شاہ رخ خان: ایک سپر سٹار کا تجزیہ(4)-ذوالفقار علی زلفی

رام راج و لبرل معاشی نظام میں آؤٹ سائیڈر مڈل کلاس کے لئے مواقع پر مبنی فلمی پیشکش اور شاہ رخ خان “دل والے دلہنیا لے جائیں گے” کے بعد تقریباً لازم و ملزوم ہوگئے ـ رام اور مڈل کلاس فلمی پیشکش ان کی ذاتی زندگی کے ساتھ مل کر اسٹار پاور کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے رہے ـ وہ ذاتی زندگی میں نہ صرف ایک کامیاب آؤٹ سائیڈر مڈل کلاس تھے بلکہ ایک ہندو بیوی کے شوہر بھی تھے ـ “دل والے دلہنیا لے جائیں گے” کی بے پناہ مقبولیت نے ان کی ذاتی زندگی سے جُڑ کر انہیں پہلی صف میں کھڑا کردیا ـ
فلم “پردیس” (1997) گوکہ “دل والے دلہنیا لے جائیں گے” جیسی مقبولیت حاصل نہ کرسکی مگر اس فلم نے ان کو ایک قدم مزید آگے بڑھایا ـ “پردیس” کا شاہ رخ خان امریکا میں مقیم ایک ایسا مڈل کلاس ہے جو اپنے کمپنی مالک کو باپ کی جگہ مانتا ہے ـ یہاں بھی ان کا کردار ایک “آؤٹ سائیڈر مڈل کلاس” کا ہے جو لبرل معاشی پالیسی کے بعد بہتر مستقبل کے لئے امریکا (بن باس) چلا آتا ہے ـ امریکا میں رہنے کے باوجود وہ ایک محبِ وطن بھارتی ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیبی تناظر میں ایودھیا (رام راج) سے منسلک اقدار و روایات پر کاربند ہے ـ فلم کی فی میل پروٹاگونسٹ گنگا (مہیما چوہدری) کمپنی مالک کے بیٹے سے منسوب ہوکر امریکا چلی آتی ہے ـ ہندو تہذیب و ثقافت میں گنگا ایک مقدس دریا ہے جسے خوش حالی کی دیوی لکشمی سے منسوب کیا جاتا ہے ـ لکشمی کی ایک صورت سیتا ماتا بھی ہیں ـ گویا گنگا کا امریکا جانا راونڑ کی لنکا میں قید ہونے کی علامت ہے ـ امریکا میں گنگا کو احساس ہوجاتا ہے کہ نہ صرف امریکا اس کی جگہ نہیں ہے بلکہ اس کا رام بھی کمپنی مالک کا بیٹا نہیں بلکہ شاہ رخ خان ہے ـ ہندو توا نظریے کے تحت گنگا کا تقدس بھارت ماتا سے منسلک ہے جو ہمالیہ سے بحرِ ہند تک محیط ہے ـ بھارت ماتا کی سرحد کے پار گنگا کا تقدس پامال ہوجاتا ہے ـ فلم کے ایک سیکوینس میں گنگا کو امریکا میں پامال کرنے کی کوشش بھی دکھائی جاتی ہے ـ شاہ رخ خان بھگوان رام کا روپ دھار کر اپنی سیتا کو لنکا سے آزاد کرکے دوبارہ ایودھیا چلا آتا ہے ـ اس فلم میں بھی مغرب میں مقیم خوش حال بھارتیوں کی حب الوطنی کو رام کی اساطیر میں گوندھ کر پیش کیا گیا ہے ـ
اس سال لیکن شاہ رخ خان کی سب سے بڑی فلم “دل تو پاگل ہے” رہی ـ اس فلم میں انہیں پہلی دفعہ ہندی سینما کی سب سے بڑی فیمیل سپر اسٹار مادھوری کے ساتھ رومانس کرتے دکھایا گیا ـ یہ فلم بظاہر ایک ٹرائنگل لو اسٹوری ہے مگر اس کی تھیم بھی رامائن سے متاثر ہے ـ والمیکی کی بالا کندا ( Balakanda) کی مانند اس میں رام کی نوجوانی، تربیت اور اپنی سچی محبت تک پہنچنے کی عکاسی کی گئی ہے ـ
اپر مڈل کلاس راہول (شاہ رخ خان) اپنی دنیا میں مگن نوجوان ہے ـ اس کی دوست پوجا (کرشمہ کپور) اس سے محبت کرتی ہے مگر راہول کو محبت اور ایک لڑکی کے ساتھ ساری زندگی گزارنے کی روایت فضول لگتی ہے ـ ایسے میں حسین اور ٹھہری ہوئی شخصیت کی مالکن نشا (مادھوری) کی انٹری ہوتی ہے ـ رفتہ رفتہ راہول بھارتی اقدار و روایات سے آشنا ہوتا ہے اور یہ آشنائی اسے حقیقت کی دنیا میں پہنچاتی ہے، وہ اپنے لئے بنائی گئی عورت (سیتا) کی محبت تک رسائی پالیتا ہے ـ اس فلم میں نہ صرف رام کی نوجوانی کی عکاسی نظر آتی ہے بلکہ لبرل کلچر کو بھی متاثر کن حد تک پیش کیا گیا ہے ـ ہدایت کار یش چوپڑا نے اس فلم میں اپنی کلاسیک تخلیق کی نسبت رنگوں کی کمپوزیشن کو مزید بہتر بنایا ہے ـ
“دل تو پاگل ہے” اور “پردیس” کے ساتھ ساتھ اس سال نسبتاً کم معروف فلم “یس باس” بھی آئی ـ اس فلم میں شاہ رخ خان نے ایک ایسے مڈل کلاس نوجوان کا کردار نبھایا ہے جو کامیابی کے حصول کے لئے Boss is always right کے اصول پر چلتا ہے ـ یہ فلم بہرحال لبرل اور جاگیردارانہ اقدار کے بین بین چلتی ہے ـ راہول (شاہ رخ خان) ایک غلام مزارع کی طرح اپنے باس سدھارتھ چوہدری (ادیتیا پنچولی) کے ہر الٹے سیدھے حکم کو بجا لاتا ہے ـ وہ سیما (جوہی چاؤلہ) سے اپنی محبت کو بھی نظر انداز کرکے دل پر پتھر رکھ کر اسے باس کے حوالے کرنے کی تراکیب لڑاتا ہے ـ سدھارتھ کا رویہ اور مطالبات جاگیردارانہ جب کہ راہول کا کردار پیٹی بورژوازی کی فطری موقع پرستی کی نمائندگی کرتا ہے ـ ہدایت کار نے البتہ اختتام میں لبرل معیشت کی منافقت پر پردہ ڈال کر محبت کو مادی کامیابی پر ترجیح دی ہے ـ ہدایت کار کی مداخلت کے باعث یقیناً سماجی سطح پر مڈل کلاس کو تسکین کا احساس ہوا ہوگا ـ
اگلے سال سپراسٹار کی شناخت کے ساتھ شاہ رخ خان ایک اہم تجربے کے ساتھ سامنے آئے ـ یہ ہدایت کار منی رتنم کی “دل سے” ہے ـ یہ مسلح علیحدگی پسندی کے اسباب و علل پر بحث کرتی ایک سیاسی فلم ہے ـ فلم کے حاشیے میں آل انڈیا ریڈیو کے صحافی (شاہ رخ خان) اور علیحدگی پسند خودکش بمبار خاتون (منیشا کوئرالہ) کے درمیان رومانس کو بھی جگہ دی گئی ہے ـ فلم کی تھیم میں چوں کہ ہندو توا اور لبرل معیشت کا اثبات نہیں ملتا اس لئے نوے کی دہائی پر غالب ان دونوں رجحانات سے متاثر فلم بینوں نے اسے بری طرح مسترد کردیا ـ
اس سنجیدہ تخلیق کی تجارتی ناکامی نے شاہ رخ خان پر واضح کردیا ان کے لبرل معیشت اور ہندو توا سیاست سے متاثر پرستار انہیں کسی اور کردار میں دیکھنا نہیں چاہتے ـ شاہ رخ خان مدت تک سپراسٹار بنے رہنے کی یہ قیمت ادا کرتے رہے ـ سالوں بعد جب وہ دوبارہ “سوادیس” (2004) کے ذریعے سنجیدہ سیاسی ڈرامے کا حصہ بنے تو ایک دفعہ پھر تجارتی میدان میں منہ کے بل گرے ـ تاہم “دل سے” اور “سوادیس” کے درمیان انہوں نے لبرل معیشت اور رامائن کو مختلف کرداروں کے ذریعے پیش کرکے اپنے لئے “کنگ” کا خطاب حاصل کرلیا ـ “کنگ” بننے کا یہ سفر بھی دلچسپ رہا ـ
جاری ہے

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply