علمائے دیوبند کی بصیرت

علمائے دیوبند کی بصیرت
محمد نذیر ناصر

Advertisements
julia rana solicitors

طفیل ہاشمی صاحب نے مکالمے میں دیوبندیوں کے حوالے سے اچھا نقشہ کھینچا ہے حقائق پر مبنی تحریر لکھی ہے اس حوالے سے تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے ایک یہ کہ قیام پاکستان کے موقع پر دیوبندیوں کی رائے الگ الگ کیوں بنی اوریہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان کی حمایت اس کے تقدس اور نظریاتی تحفظ کے حصول کے لیے تھی۔
(1)بعض علماء نے متحدہ ہندوستان کی حمایت اس لیے کی تھی کہ مسلمانوں کی تقسیم کی صورت میں باقی ماندہ ہندوستان میں مسلمان کمزور ہونگے اور عملاً ان کی زندگی دوسرے درجے کے شہری کی رہے گی جو آج ہم دیکھ بھی رہے ہیں ۔متحدہ ہندوستان کی صورت میں نہ صرف مسلمان خطرات سے محفوظ رہیں گے بلکہ ان کا یہ اتحاد ان کو حق حکومت بھی دے سکتا ہے ۔ان علماء کا یہ خیال بھی تھا کہ تقسیم در تقسیم سے مسلمان ہندوؤں کے شر سے محفوظ رہ سکیں گے اور نہ ہی ان کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔ بہت سے حالات آج ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہندوئوں کا وہی رویہ نظر آرہا ہے ۔علمائے دیوبند کا ایک بڑا طبقہ قیام پاکستان کی تحریک میں پیش پیش رہا، علماء کے اس طبقے کا یہ خیال تھا کہ الگ ملک کے قیام سے مسلمانوں کی ایک خالص اسلامی ریاست قائم ہوگی اور مسلمان کو آزادانہ شرعی نظام کے نظام میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی ۔ علمائے دیوبند کا اختلاف سیاسی دور اندیشی اور بصیرت پر مبنی تھا جس کی طرف طفیل صاحب نے بھی اشارہ کیاہے۔
(2)دیوبندیت کے فوج سے تعلقات استوار ہونا اور پھر تحریک خلافت کا حصہ بن جانا میری نظر میں یہ ملکی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کےلیے جغرافیائی سرحدات کے محافظوں کے تعاون کی ایک عظیم مثال ہونے کے ساتھ وطن سے محبت کا عملی نمونہ ہے اور وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق ایک اچھا فیصلہ تھاکیونکہ ایک اسلامی نومولود ریاست کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری تھا۔موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو قیام پاکستان کے بعد دیوبندی مکتب فکر ملکی سیاست سے کنارہ کش رہنے کی بجائے سیاست میں اپنا کردار ادا کردیا اور آج تک ان کا یہ کردار جاری ہے ۔ علمائے دیوبند کی بصیرت کو دیکھیں اس میدان کو یوں ہی خالی نہیں چھوڑابلکہ ایک مضبوط نظم کوجے یو آئی کی شکل میں سیاسی طور پر پنجہ آزمائی کے لیے باقی رکھا جس کے بے شمار فوائداور ثمرات سامنے آئے ہیں
(3)دیوبندی اکثرعلماء آج بھی منہج اکابر پر چل رہے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ تعداد جو نہ ہونے کے برابر ایسے لوگوں کی ضرور ہے جو منہج دیوبند سے ہٹ چکے مگر ان میں سے بھی اکثر دہشتگردی میں ملوث رہے ہیں اور نہ ہی دہشتگردی کو جائز سمجھتے ہیں، تاہم بعض عناصر کو علمائے دیوبند کی یہ ادا پسند نہیں ہے ، اگرچہ ان میں سے بعض دیوبندیت کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر ان کے عمل وقول کا علمائے دیوبند سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply