• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وٹگنسٹائن اور پوپر کا مناقشہ اور عینی شاہدین/پروفیسر ساجد علی

وٹگنسٹائن اور پوپر کا مناقشہ اور عینی شاہدین/پروفیسر ساجد علی

کیمبرج یونیورسٹی میں مشہور فلسفی لڈوگ وٹگنسٹائن نے ایک مورل سائنسز کلب تشکیل دیا ہوا تھا جس کی ہفتہ وار نشستوں میں فلسفی اور فلسفے کے طالب علم فلسفیانہ معموں پر گفتگو کرنے کو جمع ہوتے تھے۔ 25 اکتوبر1946 کی میٹنگ کے لیے کارل پوپر کو کسی فلسفیانہ معمہ پر مختصر مضمون پڑھنے کی دعوت دی گئی۔

پوپر چند مہینے قبل ہی نیوزی لینڈ سے انگلستان واپس آیا تھا۔ اس نے جنگ کا سارا زمانہ نیوزی لینڈ میں بسر کیا تھا۔ چند ماہ پہلے پوپر کی کتاب اوپن سوسائٹی شائع ہو چکی تھی۔ اگرچہ پوپر اور وٹگنسٹائن دونوں کا تعلق وی آنا سے تھا لیکن دونوں میں کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی تھی۔

پوپر نے گفتگو کے آغاز میں فلسفیانہ معمہ کی ترکیب پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اگر فلسفیانہ مسائل کا کوئی وجود نہیں تو اس کے، یا کسی دوسرے فرد کے، فلسفی ہونے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ اس پر وٹگنسٹائن نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا کسی فلسفیانہ مسئلے کی کوئی مثال دو۔ پوپر کی پیش کردہ مثالوں کو وہ یا ریاضی کا مسئلہ کہہ دیتا یا منطق کا۔ تنگ آ کر پوپر نے اخلاقی مسائل کا ذکر کیا۔
کمرے میں آتش دان کی ایک طرف وٹگنسٹائن کی نشست تھی اور دوسری جانب مہمان مقرر کی نشست تھی۔ وٹگنسٹائن نے بے دھیانی میں پوکر ہاتھ میں تھام لی اور اضطراب کے عالم میں اسے گھماتے ہوئے پوپر سے کسی اخلاق اصول کی مثال بیان کرنے کو کہا۔ پوپر نے جواب دیا: مہمان مقررین کو پوکر سے ہراساں نہ کرنا۔ اس پر ایک قہقہہ بلند ہوا اور وٹگنسٹائن پوکر ہاتھ سے پھینک کر کمرے سے باہر چلا گیا۔

جب وٹگنسٹائن سرخ انگارہ پوکر لہرا رہا تھا برٹرینڈ رسل نے جو سامنے ایک آرام کرسی پر نیم دراز تھااور پائپ اس کے منہ میں تھا، رسل نے پائپ منہ سے نکالا اور کہا، وٹگنسٹائن! پوکر کو فی الفور نیچے رکھ دو۔ اس پر وٹگنسٹائن نے پوکر کو نیچے رکھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ عینی شاہدین کے بیانات میں اس بات پر اختلاف ہے کہ پوپر نے وہ جملہ وٹگنسٹائن کے سامنے بولا تھا یا اس کے کمرے سے باہر جانے کے بعد۔

اس واقعہ کے عینی شاہدین میں ایک پیٹرمنز بھی تھا جو بعد میں نیوزی لینڈ کی وکٹوریہ یونیورسٹی میں تاریخ کا پروفیسر رہا تھا۔ پیٹرمنز دنیا میں واحد شخص تھا جو وٹگنسٹائن اور پوپر دونوں کا شاگرد رہا تھا۔ نیوزی لینڈ میں اس نے پوپر سے فلسفہ پڑھا تھا اور کیمبرج میں وٹگنسٹائن سے۔ اس نے بھی ایک سے زیادہ بار اس واقعہ پر لکھا ہے۔ پوپر نے بھی اپنی خود نوشت میں اس کا ذکر کیا ہے۔ پیٹر گیچ وٹگنسٹائن کا شاگرد اور سچا پیروکار تھا۔ وہ بھی اس وقت وہاں موجود تھا اور اس بات سے انکار کرتا تھا کہ اس قسم کا کوئی واقعہ رونما ہوا تھا۔ اس کے نزدیک پوپر نے جھوٹ بولا اور اس واقعہ کو گھڑا تھا۔ برطانوی فلسفی اور لنڈن سکول آف اکنامکس میں پوپر کے رفیق کار جان واٹکنز نے پوپر پر اپنے تعزیتی مضمون میں مختلف عینی شاہدین سے ملاقات کرکے اس واقعہ کی تشکیل نو کی تھی اور بیان کیا تھا کہ اصل میں کیا ہوا تھا۔ اس پر پیٹر گیچ نے، جو اس وقت بہت مذہبی ہو چکا تھا، برہم ہو کر غلط بات کرنے والوں کو جہنم کی وعیدیں سنانا شروع کر دی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ کل دس منٹ کا واقعہ تھا جس پر دو صحافیوں نے سوا تین سو صفحات کی کتاب لکھ ماری اور آخر میں یہ نتیجہ نکالا کہ واقعہ ہوا تو تھا لیکن اس کی تفصیلات میں بہت کچھ اختلاف ہے؛ چنانچہ مکمل صحت کے ساتھ یہ بیان کرنا مشکل ہے کہ فی الاصل ہوا کیا تھا۔ حالیہ تاریخ کا یہ معمولی سا واقعہ اور اس پرہونے والی بحث ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ عینی شاہدین کے بیانات پر آنکھیں بند کرکے بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply