ڈاکٹر صادق ایک عہد ساز شخصیت

یہ اس وقت کی بات ہے جب ہیپاٹئٹس جیسے موذی مرض کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے تھے ۔اس بیماری نے صوبہ سندھ میں ہر طرف اپنے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ اور یہ کئی زندگیوں کے چراغ گل کر چکا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس بیماری کی اصل وجہ کیا ہے۔ وہ تو بس کسی مسیحا کی منتظر تھی کہ وہ آئے اور ہماری اس موذی بیماری سے جان چھڑائے۔اس وقت سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ڈاکٹر تو تھے۔لیکن اس بیماری کو قابو کرنے میں ناکام رہے۔کراچی جیسے بڑے اور بےہنگم شہر میں ڈاکٹر تو بہت تھے ۔لیکن لوگ کراچی جانے سے کتراتے تھے ۔کیونکہ یہ بیماری شہر کی نسبت دیہی علاقوں میں زیادہ تھی ۔اور بہت تیزی سے پھیلتی جارہی تھی۔
ایسے میں ضرورت تھی حیدرآباد شہر میں ایک مسیحا کی۔ اور آخر وہ گھڑی آن پہنچی جب لوگوں کی دعائوں نے اپنا اثر دکھایا ۔اور حیدرآباد شہر کو ایک ڈاکٹر مل گیا مسیحاکی شکل میں۔جی ہاں ڈاکٹر صادق میمن جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔انھوں نے اس بیماری کے خاتمے کے لیئے وہ کارنامہ ہائے انجام دیئے، جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔اس نے کم مدت میں اس بیماری کو ایک حد تک کنٹرول کیا ۔اور لوگوں میں یہ شعور اجاگر کیا کہ ہم اس بیماری سے خود کو کیسے بچا سکتے ہیں۔اس نے ہیپاٹائٹس کے حوالے سے سندھ کے ہر شہر اور گائوں میں وہ معلوماتی سیمینار کیئے،کہ لوگوں میں یہ شعور اجاگر ہوگیا کہ اس بیماری سے کیسے بچا جائے۔ اور یہ بیماری کس صورت میں نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اس ڈاکٹر نے دیہی علاقوں میں جاکر غریب لوگوں کی وہ خدمت کی کہ لوگ آج بھی انھیں دعائوں میں یاد رکھتے ہیں۔ اس ڈاکٹر نے صرف سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں سیمینارز کے ذریعے اس بیماری کے حوالے سے لوگوں میں ایک شعور اجاگر کیا ۔لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اپنا اور اپنی فیملی کے بچائو کے لیئے ہیپاٹائٹس بی سی کا ٹیسٹ کرائو اور اپنی فیملی کی زندگی کو محفوظ بناو۔اور ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین لگا کر ہمیشہ کے لیئے ہیپا ٹائٹس بی سے محفوظ ہوجائو۔ صادق میمن نے حیدرآباد سمیت دیہی علاقوں میں اس بیماری کے خاتمے کے لیئے ایسا جال بچھایا کہ لوگ آج اس سے مستفیض ہورہےہیں۔انھوں نے دیہی علاقوں کے ڈاکٹروں کو بلا کر وہ آگہی فراہم کی کہ یہ سہرا کسی اور ڈاکٹر کے سر نہیں جاتا ۔آج بھی وہ ڈاکٹر دیہی علاقوں میں ایسے مریضوں کو وہ علاج معالجہ فراھم کرتے ہیں۔ جو ڈاکٹر صادق نے ان کو سکھایا تھا۔آج بھی دیہی علاقوں سے یہ ڈاکٹر ایسے مریضوں کو جو خون کی الٹیوں کے ساتھ ان کے پاس آتے ہیں۔ وہ سیدھا ڈاکٹر صاحب کے ایمس ہسپتال بھیج دیتے ہیںجہاں بروقت طبی امداد دے کر مریض کو بچا لیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صادق میمن نے لیور ٹرانسپلانٹ کے حوالے سے بھی لوگوں میں کافی آگہی فراہم کی اور لوگوں کو یہ شعور دیا کہ جگر کا عطیہ دینے سے ڈونر کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اور نہ ہی جگر کا ٹکڑا دینے سے جگر آدھا رہ جاتا ہے۔بلکہ ڈونر واپس اپنی صحت کی طرف لوٹ آتا ہے اور جگر بھی کچھ عرصے میں روبہ صحت ہوجاتا ہے۔ جب عوام میں اس حوالے سے شعور اجاگر ہوا تو لوگوں نے اپنے رشتےداروں اور لواحقین کو جگر کا عطیہ دینا شروع کردیا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ وہ تمام سہولیات بھی فراہم کی گئی۔ کیونکہ لیور ٹرانسپلانٹ کی سہولت پاکستان میں اس وقت موجود نہیں تھی۔لہٰذا ڈاکٹر نے مریضوں کو جلد سہولت کے لیئے یہ ذمہ بھی اپنے سر لیا۔ اور وہ تمام لوازمات جو دوسرے ملک جانے کے لیئے ضروری ہوتے ہیں۔انھیں فراہم کرنا جس ملک بھیجنا ہو وہاں کے ڈاکٹروں سے رابطے میں رہنا۔پاسپورٹ سے لیکر شناختی کارڈتک کی سہولیات کو آسان بنانے کے لیئے سب کچھ خود سے کرنا۔اور مریض ،اور مریض کے رشتے داروں کو زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔زیادہ تر مریضوں کوپڑوسی ملک انڈیا بھیجا جاتا ہے ۔اور ڈاکٹر صاحب اپنے مریض اور وہاں کے عملے سے رابطے میں رہتے ہیں۔
اس بیماری پر جو اخراجات آتے تھے ڈاکٹر صاحب نے اس میں بھی ایک حد تک کمی کروائی ۔ڈاکٹر صاحب کی خدمات کو کسی بھی طریقے سے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک اور بڑی کاوش ۔ڈاکٹر لوگوں کی ایک کھیپ تیار کرنا اس حوالے سے ۔اور انھیں وہ شعور اجاگر کرنا اس بیماری کے حوالے سے وہ لوگ جہاں بھی گئے ۔لوگوں کی خدمت کا ذمہ بڑے احسن طریقے سے انجام دیا۔اور دنیا کو بتایا کہ ڈاکٹر صادق نےجو شمع روشن کی تھی آج اس کی کرنیں پورے سندھ میں روشنی پھیلائے بیٹھی ہیں۔ڈاکٹر صادق سے لوگوں کی محبت کا یہ حال ہے کہ لوگ جب ڈاکٹر صاحب کو چیک اپ کرانے آتے ہیں۔وہاں کی سوغات ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں ضرور پیش کرتے ہیں۔حیرت کا یہ عالم ہے کہ اب جب ڈاکٹر صاحب نے اتنے لوگ تیار کرلیئے اور وہ ڈاکٹرز بھی لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں ۔لیکن پھر بھی مریضوں کا ایک تانتا ہے جو ڈاکٹر صاحب کی کلینک کے باھر جمع رہتا ہے۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply