دنیائے عالم میں کم ہی ایسی قومیں آباد ہیں جہاں کلاسوں کی بلیم گیم ہو تی ہے۔ پاکستان اور بھارت میں کلاسوں کا طوطی بولتا ہے۔ ہمارے ہاں بچپن سے ہی بچوں کو دو اہم ترین تعویزوں کا رس گھو ل کر پلایا دیا جاتا ہے۔ اس عرق خاص کا منجن ”کلاس“ اور ”کمپلیکس“کہلاتا ہے۔ پھر یہ منجن معصوم بچوں کے مستقبل اور قلوب و اذہان پر زمانہ جاہلیت کا زنگ آلود قفل لگا دیتا ہے۔الغرض ماں کی بے غرض محبت اور باپ کی بے مثل قربت بھی کلاس اور کمپلیکس کی موجودگی کیوجہ سے بچے کو معاشرے کا قابل فخر شہری اور مستقبل کا معمار نہیں بننے دیتی!
”کلاس“ کی اجزائے ترکیبی بنیادی طور پرچار الفاظ کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے۔(1)۔ لوئر کلاس۔(2)۔ لوئر مڈل کلاس۔(3)۔اپر مڈل کلاس۔(4)۔ ایلیٹ کلاس۔ اوّل الذکر اور آخر الذکر دونوں کلاسز موج مستی کی زندگی گزارتی ہیں۔
لوئر کلاس کومعاشرے میں کوئی کلاس نہیں دی جاتی اوردر حقیقت یہ کسی کلاس کے لیے کوشاں بھی نہیں ہوتا۔ اس کا جو بھی سٹیٹس ہے وہ اسی پر صبر شکر کر تا ہے اور پھر لگ جاتاہے بچوں کا پیٹ بھرنے کی محنت میں۔ لوئر کلاس کا کوئی فیوچر نہیں ہوتا۔ وہ کبھی اپنے بچوں کے لیے اونچا خواب نہیں دیکھتا۔ اس کی اجتماعی سوچ والی رگ بچپن میں ہی فوت ہو جاتی ہے، وہ بس انفرادی سوچ کے معیار کو ہی حرف آخر سمجھ کرمعاشرت و معیشت کی اندھی دوڑ میں مگن رہتا ہے۔ یہ سوچ بچار سے عاری رہ کر عقل و فطرت کے کاموں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ یہ لوگوں کی اچھی بری باتوں پر کان نہیں دھرتا۔ اس کے بچے زیادہ تر سرکاری سکولوں میں حصول علم کا فریضہ سرا نجام دیتے ہیں۔اس کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ اس کے بچوں نے بڑا آدمی تو بننا نہیں ہے اسی یے وہ شخصیت سازی و کرشمہ سازی کے خواب ہی نہیں دیکھتا۔ مانگ تانگ کر جیسے تیسے گزارہ کرتا ہے۔
لوئر مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔مڈل کلاسیے کو امیر غریب جب کہ غریب امیر تصور کرتے ہیں۔ لوئر مڈل کلا سیے کے پاس موٹر سائیکل ہو گی تو اپر مڈل کلاسیے نے ادھار پکڑ کر اولڈ ماڈل مہران، سوزوکی کلٹس یا ہنڈا سٹی لی ہو گی۔ نیندیں دونوں کی ابدی حرام رہتی ہیں۔ یہ دونوں ہر حال میں قربانی کرتے ہیں چاہیے انہیں گھر کی کوئی قیمتی چیز ہی بیچنی پڑھ جائے۔انہیں ہر حال میں عیدالفطر پر بچوں کے لیے نئے کپڑے خریدنے ہیں چاہیے پھر انہیں ایڈوانس تنخواہ ہی لینی پڑے۔ان کے گھر میں امیروں والی ہر چیز ہو تی ہے مگر پرانی اور تھرڈ کلاس۔اس کے پاس اے سی ہوگا لیکن پرانا۔ اس کے پاس سردیوں میں ہیٹر تو ہو گا مگر گیس نہیں ہوگی۔ یہ شاپنگ تو کرتا ہے مگر بچوں اور بیوی کے لیے۔ یہ اے ٹی ایم مشین پر جاتا ہے اور ایک ہی باری میں اس کی تنخواہ نکل آتی ہے اور سار اماہ ٹرانزیکشن کی چٹ کو دیکھ کر گزارا کرتا ہے۔ اس کی زندگی میں عجیب سا الجھا ؤ رہتا ہے اور سلجھاؤ کی تدبیر کرتے کرتے مر جاتا ہے۔ مڈل کلاسیاآؤٹنگ کے لیے جائے تو دو افغانی شوارمے پورا ٹبر کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
مڈل کلاسیے زندگی بھر کمیٹیاں ڈالتے ہیں اور پھر بھی گھر نہیں بنتا اور اگر بن جائے تو باقی کچھ نہیں بچتا۔یہ برینڈ ڈ سٹف پہنتے ہیں مگرکسی کا دیا ہوا۔ ان کا گھر نسبتا بہتر مگر کرائے کا ہوتا ہے۔ انکا ٹی وی، موبائل، فریج، اون وغیرہ ہوتا ہے مگر پرانا اور ٹھیکرا۔ کسی دوست یا رشتہ دار کی شادی آجائے تو پورے سال کا بجٹ ڈسٹرب ہو جاتا ہے۔ یہ ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے امیر لگیں، مگرکسی غریب کو۔ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت انہیں امیر سمجھتی ہے اور ٹیکس لاگو کرتی ہے حالانکہ یہ بیچارے قسمت کے ہارے لوئر کلاس سے بھی بدتر زندگی گزاررہے ہوتے ہیں۔ غریب کو تو راشن اور زکوۃ وغیرہ ملتی ہے مگرمڈل کلاسیا اس نعمت سے محروم رہتا ہے۔اس کے مقابلے میں غریب اللہ کی ہر نعمت انجوائے کرتا ہے اور حکومت اور امیروں کی توجہ حاصل کر کے اپنے گھر کا جمع خرچ خوب اکٹھا کرتا ہے۔۔ مگر مڈل کلاسیا صر ف اور صرف کڑھتا ہے مرتا ہے، سسکتا ہے اور پھر مرتا ہے۔
کلاس اور کمپلیکس دونوں امیر اور غریب سے دور رہتے ہیں۔ غریب آدمی غربت کا رونا روتا ہے اور کمپلیکس لینے کے بجائے ہمدردیاں سمیٹا ہے اور اپنے بہتر آج کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ امیر یعنی ایلیٹ اپنی کلاس کو بھرپور مین ٹین رکھتا ہے کیوں کہ اس کے پاس ریسورس ہوتا ہے اور اس کے بل بوتے پر وہ کمپلیکس کو قریب پھٹکنے نہیں دیتا۔ غریب اور امیر دونوں فائدے میں رہتے ہیں جبکہ مڈیاکرز(مڈل کلاسیئے) کلاس اور کمپلیکس کے بے رحم تھپیڑوں کے سائے میں سسک سسک کر زندگی کی شامیں کاٹتے ہیں۔مڈل کلاسیا!! ہر شام آگے بڑھنے کا سوچتا ہے مگر اگلے ہی دن اس کی یہ سوچ ماند پڑھ جاتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں