میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(21)-گوہر تاج

ایسے انسان کی آپ بیتی  جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

گزشتہ اقساط پڑھنے  کے لیے لنک پر کلک کیجیے

https://www.mukaalma.com/author/gohar/

قسط اکیس

زنداں سے کوچ

۲۰ اکتوبر ۱۹۷۳ء ، قید سے رہائی  کا یادگار اور اہم دن تھا کہ جس کی اہمیت کا اندازہ صرف وہی لگا سکتے ہیں جو قید وبند کے تجربے سے گزرے ہوں۔ پَر کٹے ہوۓ ہوں ،توپُرتعیش محل بھی زنداں لگتا ہے۔ تقریباً بائیس ماہ کی قید کے بعد رہائی  کے اعلان نےاپنے وطن کی آزاد فضا میں ہم وطنوں کے ساتھ زندگی گذارنے کی انمول خوشی کےتصور نے سب کو سرشار کردیا تھا۔

۲۰ اکتوبر کی صبح حسبِ معمول قیدیوں کی گنتی کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ رات آٹھ بجے روانگی ہے۔لہٰذا رات سات بجے تک سب تیار رہیں۔یہی وقت عشاء کی نماز کا بھی تھا ،لہٰذا سب تیار ہوکر نماز سے فارغ ہونے کے بعد روانگی کا انتظار کرنے لگے۔ اتنی دیرمیں ٹرکوں  کی آوازیں آنے لگیں۔یہ ٹرک آرمی کیمپ کے مرکزی دروازے کے سامنے قطار کی شکل میں کھڑے ہوگئے۔اعلان ہُوا کہ ۱ سے ۹۰۰ نمبر تک کے قیدی کیمپ کے اندر میدان میں جمع ہوں گے۔

لوگ جمع ہوۓ اور پھر قیدی نمبر اور خاندان کے سربراہ کے نام پکار کر ٹرک میں بٹھانےکا مرحلہ شروع ہوا۔ ان ٹرکوں  کے اُوپر خاردار آہنی تار وں کا جال بچھا ہُوا تھا۔ایک ٹرک میں چالیس سے پچاس لوگ سوار کیے گئے۔اس طرح اس مرحلے کے مکمل ہونے میں ایک سےڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔اپنے اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھے سب لوگوں کے چہرے خوشی سےتمتما رہے تھے۔ میں نے امّی سے پوچھا ہم پاکستان کب تک پہنچیں گے؟ اس سوال کاجواب حتمی نہ تھا ،کیونکہ ہمیں اسکی زیادہ تفصیل نہیں بتائی  گئی تھی، لیکن یہ ضرور بتایا گیا تھا کہ ۲۱ اکتوبر کی صبح ہم سرحد عبور کریں گے۔سرحدی بٹوارہ کی بناء پہ نفاق اور نفرت یہ سب انسانوں کے درمیان محبت کے رشتہ کے آگے کتنا غیر اہم ہے۔کاش ہم سب اسے سمجھ لیں۔

اب موسم سرد ہوچلا تھا۔ ہم سب صاف ستھرے اور اپنے چند میسر کپڑوں  میں سے سب سے بہترین جوڑا زیب تن کیے ہوۓ تھے ۔ اس لباس کے اوپر ایک سوئیٹر اورپہن لیا، تاکہ خنکی سے بچاؤ ہوسکے۔یہ سارا منظر ایسا ہی تھا جو جنوری۱۹۷۲ء میں ڈھاکہ چھوڑتے وقت تھا ،لیکن اس سفر کے وقت تمام مسافروں کو یقین تھا کہ ان کی منزل پاکستان ہے۔

پھر مسافروں سے لدے ٹرکوں نے ایک قافلہ کی صورت میں چلنا شروع کیا۔ بتدریج کیمپ کے اونچے ٹاور اور اسکی آہنی خاردار تار وں سے گندھی دیواریں ہماری نظروں سے اوجھل ہونے لگیں۔کیمپ کے باہر ہمیں رخصت کرتے اور ہاتھ ہلاتے ہندوستانی سپاہی بھی موہوم نشان بنتے گئے۔ بائیس ماہ اس جگہ قید رہے مگر اس مشکل وقت میں یہ کیمپ ہماری پناہ گاہ تھی، اور یہ سپاہی دشمن ملک کے سپاہی سے  زیادہ ہمارےعارضی محافظ تھے۔

ٹرکوں کے اس قافلے کے اطراف، آگے پیچھے دائیں، بائیں ہندوستانی فوجیوں کی گاڑیوں نے ہمیں اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔تقریباً ایک گھنٹے کے سفر کے بعد تمام ٹرک ایک مقام پہ رُک گئے ۔ یہاں ہم سب اُتر گئے۔ یہ ایک کھلی جگہ تھی جہاں ریل کی پٹڑی گزررہی تھی۔ ایسے میں امّی کی آواز گونجی “ارے یہ تو وہی جگہ ہے جہاں ہم آتے وقت رُکےتھے۔”اور امّی کا کہنا درست تھا ،یہ میرٹھ کینٹ کا ریلوے اسٹیشن تھا۔ہم سب کو بھی یاد آگیا۔ ایسے میں ابّی کا خوف بول پڑا “کہیں ہم دوبارہ کیمپ تو نہیں جارہے۔”جس پرسب نے تسلی دی کہ نہیں اب ہم سب انشااللہ پاکستان ہی جائیں گے۔

رات کے دس بجنے والے تھے۔اس وقت پٹڑی پہ ایک ریل آکے رُکی۔اب سب کو دوبارہ نمبراور نام کے ساتھ ایک ٹرین پہ بٹھایا گیا۔اسکے بعد سارے مسافروں کو کھانا دیا گیا ۔کھانے میں پلاؤ تھا۔ جو چلنے سے پہلے قیدیوں نے ہی کیمپ کے لنگر میں پکایا تھا۔کھانا کھانے کے بعد ٹرین کی سیٹی بجی اور وہ دوبارہ چل پڑی۔ ریل کے ہر ڈبہ میں دوسپاہی ساتھ موجود تھے۔میری چھوٹی بہن نے سوال کیا “یہ لوگ کیوں ہیں؟ ہم توپاکستان جارہے ہیں۔” یہ سپاہی دراصل ہماری حفاظت کے لیے ہمارے ساتھ تھے،تاکہ ٹرین کے رکنے پہ کوئی  ہمیں نقصان نہ پہچاۓ۔ہم میں سے بہت سے لوگ تو کھانا کھا کےسو چکے تھے۔ جبکہ دوسرے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ وہ بار بار اللہ کا شکر اداکرتے اور پاکستان کی باتیں کر رہے تھے۔ خوشی میں نیند ہماری آنکھوں سے اڑ چکی تھی۔میں نے ہمت کرکے ایک فوجی سے پوچھا کہ اب ہم کہاں رُکیں گے۔ تو اس نے اس وعدے پہ کہ میں کسی اور کو نہ بتاؤں کہا کہ تقریباً نو گھنٹوں کا سفر طے کرنے کے بعدہم سرحد پہ پہنچ جائیں گے۔سونے کی کوشش بے سود تھی، نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ،میں جاگتی آنکھوں سے پاکستان میں مستقبل کے سپنے دیکھ رہا تھا۔

ہارمونیکا
شہناز بیگم

سوہنی دھرتی اللہ رکھے

ٹرین چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پہ رک کے کچھ لمبے سانس لینے کے لیے رکتی اور پھرچل پڑتی۔ لوگ تھوڑی تھوڑی  دیر بعد نیند سے اُٹھ جاتے ،شاید رہائی  کی خوشی اور فکرِفردا انہیں سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔ایسے نیم خوا بدیدہ لمحات میں میرے دوست کاشف نے اپنا ہارمو نیکا بجانا شروع کردیا۔رات کی تاریکی ، سناٹے اور ریل کے چلنےکی مخصوص آواز کے ساتھ موسیقی کا ملاپ سب کے کانوں کو بھلا لگ رہا تھا۔ منزل کی جانب رواں سفر نے وطن سے محبت کے جذبات کو کچھ اور جگا دیا تھا۔ سب مختلف مشہور گانوں کو بجانے کی فرمائش کرنے لگے۔ حتی کہ  ابّی تک نے شہناز بیگم کے قومی گیت کی فرمائش کردی

سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے

وطن کی الفت کے جذبے سے معمور یہ گیت سَن اکہتر میں گایا گیا تھا۔ شہناز بیگم کاتعلق سابق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش ) سے تھا۔ اور یکجا پاکستان کے لیےان کا آخری گیت ہی ثابت ہوا ۔ جو آج بھی مقبول ترین ملی نغموں میں سرفہرست شمارکیا جاتا ہے۔

اب صبح ہو چلی تھی۔ رات کی تاریکی چھٹ چکی تھی۔ریل کی کھڑکی سے پو پھٹتی صبح کی روشن کرنیں جھانک رہی تھیں۔ پھر کچھ دیر بعد ریل رک گئی۔پتہ نہیں کونسی جگہ تھی۔سب مسافروں کو ریل کے ڈبوں میں ہی ناشتہ دیا گیا جو ڈبل روٹی ،ابلے انڈوں اور چاۓ پہ مشتمل تھا۔رُکی  ہوئی ٹرین میں انڈین فوجیوں کی چہل پہل شروع ہوگئی۔یہ سپاہی یقیناً ہم پاکستانیوں کی حفاظت پہ معمور تھے۔پھر دو فوجی کیپٹن ہمارے ڈبے میں آۓ انہوں نے کہا آپ لوگ آرام سے ناشتہ کیجیے ۔ اب ہم پاکستان کے بہت نزدیک پہنچ گئے ہیں۔ میں نے فوجی کیپٹن سے پوچھا یہ کونسی جگہ ہے تو اس نےبتایا کہ یہ امرتسر ہے۔

یہ سنتے ہی ابّی نے کہا”یہ شہر تو لاہور سے بہت قریب ہے۔” اب ان کو پکا یقین ہوگیا تھاکہ ہم پاکستان ہی جا رہے ہیں۔ مجھے شاباشی بھی دی کہ اچھا ہوا تم نے پوچھ لیا ۔سب لوگ بہت خوش تھے اور ٹرین میں پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجنے لگے۔اب ہمیں ٹرین کی آدھی کھڑکی کھولنے کی اجازت بھی مل گئی تھی۔ پھر چلتے چلتے ٹرین ایک میدان میں رک گئی۔اس وقت صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔موسم بہت خوشگوار تھا۔ بادل چھاۓ ہوۓ تھے۔ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ شاید یہیں سے چل کر سرحد پار کریں گے۔لیکن ایک صاحب جو پنجاب سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے کہا کہ سرحد تو ابھی تیس کلو میٹر دور ہے۔ آدھہ  گھنٹے رکنے کے بعد ریل نے دوبارہ چلنا شروع کردیا۔ سوۓ منزل ،پاکستان ،جو ہمارے مستقبل کے خوابوں کی زمین تھی۔

امرتسر سے روانہ ہونے کے بعد ٹرین نے تقریبا ًایک گھنٹے کا سفر طے کیا۔ پھر بتدریج اسکی رفتار سست ہونے لگی اور بالآخیر وہ رک گئی۔ یہ ایک چھوٹا سا اسٹیشن تھا۔جس پر اٹاری لکھا ہوا تھا۔سامنے کھلا میدانی علاقہ تھا جس میں فوجی ٹرکوں  کی قطاریں لگی ہوئی  تھیں ۔

زنداں سے پرے رنگ چمن

ہم سب لوگوں کو نام بنام ٹرین سے اتار کر ٹرک میں بٹھایا گیا۔اس مرحلے میں تقریباًآدھ گھنٹہ لگ گیا۔ اب صبح کے ساڑھے نو بج رہے تھے۔ہم سب مسرت اور حیرت کی ملی جلی کیفیت سے معمور بے یقینی کے عالم میں سوچ رہے تھے کہ کہ واقعی یہ ہورہا ہے۔خوشی اس بات کی تھی کہ رہائی  اور آزادی اب ہم سے محض چند قدم کے فاصلے پہ تھی۔

ٹرک کے اندر تین مسلح فوجی ہمارے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم یہاں سےتقریباً دس پندرہ منٹ کا سفر طے کر کے پاکستانی سرحد پہ پہنچ جائیں گے۔ اتنی طویل مسافت کے بعد دس پندرہ منٹ کا سفر کوئی  مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن وہ مختصر وقت میرےحافظہ میں چپک گیا ہے۔ٹرک کے اگلے حصے میں ایک کشادہ سی جگہ پہ ایک فوجی اسلحہ کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں نے اس سے ساتھ کھڑا ہونے کی درخواست کی جو ا س نے منظور کرلی، تو میں بھی اسکے ساتھ کھڑا ہوگیا۔اور باہر کے نظاروں سے لطف اندوزہونے لگا۔جو ایک میدانی علاقہ تھا۔ دس منٹ کے بعد کچھ ہلکی موسیقی کی  آوازیں آنےلگیں۔ کچھ دیر میں یہ مدہم آوازیں واضح ہو گئیں۔ یہ آوازیں شہناز بیگم اور مہدی حسن کی تھیں۔

جو اپنی سریلی اور د لکش آواز میں دعائیہ ملی نغمہ گا رہے تھے۔

سوہنی دھرتی اللہ رکھے ، قدم قدم آباد تجھے۔

یعنی یہ آواز پاکستان سے آرہی تھی۔

وطن سے قربت کے لمحات نے ہم سب کو جذباتی کر دیا تھا۔ ٹرک کے اندر بیٹھے لوگ یہ نغمہ سن کر شاد ہورہے تھے اور بے چینی سے مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ “آگے کیا نظرآرہا ہے؟”

اتنے میں ابّی کی پُرمسرت آواز گونجی “ارے ہم تو پاکستان پہنچ گئے ہیں۔”

یقیناً ہم اب سوہنی دھرتی کے نزدیک سے نزدیک تر پہنچ رہے تھے۔گانے کی واضح ہوتی آوازوں کے ساتھ مجھے اونچائی پہ لہراتا پاکستانی پرچم نظر آیا۔ میں نے چیختے ہوۓسب کو بتایا کہ میں پاکستان کا جھنڈا دیکھ رہا ہوں۔میرے ساتھ کھڑے فوجی نے کہا”یہ آپکا پاکستان ہے۔”

یقیناً یہ ہمارا پاکستان تھا ۔ ہم سب کا پاکستان تھا جس کی خاطر ہم نے قربانی دی ۔اپنا سجا سجایا گھر چھوڑا۔قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں۔پورے دن میں محض دووقت کھانا کھایا۔ اب  ہم اپنے وطن میں تھے۔ ایک نئی امنگوں اور روشن مستقبل کےخوابوں کے ساتھ۔

یہ بھرپور خوشی کا سماں تھا۔ہر ایک کی آنکھ اشکبار تھی۔اور ہر ایک اللہ کا شکرگزار تھا۔

ایسے میں سپاہی جس کا نام گوتم تھا مجھ سے کہا اب تم ٹرک کے اندر چلے  جاؤ،ورنہ تمھاری شکایت ہو جاۓ گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply