برادریاں

خالق کائنات نے انسانوں کو مختلف قبیلوں میں تقسیم فرمایا، تاکہ آپس میں ایک دوسرے کی پہچان رکھ سکیں۔ لیکن انسانوں نے اس پہچان کو عزت و ذلت کا معیار بنا لیا۔ اردو اور پنجابی میں قبیلے کے متبادل کے طور پر ذات یا برادری کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسلام برابری کا دین ہے لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے اسے برادری کا دین بنا دیا۔ اس خطے میں اتنی تعداد میں برادریاں ہیں کہ شائد ہی دنیا کے کسی اور خطے میں ہوں۔ تقریباً ہر برادری کے لوگوں کے مزاج کے متعلق کچھ نہ کچھ ایسا ضرور مشہور ہے جو ان کی عمومی پہچان بن چکا ہے۔ برادریوں کے حوالے سے بہت سی خود ساختہ روایات بھی ہیں۔ ذیل میں ہم چیدہ چیدہ برادریوں اور ان سے جڑی روایات (خود ساختہ) کا جائزہ لیتے ہیں۔کسی کی تنقیص یا بھد اڑانا مقصود نہیں ہے ہلکے پھلکے انداز میں فقط عام مشاہداتی تجزیہ ہے۔
آرائیں:
اپنے آپ کو محمد بن قاسم کی فوج کا علمبردار کہلوانے والی یہ برادری دنیا کی قدیم برادریوں میں سے ایک ہے۔ بلکہ میری خود ساختہ تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل اصل میں آرائیں ہی تھے جبھی انھوں نے من و سلویٰ کو ٹھکرا کر بارگاہ رب العزت میں پیاز اور کھیرے وغیرہ کھانے کی فرمائش کر ڈالی تھی۔ پیاز کھانے کے ساتھ جو حکیمی نسخہ منسوب ہے، وطن عزیز میں آرائیوں کی مجموعی آبادی دیکھ کر اس کی صداقت پر یقین محکم ہو جاتا ہے۔ میرے دوست عبدالاحد کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی آرائیوں پر مشتمل ہے۔ گویا آرائیں سائیں ہر دھائیں ۔ آرائیں اپنی معاملہ فہمی اور عقلمندی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اس کا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ ایک سید زادے بابا بلھے شاہ نےاپنے آرائیں مرشد کو خراج تحسین یوں پیش کیا تھا ” جیہڑا سانوں سید سدے دوزخ ملے سزائیاں “ حالانکہ انکی بہنیں اور بھرجائیاں کہتی رہ گئیں کہ ” من لے بلھیا ساڈا کہنا چھڈ دے پلا رائیاں “۔ ہمارے استاد محترم احمد ظہیر بٹ صاحب کہا کرتے تھے کہ آرائیں ہرگز کوئی برادری نہیں، یہ تو ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی شخص پر کسی بھی وقت طاری ہوسکتی ہے۔
جاٹ:
جٹ یا جاٹ کے نام سے مشہور یہ برادری مشرقی و مغربی پنجاب میں بکثرت پائی جاتی ہے۔ جٹ اے تے مت نئیں، مت اے تے جٹ نئیں ،جیسے یونیورسل فارمولے سے اپنی پہچان بنانے والی یہ برادری اپنی جفاکشی اور بھول پن کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ لڑائی جھگڑے کا شغل بھی پالتی ہے۔ جٹوں کے بارے میں خودساختہ روایات اور لطائف اتنے زیادہ ہیں کہ ان کیلئے ایک الگ بلاگ چاہئے۔ کہتے ہیں کسی گاؤں میں دو جٹ بھائی رہتے تھے جو تھے تو مسلمان لیکن مسجد کے اندر جانا بھی گناہ سمجھتے تھے۔ ایک دن گاؤں کے لوگ عشاء کے وقت زبردستی ان دونوں کو مسجد لے گئے۔ جونہی نمازی سجدے میں گئے، بڑے بھائی نے چھوٹے کو کہنی ماری اور دونوں کھسک لئے۔ صبح فجر کے وقت دونوں بھائی جب اپنے ڈھگے لئے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے تو مسجد کے سامنے سے گذر ہوا۔ نمازیوں کو سجدے میں دیکھ کر بڑے بھائی نے چھوٹے سے کہا " ویکھیا راتیں بچا لیا ناں۔ رات دے مولوی نے مودھے کیتے آ ہجے تک سدھے نئیں ہوئے" ( دیکھا رات بچا لیا نا۔ رات کے مولوی نے الٹے کئےہوئےہیں ابھی تک سیدھے نہیں ہوئے)۔
گجر:
گجر ایک بہت پیاری برادری ہے۔ گجر لوگ اپنا آبائی علاقہ کشمیر بتاتے ہیں لیکن گجروں کو دیکھ کر ہی یقین ہوجاتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔ گجر بننا کچھ مشکل نہیں۔ بندہ ایک ہفتہ نہ نہائے تو گجر بن جاتا ہے۔ یہ وہ شہزادی برادری ہے جس کے دم سے نصیبو لعل کی روزی روٹی چلتی ہے۔ نصیبو نے گجروں کے بارے میں اتنے گانے گائے ہیں کہ اکثر گجروں نے بھینسیں بیچ کر ڈیک خرید لئے ہیں۔ گجروں کے بارے میں ایک روایت ہے کہ گجر جب جنت میں جائیں گے تو انھیں وہاں بھی پھینٹی ہی لگا کرے گی۔ کیونکہ گجروں نے جنت کی دودھ کی نہروں میں بھی پانی ملا دینا ہے یا ان کو جاگ لگا کر دہی بنا دینا ہے۔
راجپوت:
خود کو راجوں مہاراجوں ( ان میں راجہ داہر بھی شامل ہے یا نہیں اس بارے میں مورخ(مورکھ) خاموش ہے) کی اولاد کہلوانے والی یہ نرالی برادری ہے۔ ہر وقت لڑتے رہتے ہیں۔ اور اگر کوئی ان سے لڑائی نہ کرے تو اس بات پر لڑ پڑتے ہیں کہ یہ ہم سے لڑ تاکیوں نہیں ۔ راجپوتوں کے حوالے سے ایک خودساختہ روایت مشہور ہے کہ ایک مرتبہ فرشتوں نے آرائیوں سے پوچھا کہ پوری زندگی کا سازوسامان ایک ہی بار مانگ لو تمھیں دے دیا جاۓ گا۔ آرائیوں نے کہا کہ ہمیں چار مربعے زمین اور آٹھ بیل دے دیئے جائیں تو ہمیں پوری زندگی کے لیے کافی ہیں۔ جٹوں سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ہمیں آٹھ مربعے زمین اور چار بیل دے دیئے جائیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ زمین آرائیوں سے دوگنی مانگ رہے ہو اور بیل آدھے؟ جٹوں نے جواب دیا کہ ہاں چار بیل ہم آرائیوں سے چھین لیں گے۔ اس کے بعد فرشتوں نے یہی سوال راجپوتوں سے کیا تو انھوں نے پچاس مربعے زمین مانگ لی لیکن بیل ایک بھی نہیں مانگا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ پچاس مربعے بغیر بیلوں کے کیسے کاشت کرو گے؟ راجپوتوں کا جواب تھا ۔ کاشت کس نے کرنے ہیں؟ بس ایکڑ ایکڑکر کے بیچتے جائیں گےاور کھاتے جائیں گے۔
شیخ:
بر صغیر کی کی سب سے معصوم برادری اور ان میں بھی افضل المعصومین چنیوٹی شیخ ہیں۔ کہتے ہیں ایک جگہ ایک جٹ ایک راجپوت اور ایک شیخ بیٹھے یہ ڈسکس کررہے تھے کہ کون اللہ کی راہ میں کس طرح مال خرچ کرتا ہے۔ سب سے پہلے جٹ نے بتایا کہ میں اپنے تمام پیسوں کو جمع کرتا ہوں۔ پھر زمین پر ایک دائرہ کھینچتا ہوں اور تمام پیسے ہوا میں اچھال دیتا ہوں۔ جو پیسے دائرے میں گریں وہ خود رکھ لیتا ہوں ہوں اور جو دائرے سے باہر گریں وہ اللہ کی راہ میں دے دےدیتا ہوں۔ اس کے بعد راجپوت بولا کہ میں بھی اپنے تمام پیسے ایک جگہ جمع کرتا ہوںپھر زمین پر ایک لکیر کھینچتا ہوں اور پیسوں کو ہوا میں اچھال دیتا ہوں۔ جو لکیر کے اس طرف گریں وہ میرے اور جو اس پار گریں وہ اللہ کے۔ آخر میں شیخ صاحب گویا ہوۓ بھئی رب کے ساتھ معاملات میں تقسیم کیسی؟ میں تو اپنے تمام پیسے جمع کرکے ہوا میں اچھال دیتا ہوں اللہ کو جتنے چاہیئے ہوں وہ رکھ لیتا ہے باقی نیچے میری طرف پھینک دیتا ہے۔
ذات برادری کے حوالے سے اس تحریر کا مقصد صرف اور صرف مسکراہٹیں بکھیرنا ہے۔ اگر کسی کو برا لگا ہو تو فوراً معذرت کرلے۔ رمضان المبارک میں بندہ کا دل بہت نرم ہوجاتا ہے۔
پس ِتحریر: کچھ ایسی برادریاں بھی ہیں جنھیں ہمارے ہاں دوسرے درجے کی برادریاں سمجھا جاتا ہے جو کہ یقیناً غلط ترین طرز عمل ہے۔ لیکن۔۔۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ لطائف اور خود ساختہ روایات بھی صرف انھی برادریوں کے بارے میں بنتے ہیں جنھیں معاشرے میں اعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔
نوٹ: ادارے کا ذات برادیوں کے سماجی رویوں اوربھولپن پہ بنے لطائف یا اس تحریر سے جزوی و کلی اتفاق ضروری نہیں۔قارئین اس تحریر کو مزاح کے انداز میں ہی لیں۔۔ (ادارہ)

Facebook Comments

ظہیر اقبال سیال
طالب علم اور اپنے آپ کو شناخت کرنے کی طرف گامزن

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”برادریاں

Leave a Reply