“سردار”کی پرواز سے جلتا ہے زمانہ۔۔محمد علی عباس

سردار عباس نے جس انداز میں پارٹیاں بدلنےکی روش برقرار رکھی ہے اس حوالےسے اب ان کا یہ فیصلہ اتنی اہمیت نہیں رکھتا۔ پارٹیاں دیگر سیاستدان بھی بدلتے رہتےہیں بلکہ راتوں رات بدلتے ہیں مگر جیسے بے وقت فیصلے سردار عباس کا طُرہ امتیاز ہیں وہ کسی اور کا نہیں۔

ابھی پچھلے دنوں سردار عباس نے پھر اسی مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی ہے جسے انہوں نے 2018 کے انتخابات سے قبل چھوڑتے وقت غدار اور نہ جانے کیا کیا کہا تھا۔ سیانے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ سردار عباس خود پارٹیاں نہیں بدلتے جب تک ”اوپر“ سے آرڈر نہ آۓ۔ 2018 کے انتخابات سے قبل سردار عباس کی تحریک انصاف میں شمولیت کے وقت بھی یہی قیاس آرائیاں تھیں کہ ”اوپر“ سے آرڈر آیا ہے۔ اب خدا جانے کہ اوپر سے آرڈر آیا تھا یا پھر آرڈر لانے والے ایلچیوں نے ہی کام کر دکھایا تھا، بہر حال جو بھی ہوا 2018 میں سردار عباس کی نااہلی میں ”اوپر“ والوں کا ہی ہاتھ تھا۔ اورپھر چشم فلک نے دیکھا کہ سردار عباس کے نام کی مالا جپنے والوں نے سردار عباس کے سب سے بڑے سیاسی حریف اور تحریک انصاف میں وارد ہونے والے ایک سیاستدان کے نہ صرف استقبال کیے بلکہ اُسے جتوانے میں بھی کوئی  کسر نہ چھوڑی۔ظاہر ہےسردار عباس میدان سے باہر ہوگئے  تھے اور مین پاور ایکسپورٹ کے کاروبار سے کماۓ  گئے پیسے نےبھی کام دکھا دیا تھا۔

وقت گزرا اور سردار عباس کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ سردار عباس نے ایک عرصہ سے ن لیگ میں جانے کی تیاریاں مکمل کر رکھی تھیں۔ سمجھ یہ بات ابھی تک نہیں آ رہی کہ سردار عباس ”اوپر“ والوں کے آرڈر کا انتظار کرتے رہے یا پھر ن لیگ والے ”اوپر“ سے گرین چٹ ملنے کے منتظر رہے۔ یہ بات تو بہر حال طے ہے کہ ہر دو فریقین میں سے کسی ایک نے این او سی لیا ہی ہوگا۔

سردار عباس اب ملک و قوم کی بقا، جمہوریت کی صحیح معنوں میں بحالی اور چکوال کے عوام کا درد دل میں  لیے  مسلم لیگ ن میں چلے  گئے  ہیں۔ اپنا آبا ئی حلقہ این اے 64 بھی چھوڑ دیا ہے۔ قیاس یہی ہے کہ این اے 65 تلہ گنگ سے اگلے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ تاہم جس سپیڈ سے پارٹیاں بدلی جا رہی ہیں عین ممکن ہے کہ اگلے انتخابات سے پہلے شاید پھر سے سردار عباس کو میاں نواز شریف کی فوج مخالف تقاریر یاد آ جا ئیں  اور وہ پھر خدا حافظ کہہ دیں لیکن یہ باتیں ابھی قبل از وقت ہوں گی۔

اب سردار عباس ن لیگ کے راہنمإ ہیں اور سردار گروپ ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ سردار آفتاب اکبر جو ہمیشہ سردار عباس کا دست و بازو رہے نہ صرف تحریک انصاف سے ایم پی اے ہیں بلکہ اقتدار کے تمام تر لوازمات سے لُطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اب سردار عباس کی امیدیں اپنے سیاسی جانشین سردار محمد خان سے ہیں جن کی عمر اور تجربہ سردار آفتاب اکبر کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سردار عباس این اے 65 میں آتے ہیں تو ان کو ن لیگ کے اندر سے ہی کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سردار منصور حیات ٹمن پہلے سے ن لیگ میں ہیں اورسردار عباس کے خلاف مکمل تیاری سے میدان میں آنے کے   لیے  صف آرإ ہیں۔ سردار فیض ٹمن بھی سردار عباس کی مخالفت میں میدان میں کودتے دیر نہیں کریں گے اور سردار ممتاز ٹمن کا گروپ بھی سردار عباس کی مخالفت ہی کرے گا۔ اگر ان فریقین سے سردار عباس بچ نکلتے ہیں تو پاکستان مسلم لیگ ق کے مضبوط نیٹ ورک سے بچ نکلنا مشکل ہوگا۔ ق لیگ کا مقابلہ سردار عباس کی زندگی کا مشکل ترین مقابلہ ہوگا۔ سردار عباس کی مخالفت میں اگر کسی مین پاور ایکسپورٹر نے پھر مال لگا دیا تو سردار عباس کے ساتھ پھر ایسا ہی ہوگا جیسے ان کے ساتھ 2018 میں ہوا۔

سرار عباس کا کسی دور میں ضلع چکوال میں طوطی بولتا تھا اور اب آٹھ ہزار ووٹ لینے والے سردار منصور ٹمن بھی سردار عباس کے خلاف صف آرإ ہیں تو اس میں جہاں سردارعباس کی سیاسی غلطیاں کارفرما ہیں وہیں سردار عباس کو دا ئیں بائیں  بھی نظر دوڑانی چا ہیے۔ سرداران ٹمن اور “سرداران” گجرات کا مقابلہ کرنا سردار عباس کے لیےمشکل ہوگا لیکن جو حالات نظر آ رہے ہیں ایسے میں چکوال سے الیکشن لڑتے ہوۓ تو بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں سردار عباس تو پھر ہمیشہ سے ”بڑوں“ کے فیورٹ بننے کی کوشش کرتے زندگی گزار بیٹھے ہیں اور میرے خیال میں رائیگاں ہی گزار بیٹھے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ سردار عباس پی پی پی میں چلے جاتےتو کم از کم پارٹی کے اندر تو خالی میدان مل جانا تھا اور قیادت سے ملاقات کے لیے  بھی ”کسی اور“ کی کلین چٹ کا انتظار نہ کرنا پڑتا لیکن شاید سردار عباس کی سیاست کاسورج غروب ہو چکا ہے جو سردار عباس اب پھر آسانی کی تلاش میں ن لیگ میں جا بیٹھے ہیں۔

این اے 64 میں سردار عباس الیکشن نہیں لڑیں گے، این اے 65میں پارٹی کے اندر سے بھرپور مزاحمت ہوگی اور ٹکٹ ملنا مشکل ہوگا، اگر ٹکٹ مل جاتا ہے تو ق لیگ سے جیتنا مشکل ہوگا۔ سردار گروپ کا ایک خاص ووٹ تو سردار آفتاب لے گۓ ہیں۔ کچھ ”پیارے“ سردار عباس کو خود چھوڑ گۓ ہیں اور کچھ اچھی ڈیل ملتے ہی چھوڑ جا ئیں  گے۔ سردار عباس نے اس فیصلے سے اپنے  لیے  مشکلات خود پیدا کی ہیں۔ آزاد حیثیت میں رہ کر گروپ کو منظم رکھتے تو کم از کم دھڑا قاٸم رہتا۔ اب سردار گروپ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے تو کیا ن لیگ این او سی کے بغیر ٹکٹ دے گی؟ سردار عباس کو این او سی نہ ملا تو شہباز شریف جوپارٹی کے صدر ہیں وہ ایسا رسک کبھی نہیں لیں گے۔ پھر اب سردار عباس کو دوبارہ کو ئی  مشکل فیصلہ کرنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کا خالی میدان چھوڑ کر ن لیگ میں جانا سردار عباس کے  لیے  مشکلات ہی پیدا کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

قومی سیاسی حالات جو نظر آ رہے ہیں ان میں پیپلز پارٹی اچھی ڈیل لے لیتی ہےتو “اوپر “والے بہت سوں کو ادھر ادھر کردیں گے۔ سردار عباس کو اگر پھر ایسا فیصلہ کرنا پڑا تو رہی سہی عزت “سردار” بھی داؤ  پہ لگ جاۓ گی. اور پھر تو “پچھتانے” اور” گھبرانے” کے دونوں وقت ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply