سٹالن ٹراٹسکی اختلاف

سٹالن ٹراٹسکی اختلاف
کامریڈ عاصم اختر
سٹالنسٹ دوستوں کے ہاں صرف ٹراٹسکی کو سامراج گماشتہ کہنے کے علاوہ کوئی انقلابی تسلسل نہیں ملتا ۔جہاں لینن کی وفات کے بعد سٹالن کھڑا تھا آج بھی اسی روش کا شکار جمود کی کیفیت میں تعفن زدہ الزامات سے ہٹ کے کوئی تاویل نہیں ملتی ۔جب بھی نظریات کے درست یا غلط کی بات یا بحث کا آغاز کیا جاتا ہے تو پہلی گالی ٹراٹسکی سے شروع ہوتی ہے اور اسکا سٹالن کے ہاتھوں تاریخی بہیمانہ قتل کو درست اقدام کہتے ہوئے آگے بھی اسی کے نقش قدم کو درست راہ تصور کرتے ہیں-
اس میں کوئی شک نہیں کہ سامراج نے اپنی بقا کے لئے ہر ہتھکنڈااستعمال کیا ہے مگر یا تو ٹراٹسکی سامراجی ایجنٹ تها یا سٹالن نے غداری کی تهی ، دو قوتوں سوشلزم اور سرمایہ داری کے درمیان بقا کی جنگ تهی شکست کی ٹهوس وجوہات کا موجود ہونا کوئی اچنھبے کی بات نہیں- سوویت یونین میں برپا ہونے والے انقلاب کی زوال پزیری 1924 کے بعد شروع ہوئی جبکہ زوال پزیری کی بنیادیں انقلاب کے ساتھ ساتھ جنم لینا شروع ہو گئی تهیں- روس چونکہ 1917 میں پہلے سے ہی صنعتی معاشی اور ثقافتی طور پر ایک پسماندہ ملک تها اس لئے پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں نے وہاں کی بدحالی میں مزید شدت پیدا کر دی ۔جنگ کے دوران اور اس کے فوری بعد انقلابی جدوجہد اور اس کی فتح کے خوف سے روس پر 21 ممالک نے فوجی چڑهائی کر دی- چونکہ روس میں انقلاب کی بدولت سامراجی ممالک میں انقلاب کا خطرہ بڑھ گیا تها اس لئے انہوں نے اس انقلاب کو آغاز میں ہی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تها. لیکن اس انقلاب کی قیادت کے پاس وہ نظریاتی اور تنظیمی صلاحیتیں موجود تهیں جن کی بدولت انہوں نے اس سامراجی جارحیت کو شکست دی اس لڑائی کے دو بنیادی طریقے اپنائے گئے۔
1:– تقریبا ًساڑهے تین لاکھ کی بدحال فوج کو صرف اٹهارہ ماہ کی قلیل مدت میں دفاع اور جنگ کے وزیر ٹراٹسکی نے 30 لاکھ کی مضبوط سرخ فوج میں بدل دیا جس نے سامراجی یلغار کے خلاف مزاحمت کے ذریعے بہت سارے معرکوں میں سامراجی فوجوں اور ان کے گماشتوں کو شکست دے دی اور انقلاب کے دفاع میں بنیادی کردار ادا کیا- جس کا اعتراف خود سٹالن ٹراٹسکی کا شکر گزار ہو کر کرتا ہے-
2 . دوسرا طریقہ محنت کشوں کی بین الاقوامی یکجہتی کا طریقہ کار تها چونکہ روس میں جنم لینے والا انقلاب کسی قوم یا ملک کا انقلاب نہیں تها اور محنت کشوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ( دوسری انٹرنیشنل کی بائیں بازو کی حزب اختلاف ) کی قیادت میں طبقاتی بنیادوں پر برپا ہوا تها اس لئے اسی عالمی تنظیم کے پلیٹ فارم سے لینن اور ٹراٹسکی نے دنیا بهر کے محنت کشوں سے اپیل کی کہ اپنے طبقے کے اس انقلاب کے دفاع کیلئے عالمی طور پر جدوجہد کی جائے. اس اپیل کے جواب میں نہ صرف امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور دوسرے ممالک کے محنت کشوں نے ہڑتالوں کے ذریعے حملہ آور فوجوں کی سپلائی بند کر دی بلکہ اس بالشویک تحریک کے نتیجے میں حملہ آور فوجوں کے بہت سے سپاہیوں نے جارحیت سے انکار کرتے ہوئے ہوئے بغاوتیں کیں. اس کی بنیادی وجہ یہ تهی کہ بالشویکوں نے جس نظریے کے تحت انقلاب برپا کیا تها وہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کی لڑی کی ایک کڑی کے طور پر تها- جولائی 1918 میں لینن نے امریکی مزدوروں کے نام ایک خط لکها " ہم اس وقت ایک محصور قلعے میں ہیں ( اور اس وقت تک رہیں گے ) جب تک بین الاقوامی سوشلسٹ انقلاب کی قوتیں ہماری مدد کو نہ آئیں "
اسی سال نومبر میں لینن نے لکها
" دنیا کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ ہم نے روسی انقلاب کو برپا کرنے میں مہم جوئی نہیں کی ہے بلکہ یہ اہم ضرورت تهی کیونکہ کوئی اور راستہ نہیں تها. دنیا بهر میں سوشلسٹ انقلاب فتح یاب نہیں ہوتا تو برطانوی اور امریکی سامراج روس میں پرولتاری انقلاب اور آزادی کا گلا گهونٹ دے گا۔ ہم نے اپنا سب کچھ بین الاقوامی انقلاب کے سہارے داو پر لگا دیا ہے. ہم مکمل فتح تک صرف دوسرے ممالک کے محنت کشوں کے سہارے پہنچ سکتے ہیں . "
اس فوجی اور بین الاقوامی محنت کش طبقے کی امداد اور یکجہتی سے روس میں انقلاب تو ہو گیا تها لیکن کئی دوسرے خصوصا ًترقی یافتہ یورپی ممالک جن میں جرمنی ،اٹلی ، فرانس ، برطانیہ اور ہنگری شامل ہیں کے برپا ہونے والے انقلابات کے فتح یاب نہ ہونے کی وجہ سے روس میں محنت کش طبقے کا انقلاب علیحدگی اور بیگانگی کا شکار ہونا شروع ہو گیا. جرمنی میں اسی عرصے میں تین انقلابی ابھار پیدا ہوئے، ان میں نومبر 1918 جنوری 1919 مارچ 1923 کی انقلابی کوششیں اور سرکشیاں شامل ہیں۔
1922 میں لینن نے تیسری انٹرنیشنل کی مرکزی مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تها ۔
"برلن جرمنی کا دل ہے اور جرمنی یورپ کا دل ہے. اگر جرمنی کا انقلاب کامیاب نہیں ہوتا تو ہمارے انقلاب کا تباہی سے دوچار ہونا ناگزیر ہے جرمن انقلاب کی کامیابی کے لئے اگر روسی انقلاب قربان بهی کرنا پڑا تو ہم ایک لمحے کے لئےبھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے "
(یہی انٹرنیشنل ازم) بعد میں جنم لینے والی زوال پزیری نے لینن کے اس تجزیے کو درست ثابت کیا ۔بالشویک انقلاب تو بچ گیا لیکن خانہ جنگی سامراجی جارحیت اور یورپی انقلاب کی ناکامی کی بدولت روس کے تنہا رہ جانے سے زوال پزیری کے عمل پر فیصلہ کن اثرات مرتب ہوئے۔
پسماندہ روس میں ان آفات نے قحط اور قلت کی صورتحال پیدا کر دی- بالشویک پارٹی کے سینکڑوں لیڈر محنت کش ریاست کا دفاع کرتے ہوئے سول جنگ میں مارے گئے جن کی جگہ اقتدار کی ہوس رکهنے والے بہت سے مفاد پرست چور دروازے سے پارٹی میں گهسنا شروع ہو گئے ۔قلت اور مانگ میں اضافے نے جو بدحالی پیدا کی اس سے سماجی خلفشار انقلاب کے بعد بڑهنا شروع ہو گیا اس خلفشاری کو روکنے کے لئے ریاستی اقدامات میں شدت آنا شروع ہو گئی ۔کیونکہ مانگ اور قلت ناگزیر طور پر ریاستی عناصر کو مضبوط کرتی ہے اور بیوروکریٹک اقدامات کا جواز فراہم کرتی ہے 1920 کی صورتحال یہ تهی کہ قبل از جنگ ( 1913 پہلی جنگ عظیم سے پیشتر ) کی نسبت محنت کش طبقے کی تعداد 43 فیصد رہ گئی تهی ۔اس طرح پیداوار میں انقلاب کے بعد کی صورت حال میں پہلے کئی سال بڑهنے کی بجائے گرتی چلی گئی تهی۔ صنعتی پیداوار بھی صرف 18 فیصد رہ گئی تهی اسی طرح انقلاب کرنے والے محنت کش طبقے کے ہر اول دستے کا بهاری حصہ انقلاب کے دفاع کی نذر ہو گیا. خانہ جنگی اور رد انقلاب کے خطرے کے پیش نظر بالشویکوں کو بعض اوقات بہت شدید اقدامات کرنے پڑتے تهے . داخلی انتشار اور بیرونی جارحیت کے خلاف لینن اور ٹراٹسکی کو 1920 میں وار کمیونزم ( جنگی کمیونزم ) کی پالیسی کو بهی لاگو کرنا پڑا ان مشکلات میں ایسے اقدامات کی بهاری قیمت ادا کرنی پڑی تهی.
افسر شاہی کے جنم لینے کے عمل میں روس کی ثقافتی اور سماجی پسماندگی نے بهی اہم کردار ادا کیا تها. ترقی یافتہ ممالک میں انقلابات نہ ہونے کی وجہ سے روس کو نہ صرف صنعتی و معاشی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ قومی اور ثقافتی بیگانگی کا بهی سامنا کرنا پڑا تها-
عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے انیسویں صدی میں لکها تها "کسی بهی سماج میں جہاں فن سائنس اور حکومت ایک اقلیت کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں وہاں وہ اقلیت ان کو اپنے مفادات کے لئے غلط استعمال کرے گی اور اپنی اس پوزیشن سے بدیانتی کرے گی جو کسی بهی حوالے سے اس کو ملی ہو" روس کی اس بڑهتی ہوئی افسر شاہی کی روش کو لینن نے اپنی کتاب "تهوڑے مگر بہتر "میں اس طرح بیان کیا۔
"ہمارا ریاستی ڈهانچہ بوسیدگی کی حد تک قابل مذمت ہو چکا ہے ہمیں اس میں پیدا ہونے والی خامیوں کو دور کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے ان بیماریوں کی جڑیں ماضی سے نکل رہی ہیں وہ ماضی جس کو ہم اکهاڑ کر پهینک چکے ہیں مگر قابو نہیں پا سکے ہیں"
اس حوالے سے افسر شاہانہ شکل میں زوال پزیری کا عمل معروضی طور پر چل رہا تها لیکن 1923 کے بعد اس کو موضوعی شکل ملنا شروع ہوئی. 1922 میں سٹالن جنرل سیکرٹری بنا اور ریاستی اقتدار میں بڑهتی ہوئی بدعنوان قیادت جو زیادہ تر چور دروازے سے داخل ہو ئی جس نے سٹالن کی قیادت میں اس بیوروکریٹک مداخلت کو شعوری شکل دینی شروع کر دی چند ایسی شخصیات جو انقلاب سے پیشتر بالشویک پارٹی کی دشمن تهیں اقتدار ملتے ہی چور دروازے سے گهس کر سٹالن کے اہم مشیر بن گئیں- ان میں مارٹی نوف ، یاروسلاوسکی، وائی شنسکی شامل تهے ان"دانشوروں "نے عارضی اقدامات محصور جنگ اور خلفشار کے عالم میں کئے گئے اقدامات کو مستقل شکل دے کر افسرشاہی کی بنیادیں استوار کرنا شروع کر دیں. جوں جوں ان کی گرفت اقتدار پر گرفت مضبوط ہونا شروع ہوئی انہوں نے پهر اس افسرشاہانہ پالیسی کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرنا شروع کر دیں . ان میں 1924-26 کے دور میں ایسے نظریات کو پروان چڑهایا گیا جو مارکسزم کی روح اور اساس کے منافی تهے.
نوٹ :–اس سے پیشتر جنرل سیکرٹری کا عہدہ پارٹی میں ایک انتظامی حثیت رکهتا تها جب بالشویک پارٹی نے انقلاب برپا کیا تها تو اس کا جنرل سیکرٹری سویڈلوف تها.
ان دانشوروں نے پہلا نظریہ انقلاب روس کا سرحدوں میں مقید ہو جانے اور دوسرے ملکوں میں نہ پهیل سکنے کی صورت میں دیا یہ نظریہ جو لینن کی جنوری 1924 میں وفات کے بعد دیا گیا وہ "ایک ملک میں سوشلزم کا نظریہ" تها یہ نظریہ قومی تنگ نظری اور عالمی محنت کش طبقے کی بین الاقوامی تنظیم ( تیسری انٹرنیشنل ) پر روسی تنظیم کے ریاستی اقتدار کے بل بوتے پر حاوی ہونے اور بین الاقوامی محنت کشوں کے ڈسپلن اور کنٹرول سے باہر نکلنے کے لئے مرتب کیا گیا کیونکہ اس نظریے کے پوری طرح مسلط ہونے کے بغیر افسر شاہی پوری "آزادی" سے بدعنوانی اور جبر جاری نہیں رکھ سکتی تهی-
اسی نظریے کی بدولت مارکسزم پہ طبقاتی بین الاقوامیت کے برعکس ایک ملک میں سوشلزم کی قومی تنگ نظری اور قوم پرستی کے جزبات اور نظریات حاوی ہونا شروع ہو گئے. لینن اور بالشویکوں نے جب انقلاب برپا کیا تها تو وہ کسی ملک کے انقلاب سے زیادہ ایک طبقے کا انقلاب تها جس کو عالمی سوشلسٹ انقلاب کے تسلسل اور عمل کا ایک حصہ سمجها گیا تها. مارکسزم نے قوم پرستی کی نفی کرتے ہوئے انسانیت کی نجات کو طبقاتی یکجہتی اور جدوجہد سے تعبیر کیا تها اسی بنیاد کو آگے بڑهاتے ہوئے لینن اور بالشویکوں نے انقلاب کے ذریعے جس ریاست کو جنم دیا تها اس کا نام کسی ایک ملک سے منسوب کرنے کی بجائے ( USSR)"سوویت سوشلسٹ ریپبلکوں کی یونین" رکها گیا تها. جس کا مقصد یہ تها کہ انقلابی عمل کے پهیلاو سے پوری دنیا کا نام (USSR) ہو جائے گا.
انقلاب کرنے والی قیادت نے یہ تصور بهی نہیں کیا تها کہ سٹالن اور اسکے بعد آنے والے بیوروکریٹ اس عبوری سوشلسٹ سماج کو ایک ملک میں سوشلزم کی پالیسی کے تحت اس کو علیحدہ اور مستقل شکل دے دیں گے-
دوسرے الفاظ میں سٹالنزم دراصل مارکسزم کے نظریات سے بڑا نظریاتی انحراف ایک ملک میں سوشلزم کی پالیسی کی صورت میں برآمد ہوا .
یہ دو شخصیات ( سٹالن اور ٹراٹسکی )کی نہیں بلکہ دو نظریات کی جنگ تهی.
جو بین الاقوامیت اور قومیت کے درمیان تهی-
اب اس لڑائی کو اے ناٹ یا بی ناٹ یا اے بی کے فلسفے میں الجها کر نہیں سمجها جا سکتا بلکہ ٹهوس نظریاتی اور جدلیاتی بنیادوں پر سمجها جا سکتا ہے تاریخی حقائق کو سامنے رکھ کر سمجها جا سکتا ہے نا کہ شخصیات کے مختلف ادوار میں مختلف کرداروں کی بنیاد پر. اسے ایک تاریخی تسلسل میں سمجها جا سکتا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ شخصیات کے سحر سے باہر نکلا جائے .
ہم انقلاب مسلسل کے داعی ہیں ٹراٹسکی کے نہیں. ہاں اس کی انقلاب مسلسل پر کی گئی خدمات کے لئے اسے ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے اور انقلاب کے غداروں کو غدار لکهتے رہیں گے-
سوشلسٹ انقلاب کے لئے انقلابی پارٹی ریاست کے اندر ایک ریاست ہوتی ہے- کسی ایک شخص کی آمریت پر مشتمل نہیں ہوتی – ایسی پارٹی کسی بهی طور پر ایک انقلابی پارٹی کہلانے کی مجاز نہیں رہتی اور یہی وہ درست سائنسی بنیادیں ہیں جن کے سہارے ہم ایک عالمی مارکسی رجہان کے سائے تلے پاکستان سمیت دنیا کے 52 ملکوں میں انقلابی تنظیم کی تعمیر کا معروضی اور تاریخی فریضہ ادا کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply