نیویارک میں اثاثوں کی مالیت بڑھا چڑھا کر پیش کرکے بینکوں اور بیمہ کنندگان کو دھوکہ دینے کے کیس میں بڑی پیشرفت سامنے آگئی۔ عدالت نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دھوکہ دہی میں ملوث قرار دے دیا۔
رپورٹ کے مطابق جج نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو گذشتہ ایک دہائی کے دوران اپنے کاروباری معاملات میں دھوکہ دہی کا ذمہ دار قرار دیا۔ جو نیویارک کی اٹارنی جنرل کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دائر کیے گئے مقدمے میں ایک بڑی کامیابی ہے۔
نیویارک کے جج آرتھر اینگورون نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ٹرمپ اور ان کی کمپنی نے بینکوں، بیمہ کنندگان اور قرض دہندگان کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے اثاثوں کو “انتہائی” حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور ریئل اسٹیٹ کے ٹائیکون نے ان لوگوں سے سودے کے لیے اس کا استعمال کیا۔
اپنے 35 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جج اینگورون نے لکھا کہ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے گئے مالیاتی گوشواروں میں واضح طور پر دھوکہ دہی والی قیمتیں شامل ہیں، مدعاعلیہان نے جن کا استعمال اپنے کاروبار میں کیا تھا۔
امریکی جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ٹرمپ یہ ثابت نہیں کرسکے کہ ان کی ایک جائیداد کا خواہش مند خریدار سعودی عرب میں موجود ہے۔
ٹرمپ کے وکلاء کا دعوی تھا کہ سابق صدر نے اثاثوں کی قیمت درست بتائی تھی اور یہ وہ مالیت ہے جو ٹرمپ نے بطور” وژنری رئیل اسٹیٹ ڈیولپر” سمجھی تھی۔
لیکن جج آرتھر اینگورون نے کہا، “یہ ایک خیالی دنیا ہے، یہ حقیقی دنیا نہیں ہے۔”
نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیٹیا جیمس نے ستمبر 2022 میں ٹرمپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔
لیٹیٹیا جیمس نے الزام لگایا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بینک اور بیمہ کنندگان کو پیش کردہ اپنے سالانہ مالیاتی گوشواروں میں اپنے اثاثوں کو دو اعشاریہ دو ارب ڈالر بڑھا کر پیش کیا تھا۔
جیمس کا دعویٰ ہے کہ ٹرمپ نے” قرضوں اور انشورنس کو اپنے حق میں زیادہ سازگار شرائط پر محفوظ اور برقرار رکھنے کے لیے ایسا کیا۔”
انہوں نے کہا کہ جن پراپرٹیز کی مالیت بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ان میں مار۔اے۔ لاگو مینشن، پارک ایونیو پر واقع عمارت، ٹرمپ ٹاور میں پینٹ ہاوس اور ویسٹ چیسٹر کاونٹی میں ایک اسٹیٹ شامل ہے، جسے اس کے اصل سائز سے تین گنا بڑا دکھایا گیا۔
جج نے اپنے فیصلے میں لکھا،”ایک ریئل اسٹیٹ ڈیولپر کی طرف سے کئی دہائیوں سے اپنے رہنے کی جگہ کو کئی گنا بڑھا کر دکھانے کے تضاد کو صرف دھوکہ دہی ہی سمجھا جاسکتا ہے۔”
اس مقدمے میں ٹرمپ کے دو بڑے بیٹوں ڈان جونیئر اور ایرک کے علاوہ ٹرمپ آرگنائزیشن کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
اس میں تقریباً 250 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کرنے اور ٹرمپ خاندان کو ٹرمپ آرگنائزیشن کی قیادت کرنے سے روکنے کی درخواست کی گئی ہے۔
جج اینگورون کے فیصلے کے بعداس کیس پر سماعت کا راستہ کھل گیا ہے اب اس پر اگلے ہفتے پیر سے سماعت شروع ہو گی۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق عدالت نے مقدمہ قابل سماعت نہ ہونے سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کی درخواست مسترد کردی اور اٹارنی جنرل جیمس کی جانب سے دائر کردہ کیس کو بنیادی طورپر درست قرار دیا۔
دریں اثنا جج نے حکم دیا کہ ٹرمپ کے کچھ کاروباری لائسنس سزا کے طور پر منسوخ کردیے جائیں، جس سے ان کے لیے نیویارک میں کاروبار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک آزاد مانیٹر گروپ ٹرمپ آرگنائزیشن کی سرگرمیوں کی نگرانی جاری رکھے گا۔
ٹرمپ کے وکیل کرسٹوفر کس نے ایک بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ “اشتعال انگیز” اور “حقائق اور قانون کے مکمل برخلاف” ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔
ایرک ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ یہ فیصلہ ان کے والد کو”تباہ کرنے” اور “نیویارک سے باہر نکال دینے کی کوشش” ہے۔
جج اینگورورن نے کہا کہ ٹرمپ نے اپنے دفاع میں جو دلائل پیش کیے وہ “پوری طرح قانون یا حقیقت کے برخلاف” تھے۔
جج نے اپنے فیصلے میں لکھا، “ان کا یہ دعویٰ ہے کہ مالی گوشوارہ جمع کرانے کے بعد جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا لیکن اس وقت ان (جائیدادوں) کی تعداد میں تو اضافہ نہیں ہوا۔”
سابق امریکی صدر ٹرمپ کو کیپیٹل ہل فسادات میں اپنے کردار، ریاست جارجیا میں مبینہ انتخابی مداخلت، خفیہ دستاویزات کی غلط ہینڈلنگ اور پورن فلم اسٹار سٹورمی ڈینیئلز کو منہ بند رکھنے کے لیے ادا کی جانے والی رقم کے علاوہ ہتک عزت کے حوالے سے متعدد دیگر مجرمانہ الزامات کا سامنا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں