بابا رحمتا کون؟/پروفیسر رفعت مظہر

دینِ مبیں میں عدل کی حاکمیت یوں قرار دی گئی ہے کہ جب میزانِ عدل ہاتھ میں ہوتو پھر چھوٹے بڑے اور امیرغریب کی تفریق مٹا دی جاتی ہے۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ اگر عدل کا پلڑا کسی کی وجاہت کے خوف سے اُس کی طرف جھُک جائے تو پھر قیصروکسِریٰ کی حکومتوں اور اسلامی ریاست میں کیافرق ہوا؟ عدل ایسا وصف ہے جو قوموں کو رفعتوں سے ہمکنار کرتاہے۔ قوموں کی نشوونما اور تعمیروترقی کے لیے انصاف بنیادی ضرورت ہے کیونکہ اِس کی بدولت کمزوروناتواں کو نصرت نصیب ہوتی ہے اور ظلم وجبر کا خاتمہ ہوتاہے۔

اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں عادلوں نے میزانِ عدل کو لرزہ براندام نہیں ہونے دیا۔ صرف ایک مشہور واقعہ عرض ہے کہ ایک طاقتور قبیلے کی فاطمہ نامی عورت چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی تو آپﷺ نے اُس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ صحابہ ا کرام نے عرض کیاکہ قبیلہ طاقتورہے اور شَر پھیلنے کا خطرہ ہے اِس لیے دَرگزر فرمائیں۔ تب آقاﷺ نے فرمایا “رَبِ کعبہ کی قسم اگر اِس عورت کی جگہ میری بیٹی فاطمہؓ بھی ہوتی تو میں اُس کا ہاتھ کاٹنے کابھی حکم دیتا” (مفہوم)۔

بدقسمتی یہ کہ وہ عصائے عدل جسے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے تھا وہ دیگر اقوام کے ہاتھ میں ہے۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجئے کہ اقوامِ عالم میں بھی وہی قومیں ترقی یافتہ ہیں جہاں عدل کی فراوانی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں جب جرمن طیارے لندن پر بمباری کر رہے تھے تو عوام کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے برطانوی وزیرِاعظم چرچل نے پوچھا “کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں؟”۔

جواب مثبت میں آیا تو اُس نے کہا “اگر ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں تو برطانیہ کو کچھ نہیں ہوسکتا”۔ ہمارے ہاں معاملہ مگر یکسر مختلف۔ ہماری معیشت لبِ گور، معاشرہ انتشار کا شکار، دہشت گردی ایک دفعہ پھر سر اُٹھاتی ہوئی، مہنگائی کا عفریت ہرکہ ومہ کو نگلتاہوا اورہم کشکولِ گدائی تھامے دَربدر۔ وہ IMF جسے ہم 2016ء میں خُداحافظ کہہ چکے تھے آج ایک دفعہ پھر مَن مرضی کے فیصلے ٹھونستا ہوا اور اہلِ سیاست کا یہ حال کہ “نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں”۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اِس کا بنیادی سبب عدل سے دوری ہے۔ ہم نے لا الہ الا

اللہ کی بنیاد پر زمین کا یہ ٹکڑا حاصل تو کرلیا لیکن اِسے اسلام کی تجربہ گاہ میں نہ ڈھال سکے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے “بابا رحمتا” کا کردار تخلیق کرتے ہوئے اپنے احترام کی خواہش کا اظہار تو کردیا لیکن عزت کیا ڈنڈے کے زورپر بھی کروائی جاسکتی ہے؟ تاریخِ عدل میں ثاقب نثار کا کردار ایسا سیاہ باب ہے جس کی بدولت اقوامِ عالم میں پاکستان آخری نمبروں پرہے۔ یہ وہی شخص ہے جس کے زیادہ تر فیصلے متنازع ہی رہے۔ عدل کی سب سے اونچی مسند پر بیٹھ کر بھی اُس کا کردار کسی ڈان کا سا رہا۔ اُس نے “ڈیم فنڈ” کے نام پر اربوں روپے وصول کیے۔ ایسے میں بھلا “بابا رحمتے” کی عزت کون کرے گا؟

اگر تاریخِ عدل پر نگاہ دوڑائی جائے تو ہمیں جابجا بابے رحمتے ہی نظر آئیں گے۔ جسٹس منیر نے 1954ء میں غلام محمد کے دستورساز اسمبلی کے توڑے جانے کو “نظریہئی ضرورت” کا سہارا لیتے ہوئے جائز قراردیا اور پھر خود ہی ریٹائرمنٹ کے بعد اعتراف کیا کہ یہ فیصلہ دباؤ کا نتیجہ تھا۔ چیف جسٹس منیر سے لے کر چیف جسٹس عمرعطا بندیال تک یہی نظریہئی ضرورت کسی نہ کسی شکل میں کارفرما رہا۔

ذوالفقارعلی بھٹو کے عدالتی قتل کا سرِعام اقرار اُس بنچ کے ایک رُکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ جسٹس مولوی مشتاق کو بھٹو کا مقدمہ نہیں سننا چاہیے تھا کیونکہ اُس کی بھٹو سے ذاتی رنجش تھی۔ معروف کالم نگار سہیل وڑائچ کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پانامالیکس میں میاں نوازشریف کو ملوث کرنے کے لیے کیس کو خود ہی قانونی شکل دی اور پھر تحریکِ انصاف کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ وہی کیس میں بنچ کی سربراہی کریں گے۔ پھر جسٹس کھوسہ ہی کی سربراہی میں پانچ رُکنی بنچ تشکیل دیاگیا۔ دورانِ سماعت جسٹس آصف کھوسہ نے میاں نوازشریف کو گاڈفادر اور سسلین مافیا قرار دیا۔ جب کچھ بَن نہ پڑا تو نام نہاد “بلیک لاء ڈکشنری” کاسہارا لیتے ہوئے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں میاں صاحب کو نااہل قرار دے دیاگیا۔

تحریکِ انصاف کے ماہرِ قانون حامد خاں نے کہا “پانامالیکس کیس میں نوازشریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی ہو چکاتھا اور عدلیہ کو صرف فیصلہ سنانے کے لیے استعمال کیاگیا”۔ ہو سکتاہے کہ کل کلاں یہ دونوں بابارحمتے اقرار کرتے نظر آئیں کہ اُنہوں نے سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر کیا۔ ویسے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کا یہ بیانِ حلفی آج بھی موجود ہے کہ جنرل فیض حمید (ر) اُن کے پاس آئے اور کہا کہ اگر میاں نوازشریف اور مریم نواز کا کیس اُن کے پاس آئے تو وہ کیا فیصلہ کریں گے؟ جسٹس صاحب نے کہا کہ وہی فیصلہ جو آئین وقانون کے مطابق ہوگا۔ اِس پر فیض حمید نے کہا “اِس طرح تو آپ ہماری 2 سالہ محنت پر پانی پھیر دیں گے”۔ پھر نا کردہ گناہ کی پاداش میں جسٹس شوکت صدیقی کو ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے اور میاں نوازشریف، مریم نواز کو تو جیل جاناہی تھا کہ یہی “زورآوروں” کا فیصلہ تھا۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، آصف سعیدکھوسہ اور گلزاراحمد تو میاں نوازشریف کی نااہلی میں براہِ راست ملوث تھے ہی لیکن اِن تینوں چیف جسٹس صاحبان کی پیروی کرتے ہوئے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے تو ساری حدیں ہی کراس کر ڈالیں۔ وہ ایک سیاسی جماعت کے عشق میں یوں گرفتار ہوئے کہ سُدھ بُدھ گنوا کر آئین ہی کو RE-WRITE کر ڈالا۔ اُنہوں نے ہم خیال ججز کا ایک گروپ بناکر عدلیہ کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا۔ جب بھی کسی سیاسی معاملے پر چیف جسٹس کی سربراہی میں ہم خیال ججز کا بنچ تشکیل پاتا تو ایک عام شخص کو بھی پتہ چل جاتا کہ کیا فیصلہ آنے والاہے۔ پاکستان بار کونسل نے بندیال صاحب کی ریٹائرمنٹ سے ایک دن پہلے جو نوٹ لکھاوہ پاکستان کی تاریخِ عدل میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ لکھا گیا “جنابِ چیف جسٹس صاحب! ہم نے ایک ہی دن میں انصاف کا عجیب دوہرا معیار دیکھا کہ پنجاب میں انتخابات کا حکم دے دیا گیا جبکہ کے پی کے میں اِسی نوعیت کا معاملہ نظرانداز کر دیا گیا جس سے عدالتِ عظمیٰ کا وقار بُری طرح سے پامال کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسری طرف تماشا یہ ہے کہ پنجاب میں 14 مئی تو کیا آج تک انتخابات نہیں ہوسکے۔ لہٰذا ہم صدقِ دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ عدالتِ عظمیٰ کو ایسا حکم دینا چاہیے جس پر عمل درآمد ہوسکے یا کروایا جاسکے”۔ آگے چل کر لکھا گیا “جنابِ چیف جسٹس! آپ کے دَور میں ایسے فیصلے کیے گئے جن کی کوئی مثال نہیں ملتی اور ہم انتہائی کرب کے ساتھ یہ کہنے پر مجبورہیں کہ اِن فیصلوں کو تاریخ کبھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرے گی”۔ اب فیصلہ آپ کاکہ کیا صرف جسٹس ثاقب نثارہی “بابا رحمتا” تھا یا عشروں سے عدل کے اونچے ایوانوں میں کم وبیش “بابارحمتوں” ہی سے پالا پڑتارہا۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بابا رحمتا کون؟/پروفیسر رفعت مظہر

Leave a Reply