آشوب چشم/شہزاد ملک

ہمارا زمانۂ طالب علمی اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا جب پنجاب کے شہروں میں آشوب چشم کی وبا پھیلی، ہر گھر کے افراد میں سے ایک دو اس وبا کا شکار ہورہے تھے ۔ہوتا کچھ یوں تھا کہ ایک دن آنکھوں میں ہلکی ہلکی چبھن محسوس ہوتی ،اگلے دن آنکھیں سرخ بوٹی بن جاتیں اور ان میں سے پانی بہنا شروع ہوجاتا ،مرض کے عروج کے دنوں میں آنکھوں سے اتنی شدت سے پانی بہتا کہ صاف کرکر کے آنکھوں کے نیچے کی جلد چھل جاتی اور سوجن اتنی بڑھ جاتی کہ پلکوں کے بال بھی چھپ جاتے ،یہ بڑی تکلیف دہ صورت حال ہوتی تھی سکولوں کالجوں میں چھٹیاں کردی گئی تھیں۔

ہماری شامت اعمال کہ انہی دنوں ہمارے فائنل امتحان چل رہے تھے ڈیٹ شیٹ کچھ ایسی تھی کہ پیپروں کا سلسلہ مہینے سے بھی زیادہ دنوں پر محیط تھا، ہم اردو ادب کے طالب علم تھے اردو کے دو پیپروں کے درمیان سات چھٹیاں تھیں، ہم نے تیاری کچھ اس طرح کی کہ باقی سارے مضامین بہت اچھی طرح تیار کرنے کے بعد اردو بی کو سات دنوں کی چھٹیوں پر چھوڑ دیا وہ آخری پیپر تھا اور ایک پیپر کی تیاری کے لئے سات دن بہت ہوتے ہیں، جب ہم اردو اے کا پیپر دے کر گھر آئے تو وہ دن تھکن اتارتے رہے، اگلے دن سے دوسرے پیپر کی تیاری شروع کرنے کا ارارہ تھا دوسرے دن پڑھائی شروع کی ،اس پیپر میں گرائمر اردو زبان کے قواعد و ضوابط اور مخصوص سلیبس تھا جس کی سو فیصد درست تیاری کرنی تھی، اس میں کچھ ایسا نہیں ہوتا کہ یاد نہ ہو تو ادھر ادھر کی ہانک کر کاغذوں کا پیٹ بھر دیا جائے۔ سات دن کے حساب سے جو پڑھائی کا ٹائم ٹیبل بنایا تھا پہلے دن اتنا پڑھ کر مطمئن ہوگئے ،اگلے دن کا کوٹہ بھی پورا کرلیا، یہاں تک تو خیریت گذری ۔۔تیسرے دن آنکھوں میں چبھن اور خارش شروع ہوئی اور رات تک دونوں آنکھیں سرخ ہوگئیں اور پانی بھی بہنا شروع ہوگیا، چبھن خارش اور سرخی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہم نے پڑھائی جاری رکھی لیکن جب پانی بہت زیادہ بہنے لگا تو کتاب کے الفاظ دھندلا نے لگ گئے اور جب آنکھیں سوج کر پلکیں بھی ان میں چھپ گئیں اور کوشش کے باوجود بھی کھلنے سے انکاری ہوگئیں تو پڑھائی ناممکن ہوگئی۔

میری پریشانی کی انتہا مت پوچھیے، کہاں تھرڈ ائیرکے امتحان میں اردو ادب کے مضمون میں ہمارا ریکارڈ قائم ہوا تھا کہاں اب آدھی تیاری کے ساتھ پاس ہونا بھی دشوار لگ رہا تھا، ایک تو آنکھوں سے بیماری کی وجہ سے پانی کی ندیاں جاری تھیں اوپر سے ہمارا رونا ،تکلیف میں مزید اضافہ کر رہا تھا، سخت پچھتاوہ ہورہا تھا کہ اس پیپر کی تیاری بھی پہلے سے کرلی ہوتی تو یہ مشکل نہ ہوتی مگر کیا معلوم تھا کہ اس وبا کی لپیٹ میں آجائیں گے ۔اس کڑے وقت میں ہمارا پیارا چھوٹا بھائی ہمارے لئے اللہ کی مدد بن گیا اس نے تجویز پیش کی کہ آپا آپ آنکھیں بند کرکے لیٹی رہیں میں کتاب سے پڑھ کر آپ کو سناتا ہوں ،اگر ایک بار میں اچھی طرح یاد نہ ہو تو بار بار سناؤں گا، آپ رونا بند کریں، اس کی بات دل کو لگی ،باقی کے دنوں میں ہر عنوان کے حساب سے اس کا سارا متن اور سوالوں کے جواب وہ پڑھ کر سناتا رہتا، پہلے کا پڑھا ہوا ہونے کی وجہ سے ایک دو بار سننے سے ہی یاد ہوجاتا تھا ،اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب سے علاج بھی جاری تھا اس کے لئے وہ کوئی دوائی نہیں دے رہے تھے صرف بورک ایسڈ کو ابلے پانی میں حل کرکے نیم گرم ہونے پر اس سے آنکھیں دھونے کا کہتے رہے۔ جس سے کوئی خاص فرق نہ پڑا کہ یہ مرض اپنا زور دکھا کر ہی رہتا ہے۔

پیپر سے ایک دن پہلے ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے تو ان سے التجا کی کہ چاہے انجکشن لگائیں یا جو بھی کریں صبح ہمارا پیپر ہے کم از کم ایک آنکھ ہی اتنی تو کھلی ہو کہ پیپر نظر آئے اور اس پر کچھ لکھا جاسکے اس منت سماجت کا یہ اثر ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے انجکشن لگا دیا کسی محلول سے آنکھیں دھوئیں اور گھر بھیج دیا ،اگلی صبح اتنا ہوا کہ آنکھوں کی پلکوں کے بال نظر آنے لگے لیکن پانی بدستور جاری تھا خیر ہم تیار ہوکر پیپر دینے چلے گئے، ململ کا ایک صاف کپڑا ساتھ لے گئے جس سے بار بار آنکھیں صاف کرتے رہے لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی قطرہ پیپر پر ٹپک جاتا نگران محترمہ بار بار پاس سے گذرتے ہوئے ترحم آمیز نگاہوں سے دیکھتی رہیں، امتحان ہال میں سب کو ہم پر بہت ترس آرہا تھا بہر حال پیپر جیسے تیسے ہوگیا وقت کی کمی اور تکلیف کی وجہ سے جتنی تفصیل سے لکھنا تھا وہ تو نہ ہوسکا لیکن مختصر ہونے کے باوجود غلط کچھ نہ تھا، جب ہمارا قلم آخری سوال پر رواں تھا تو محترمہ سپرنٹنڈنٹ صاحبہ نے پیشکش کی کہ بیٹا آپ کا تو بہت برا حال ہے میں آپ کو بیس منٹ زیادہ دے سکتی ہوں ان کی اس دریادلی پر رویا ہی جا سکتا تھا ،اگر یہ پیشکش ایک گھنٹہ پہلے کر دیتیں تو ان کا کیا بگڑ جاتا ۔اب کیا فائدہ ہم نے پیپر ختم کرکے ان کے حوالے کرتے ہوئے ان کی اس فیاضی کا شکریہ ادا کیا اور ہال سے باہر آئے، جہاں ہماری حالت پر رحم کھانے کے لئے لڑکیوں کا جم غفیر اکٹھا ہوکر پوچھ رہا تھا کہ اس حالت میں ہم نے پیپر کیسے کیا ،اکثریت کا خیال تھا کہ اس پیپر میں ہمارا پاس ہونا مشکوک ہے
جب رزلٹ آیا تو اردو ادب میں ہمارے نمبر کالج میں سب سے زیادہ تھے، اگر ہم اس مضمون میں ماسٹرز کرتے تو سکالر شپ پر پڑھتے ،ہماری کامیابی میں بھائی کا حصہ برابر تھا،ان دنوں آشوب چشم کی وبا پھیلی ہوئی ہے سکولوں میں چھٹیوں کا سنا تو اپنا وقت یاد آگیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply