور اگر انہوں نے کسی جملے کے آخر میں کسی گالی کا اضافہ نہیں کیا تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ جملہ جملہ کاملہ نہیں ہو بلکہ جملہ ناقصہ رہ گیا ہو۔
وہی دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے گالی کو فلسفہ زندگی بنا رکھا بلکہ اسے معشوق کے درجے تک پہنچا رکھا ہو ، اور گالی کی حیثیت ان کے یہاں وہی ہوتی ہے جو ابو نواس ( 756 – 814 عیسوی ) کے یہاں شراب کی ہوتی تھی ، بتایا جاتا ہے کہ ابو نواس شراب کو صرف ایک پینے اور نشہ کی چیز نہیں سمجھتا تھا بلکہ اس کے نزدیک شراب کا ایک جاندار مادہ وجود تھا اور وہ اس کے عشق میں گرفتار تھا ، لہذا جب وہ شراب خریدنے جاتا تو دکاندار کو اس کی جو قیمت دیتا وہ اسے شراب کی مہر گردانتا پھر شراب کو پیغام نکاح دیتا اور پھر اسے اپنے لئے حلال کرتا ۔ لہذا یہ لوگ بھی گالی کو اپنے ہر دکھ سکھ کا ساتھی اور وفادار دوست گردانتے ہیں اور رات دن اس کی مالا جپتے نہیں تھکتے۔
تاہم گالی کا ایک پہلو ہے جو مجھے کبھی پسند نہیں آیا اور وہ ہے اس کا عورت مخالف (misogynist ) ہونا ، بیشتر گالیاں جو ہمارے معاشرے میں استعمال ہوتی ہیں وہ اسی صنف میں آتی ہیں ، اگر آپ پر ظلم کسی ایک بندے نے کیا تو آپ اس کی ماں ، بہن اور بیٹی کو کیوں ملعون اور ذلیل کرتے ہیں ، آپ کو چاہیے کہ آپ ایسی گالیاں دیں جو اس کی ذات تک محدود ہوں ، لیکن کیا ہم ایسی گالیوں پر اکتفا کر سکتے ہیں ؟ کیا بغیر مادہ مخالف یا misogynist گالیاں دیئے ایک انسانی معاشرہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے ؟ ماہرین نفسیات کو چاہیے کہ اس پر کوئی ریسرچ کر کے ہمیں بتائیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ ایک دن ہم ایک ایسا معاشرہ بنانے میں کامیاب ہوں گے جہاں لوگ گالی کا اشد ضرورت پڑنے پر استعمال کریں اور اس کا مادہ مخالف استعمال نہ کریں اور یہ کہ اس کی لت سے مکمل آزادی پانے میں وہ کامیاب ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ دی ٹرتھ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply