سرائیکی محنت کشوں کا قتل/عامر حسینی

میں سرائیکی قوم کے پانچ محنت کشوں کے تربت بلوچستان میں متعصب رجعت پسند نام نہاد بلوچ عسکریت پسند گروپ کے ہاتھوں قتل کی شدید مذمت کرتا ہوں ۔
اس اقدام کے ارتکاب کرنے والوں نے مظلوم و محکوم سرائیکی قوم کے محنت کش طبقات کو دوسری مظلوم و مجبور و محکوم بلوچ قوم کے درمیان نفرت، دوری اور لڑائی ڈالنے  کی کوشش کی ہے جبکہ دونوں اقوام ریاستی جبر، ظلم، استحصال، وسائل کی لوٹ مار، ڈیموگرافی کی تبدیلی ، ماحولیات کی تباہی کا سامنا کررہی ہیں ۔ دونوں اقوام کے محنت کش طبقات اپنی نجات کے لیے کوشاں ہیں۔

جو نظریہ محنت کشوں کو رنگ، نسل، زبان، مذہب کے نام پر تقسیم کرے، انہیں ایک دوسرے سے لڑائے، ان کی ‘طبقاتی لڑائی’ کو ‘قومی آزادی’ کی لڑائی سے الگ کرے اور ‘مہا قوم’ کے ظالم حکمران طبقے کے ظلم کو بنیاد بناکر اس قوم کے یا کسی دوسری ہمسایہ قوم کے محنت کش طبقات کا قتل جائز ٹھہرائے ،وہ رجعت پرست ، بنیاد پرست، نسل پرست فاشزم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
ظالم حکمران طبقات کے ریاستی جبر کی لڑائی تمام اقوام کے محنت کش مل کر ،متحد ہوکر، ایک دوسرےکی سانجھ میں لڑسکتے ہیں ۔

پاکستان کی تمام محکوم ،مظلوم اقوام اور جس قوم سے پاکستان کے حکمران طبقات کے غالب حصّے یعنی پنجابی قوم سے تعلق ہے اس قوم کے محنت کشوں کے اتحاد کے ساتھ ہی جنگ لڑی اور جیتی جاسکتی ہے۔

ویت نام کی آزادی کی لڑائی میں جیت اس وقت تک ممکن نہیں ہوئی ،جب تک امریکہ اور یورپ کے محنت کشوں نے ہڑتالوں کا راستہ نہ اپنایا اور سول نافرمانی کی تحریک نہ چل پڑی ۔
پاکستان کے جغرافیے کے اندر بسنے والی اقوام کے محنت کش، مظلوم و محکوم عوام جب تک حکمران طبقات کے خلاف باشعور ہوکر لڑائی نہیں لڑیں گے تب تک کسی کا آزاد ہونا اور نجات پانا ممکن نہیں ہوگا۔

ہمیں حکمران طبقات کی جانب سے پنجابی محنت کش طبقات کے اندر ‘غلط شعور’ کو اکھاڑ پھینکنے اور ہر ایک موقعہ پرست رجحان کی بیخ کنی کرنی ہوگی ۔ یہ کوئی معمولی ٹاسک اور آسان فریضہ ہرگز نہیں ہے۔

حکمران طبقات جن کے پاس ریاستی طاقت، سیٹھوں کے میڈیا کی طاقت اور اس کے پاس اسکول، کالج، یونیورسٹی کے نصاب اور وہاں پڑھنے والوں کو کنٹرول کرنے اور ایسے ہی سماج میں مغلوب و مجبور، محکوم، مظلوم اور جنسی، مذہبی ، نسلی ہر طرح کے جبر اور استحصال کا شکار طبقات کے شعور پر اپنے مفادات کے مطابق شعور مسلط کرنے کا ایک بڑا اّریٹس ہوتا ہے اور وہ بار بار مظلوم، محکوم،مجبور اور استحصال کا شکار مختلف اقوام کے محنت کشوں کے شعور کو ‘گمراہ’ کرتا ہے اور انہیں آپس میں لڑانے کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتا ہے۔

اسے اس آپریٹس کے لیے سب سے زیادہ مدد شہری پڑھے لکھے درمیانے طبقے / پیٹی بورژوازی سے ملتی ہے اور یہ صرف کسی مہا قوم قوم کا اربن پڑھا لکھا درمیانہ طبقہ ہی نہیں ہوتا جو حکمران طبقات کے غلبے، تسلط اور جبر کو برقرار رکھنے میں سب سے بڑی مدد فراہم کرتا ہے۔

اکثر یہ مدد مہا قوم پرستی جیسے ‘پاکستانی نیشنل ازم’ ہے کا جھنڈا اٹھاکر کی جاتی ہے لیکن کسی بھی مجبور و محکوم قوم کا اربن پڑھا لکھا درمیانہ طبقہ بار بار شاؤنزم / ایتھنک تعصب اور نفرت کے گڑھے میں گرتا ہے اور ایتھنک / لسانی شاؤنزم سے ابھرنے والا تشدد جو کسی دوسری قوم کے عام محنت کشوں کو نشانہ بناتا ہے ریاستی جبر اور حکمران طبقات کی وحشت و بربریت پر پردہ ڈالنے کے کام آتا ہے۔
سرائیکی محنت کشوں کے قاتل نہ تو بلوچ عوام ہیں نہ بلوچ محنت کش ہیں بلکہ یہ قاتل گروہ بلوچ قومی تحریک کو برباد کرنے کے لیے شاؤنسٹ بنیادوں پر دہشت گردی کررہا ہے اور اس سے بلوج قوم پر ریاستی جبر کرنے والی اسٹبلشمنٹ کو اپنا بیانیہ مسلط کرنے کا موقعہ ملتا ہے اور اسے بلوچ قوم پر اپنے جبر، ریاستی وسائل کی لوٹ کھسوٹ، جبری گمشدگیاں، ماورائے آئین و عدالت قتل ، آزادی اظہار پر لگی پابندیوں سے توجہ ہٹانے اور ایک گروہ کی انفرادی دہشت گردی کو اپنے جبر سے زیادہ بناکر دکھانے کا موقع ملتا ہے۔

سرائیکی خطے کے ترقی پسند قومیتی شعور کے حامل سیاسی کارکنوں، ادیبوں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کو اپنے اندر موجود دائیں بازو کے رجعت پرستانہ اور شاؤنسٹ قوم پرستانہ رجحان سے خبردار اور ہشیار رہنے کی ضرورت ہے اور اسے ‘بلوچ قوم کی سرائیکیوں کے خلاف دہشت گردی’ جیسا معنی دینے والوں کی مذمت کرنی چاہیے۔

دوسری طرف بلوچ قومی تحریک کے ترقی پسندوں کو بھی سرائیکی قومی تحریک کے رجعت پرست، شاؤنست، متعصب اور دائیں بازو کے رجحانات کے ترجمانوں کی ‘شدت پسندی/ اسٹبلشمنٹ نوازی’ کو پوری سرائیکی قومی تحریک پر چسپاں  کرنے سے از حد گریز کی کوشش ہے۔

اس وقت پاکستان کے حکمران طبقات جہاں قومی جبر و ظلم میں بہت زیادہ اضافہ کرچکے ہیں ، وہیں وہ محنت کش طبقات کی پبلک سیکٹر مین بچے کچھے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں اور اس کے خلاف بڑی عوامی احتجاجی تحریکوں کا ابھار صاف نظر آرہا ہے۔ حکمران طبقات ان احتجاجی تحریکوں کو مقدمات قائم کرکے ، گرفتاریاں کرکے ، پولیس، رینجر تشدد اور خود لاقانونیت پھیلاکر زبردستی ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ایسے وقت میں پاکستان کے اندر بسنے والی اقوام کے محنت کشوں کو تقسیم کرنے اور ان کے درمیان لڑائی کروانے کے لیے مذہبی و نسلی بنیادوں پر نفرت اور تشدد کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

اسٹبلشمنٹ کے جبر اور استحصال کو ہمیشہ مذہبی فرقہ پرستوں، لسانی و نسلی شاؤنسٹوں نے ہمیشہ مدد فراہم کی ہے اور مجبو و محکوم اقوام کی نجات کی تحریکوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کی ان کوششوں کو شعوری مداخلت سے ختم کرنا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم بلوج قومی تحریک کے ترقی پسند شعور رکھنے والے کارکنوں، شاعروں، ادیبوں ، طالب علموں ، سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ سرائیکی محنت کشوں کے قتل کی شدید مذمت کریں گے اور سرائیکی حطے کی عوام کو یک جہتی کا پیغام بھیجیں گے ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply