رو رو کے وادی دے رہی جلتی ہوئی ہم کو صدا
ہم خوش نفس تکتے رہیں اس آگ کے حسن و ادا
شیشے کو پتھر جو لگا وہ ریزہ ریزہ ہو گیا
ساری خماری چھو ہوئی شب خون ہے تم کو سدا
کیوں کر کوئی آزاد ہو جب دل کو آزادی نہیں
جسموں کو قید ہے سو ہے اور روح دے دل کو صدا
سبزے میں آتش سبز رنگ۔ کیا خون ہے کیا خاک ہے؟
کیا عشق ہے کیا لاگ ہے؟ کیا حسن کا حق ہو ادا؟
سنتے تھے غالبؔ عشق میں بے کار ہو کر رہ گئے
ہم نے تو کیا کچھ کر لیا اس شوق میں خود کو گداؔ!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں