ادبی انعامات کی بے توقیری/یاسر جواد

فرانس کا سب سے بڑا ادبی انعام پری گونکورٹ (Prix Goncourt) انیسویں صدی کے ایڈمنڈ ڈی گونکورٹ نے 1903ء میں قائم کیا۔ یہ ہر سال فرانس میں دیے جانے والے 1500 ادبی انعامات میں سے اہم ترین ہے۔ اس کا انتظام اکادمی گونکورٹ چلاتی ہے جو دس اہل علم مردوں و عورتوں پر مشتمل ہے جو گزرے سال کے دوران شائع ہونے والی بہترین تخیلاتی نثری تحریر (عموماً ناول) منتخب کرتے ہیں۔ ایوارڈ کا اعلان ماہ نومبر کے اجلاس کے بعد کیا جاتا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ انعام کی کل رقم 1903ء والی (50 فرانک) کے مساوی یعنی 10 یورو ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قدیم یونان (پانچویں صدی قبل مسیح) میں بہترین ٹریجک ٹرائیلوجی پر ایک بکرا انعام میں دیا جاتا تھا، اور بہترین کامیڈی پر انجیر کی ایک ٹوکری اور وائن کا ایک جگ۔ اولمپک کھیلوں کے فاتح کے سر پہ بھی صرف لارل کے پتوں کا ہار ہی رکھا جاتا تھا۔
ول ڈیورانٹ لکھتا ہے کہ سوفوکلیز کے دور میں ڈراموں کے مقابلے منعقد ہوتے تھے۔ جس کے لیے لمبی فہرست میں سے دس جج قرعے کے ذریعے منتخب کیے جاتے۔ آخری کھیل کے اختتام پر ہر جج ایک لوح پر اندراج کرتا کہ اُس کے خیال میں پہلے، دوسرے اور تیسرے انعام کا حق دار کون سا ہے؛ لوحیں ایک مرتبان میں رکھ دی جاتی ہیں، اور ایک آرکون (مجسٹریٹ) کوئی سی بھی پانچ لوحیں اُٹھاتا۔ اِن پانچ آرا کی روشنی میں حتمی ایوارڈ کا تعین کیا جاتا ہے، اور باقی پانچ پڑھے بغیر ضائع کر دی جاتیں؛ چنانچہ کوئی بھی پیشگی نہیں جان سکتا کہ جج کون ہوں گے یا اُن میں سے کون حقیقی جج ہو گا۔
ہم نے اڑھائی ہزار سال بعد بھی ہر قسم کے ایوارڈ کی توقیر ہی ختم کر ڈالی ہے۔ ہمیں نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس سال کس کو نوازنا ہے، بلکہ ایوارڈ کو سامنے رکھ کر ہی ’’تخلیق‘‘ کی اور خود چھپوائی جاتی ہے۔ حال ہی میں پنجابی ادب کے ’ڈاہاں ایوارڈ‘ کی خاطر دھڑا دھڑ تخلیقات سامنے آ رہی ہیں جس کے اول انعام کی رقم تیس لاکھ کے قریب ہے اور کینیڈا کا چکر بھی لگوایا جاتا ہے۔
ہم دنیا کی ہر بہترین روایت کی ماں بہن ایک کرنے کے ماہر ہیں۔ لابیوں کی شکل میں جج باری باری ایک دوسرے کو انعام اور اعزازات دیتے اور دلواتے ہیں، پی ایچ ڈی حضرات اپنے دوستوں پر مقالے لکھواتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ اِن کی اشتہا بڑھتی ہی جاتی ہے۔شاید لکھنے والوں کو عام لوگوں سے مختلف ہونا چاہیے تھا، لیکن لکھنے والے بھی تو اپنے معاشرے میں سے ہی آتے ہیں۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply