جانم فدائے عمر رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔ بلال شوکت آزاد

آج یکم محرم الحرام ہے, اسلامی ہجری سال کا اول دن۔ ۔ ۔

کیسا ہوگا 23 ہجری کا وہ یکم محرم جب امت محمدیہ کی یتیمی اور مسکینی کا پہلا باب درج ہوا۔

کیسا ہوگا وہ دن۔اس کی صبح، اس کی شام،اس کی وہ غم بھری رات  ،جب مراد رسول۔ ۔ ۔داماد بتول،یارِ ابوبکر،یار عثمانِ،یار علی،اما عالی مقام حسن و حسین کے بہنوئی   حالت نزع میں زخموں کی تاب نہ لاکر جنتوں کو روانہ ہوگئے۔

کبھی کبھی نہیں بلکہ ہر وقت جب بھی حضرت عمر رض کا ذکر میرے سامنے ہو تو میں نہایت جذباتی ہوجاتا ہوں۔ دل پھٹتا نہیں لیکن کیفیت یہی رہتی ہے کہ دل بار بار پھٹ رہا اور خون پھوار بن کر ابل رہا ہے۔ سوچتے سوچتے رونا شروع کردیتا ہوں،روتے روتے سوچنا شروع کردبتا ہوں۔ ۔ ۔

کہ کاش۔ ۔ ۔اے کاش اللہ نے مجھے نبیﷺ کا دور دکھایا ہوتا ۔اور میں حضرت عمر رض کے دور تک صرف اس لیے زندہ رہتا کہ اللہ مجھے ہمارے لاڈلے کی ڈھال بننے کی سعادت دیتا۔ ۔ ۔

میں ہر نماز میں عمر رض کے بالکل پیچھے جگہ پر قابض رہتا،ہر وقت ان کا سایہ بن کر رہتا،کچھ نہ کہتا    بس ان کے ساتھ ساتھ رہتا۔ ۔ ۔

ان کو بولتے ہوئے سنتا۔ ان کو سوتے اٹھتے بیٹھتے امور سرکار نمٹاتے ہوئے دیکھتا،ان کے پیچھے نماز میں ایسی ڈھال بن کر اور تن کر کھڑا رہتا کہ  جب وہ مجوسی کمبخت ابو لولو فیروز خنجر زنی کی کوشش کرتا۔ ۔تو میں نماز قضاء کرکے اس کے آگے اپنی پیٹھ کر دیتا۔ ۔ ۔

با آواز بلند اس بد بخت کو پکارتا کہ۔ ۔ ۔

” او بد بخت سن۔ ۔ ۔ جا تجھے میں نے میرا خون معاف کیا۔ ۔ ۔ تو مجھے مار اور چلتا بن۔ ۔ ۔ ”

لیکن میں عمر رض کی پیٹھ چھلنی نہ ہونے دیتا۔ ۔

لیکن پھر سوچتا ہوں کہ وہاں تو جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہم موجود تھے۔ وہ بھی تو عمر رض کے دیوانہ و شیدا تھے۔ ۔ ۔

میں کیا اور میری اوقات کیا ان اصحاب کے سامنے,

لیکن اس دل کا کیا کروں ۔؟

اس کمبخت دل کا کیا کروں جو ہر دھڑکن کے ساتھ “جانم فدائے عمر” کہتا اور تڑپاتا ہے مجھے کہ میں تب کیونکر نہ ہوا؟

اللہ کے کام اللہ جانے لیکن ہمارے دلوں کو جو قرار اور سکون نہیں یہ سوچ سوچ کر کے عمر رض ناحق قتل ہوئے اور امت محمدیہ حقیقت میں یتیمی و مسکینی کی جانب چل پڑی۔

پہلا باب ہماری یتیمی و مسکینی کا حضرت عمر رض کی شہادت ہے اور آخری باب ہماری یتیمی و مسکینی اور تباہی کا حضرت امام حسین رض کی شہادت ہے۔

ہم ان ابواب کے اندراج کے بعد جس تباہی, زوال بلکہ درحقیقت یتیمی و مسکینی کی کیفیت میں مبتلا ہوئے وہ آج تلک جاری و ساری ہے۔ ۔ ۔

ہائے کیسا خلیفتہ المسلمین تھا؟

کیسا صحابی رسول تھا جس کے دل میں دبی خواہشات اور نبی کو دیئے مشورے قرآن بنادیئے گئے بجانب اللہ۔ ۔ ۔

شراب کی حرمت ہو،پردے کے احکام ہوں، غرض کتنے ہی شریعی و عائلی مسائل جن پر عمر کے لب ہلے یا دل میں خیال پیدا ہوا تو اللہ نے ان کی توثیق اور اعلان کردیا۔ ۔ ۔

آہ کیا رتبہ ملا کہ نبیﷺ کو کہنا پڑا کہ “میرے بعد کوئی نبی نہیں, لیکن ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ ۔ ۔”

سبحان اللہ!

عمر رض کی حیثیت اور وقعت کیا تھی؟

یہ تھی کہ جب تک عمر رض مسلمان نہ ہوئے۔ مشرک تھے،تب بھی نبیﷺ کی دعاؤں اور رداؤں میں رہے۔

کہا یا اللہ مجھے ایک عمر دے دے (عمر ابن ہشام یا عمر بن خطاب)لیکن دل میں چپکے سے خواہش عمر بن خطاب کی ہی رکھی۔ ۔ ۔

اب اللہ نے قرعہ نکالنا تھا۔ ۔ ۔

سو نکالا۔ ۔ ۔

عمر بن خطاب کے حق میں۔ ۔ ۔ اور مراد رسول قبول خدا ہوگئی۔ ۔ ۔

نبیﷺ  کو خبر ہوئی،جوش محبت میں کہا: اللہ اکبر۔ ۔ ۔

ابوبکر و حمزہ کے چہرے دمک گئے۔ ۔ ۔

ڈر بھی رہے اور خوش بھی ہورہے۔ ۔ ۔

یہ عمر رض کی شخصیت تھی۔ ۔ ۔

ان کا رعب اور دبدبہ تھا کہ جلیل القدر صحابی بھی سوچ میں پڑ گئے۔ ۔ ۔

شک نہیں یقین تھا کہ مراد رسول ہیں۔ ۔ ۔

لیکن عمر تو عمر تھے۔ ۔ ۔

چونکانا ان کا ہنر تھا۔ ۔ ۔

اگلے ہی روز تلوار سونت کر خانہ کعبہ میں کھڑے ہولیے۔ ۔ ۔

بلال کو کہا۔ ۔ ۔

اٹھو بلال اٹھو۔ ۔ ۔

کعبہ کی چھت چڑھو اور اذان دو۔ ۔ ۔

اور خود تلوار سونت لی کہ اب عمر مسلمان ہے۔ ۔ ۔

مکے میں جس کو اپنی جان پیاری نہیں وہ آئے اور روکے مجھے۔ ۔ ۔

کفار ہاتھ ملتے ہائے ہائے اور وائے وائے کرتے تتر بتر ہوگئے۔ ۔ ۔

مراد رسول  پوری ہوگئی   ۔

خالد کا حوصلہ بھی عمر کی وجہ سے ٹوٹا اور شش و پنج میں ایک جنگ لڑ بیٹھے لیکن سکون قلب تو عمر کے اسلام قبول کرنے سے جو گیا پھر تبھی لوٹا جب خود اسلام قبول کیا۔ ۔ ۔

دونوں ہی مراد رسول جب بعد نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم اکٹھے ہوئے تو دنیائے کفر روند ڈالی۔ ۔ ۔

فارس و روم کے تخت پا لیے۔ ۔ ۔

اللہ اللہ کیا کیا فضیلتیں تھیں کہ بیان کرنا شروع کردو تو زمان و مکاں کا ہوش ہی بھول جائے۔ ۔ ۔

جذبات کا ایسا طوفان آئے کہ آواز رندھ جائے اور آنکھیں بھیگ جائیں۔ ۔ ۔

عمر ابن خطاب کو کیسے جانتے؟

گر مسلمان نہ ہوتے؟

گر امت محمدی کے سپوت نہ ہوتے۔ ۔ ۔

چلو ان کا دور نہ پایا تو کیا ہوا۔ ۔ ۔

اللہ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے کہ عمر کی نسبت مل گئی۔ ۔ ۔

کلمہ گو کے گھر جنم لیکر امر ہوگئے کہ نبی بھی روئے کائنات کا عظیم اور محبوب نبی اور ا سکے صحابہ کی جماعت بھی عظیم اشخاص پر مشتمل جماعت۔ ۔ ۔ جیسی کائنات میں کسی اور کی ایسی جماعت نہ ہوئی ہوگی۔

بس دل تو بچہ ہے نا۔ ۔ ۔

بضد ہے کہ اور کچھ نہیں تو عمر کا دور ملتا۔ ۔ ۔

اور میں جانم فدائے عمر کے نعرے پر عمل کر گزرتا۔ ۔ ۔

ڈھال بن جاتا اور جب تک خون کا آخری قطرہ تک نچڑ نہ جاتا تو میں گرتا نہیں۔ ۔ ۔

آہ عمر۔ ۔ ۔ آہ میرے پیارے عمر فاروق ابن الخطاب رض۔ ۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ ہمیں روز قیامت ان لوگوں میں شامل کرلے جن پر اللہ راضی ہوا اور جو اللہ پر راضی ہوئے۔ ۔ ۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply