ایشیا کپ اور کرکٹ کے فرشتے/وقاص رشید

       ایشیاء کا نام آتے جو چند چیزیں سرِ دست ذہن میں آتی ہیں ان میں سے ایک کرکٹ ہے۔ کرکٹ کے افق پر اس خطے کے ٹوٹے ہوئے تارے مہِ کامل بن کر آدمِ خاکی کا عروج پاتے رہے اور پا رہے ہیں۔ یہاں تین بڑی کرکٹنگ قومیں پائی جاتی ہیں ۔ پاکستان ، بھارت اور سری لنکا۔ اس لیے ایشیاء کپ ان ممالک کے مابین ایشین چیمپئن بننے کا ایک دلچسپ معرکہ ہوتا ہے۔ آج کل جاری ایشیاء کپ کا اب ایک ہی میچ باقی ہے اور وہ ہے بھارت اور سری لنکا کے درمیان کھیلا جانے والا فائنل۔ یہ سطور پڑھ کر بطورِ پاکستانی کرکٹ شائق کے آپکا پاکستان بھارت فائنل ٹاکرا دیکھنے کی حسرت کا زخم ہرا ہو گیا ہو گا۔ یقیناً لکھتے ہوئے میرا بھی ہوا۔

     دنیا کی نمبرون ٹیم پاکستان ایشیا کپ کے فاتح کے فیورٹ کے طور پر میدان میں اتری۔ ورلڈکپ سے قبل یہ ٹیم کی کڑی آزمائش بھی تھی اور ورلڈکپ کے لیے مطلوبہ خود اعتمادی کے حصول کا بہترین موقع بھی۔ ایک بہترین کمبی نیشن تیار ہو سکتا تھا۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا بحرحال غلطیوں کے اعادے سے یہ اب بھی ممکن ہے۔

     پچھلے دنوں پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے ایک کم ظرفی کا مظاہرہ کیا گیا جب پاکستان کرکٹ کی تاریخ سے عمران خان کو نکالنے کی کوشش کی گئی۔ دیکھا جائے تو یہ  ایک حرکت ہماری قومی تنزلی کا احاطہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ یعنی اختیار کو ذاتی پسند ناپسند کے لیے استعمال کرتے ہوئے حتی کہ تاریخ کو بھی مسخ کرنا۔ تاریخ کو عقیدت یا حقارت کی ذاتی ترجیحات کے چشمے سے دیکھنے کے لیے نرم ترین لفظ حماقت کی ہو سکتا ہے۔ مگر اسلامی تاریخ  سے قومی تاریخ تک ہم اسکے عادی یعنی احمق ہیں۔

      حالانکہ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کا فرانزک تجزیہ شروع ہی 92 کے ورلڈکپ کی جیت سے ہوتا ہے۔ ایک چھٹے ساتویں نمبر کی ٹیم کا تاریخ کا واحد ون ڈے ورلڈکپ جیتنا  دراصل اس خوداعتمادی کا شاہکار تھا جسکے دوبارہ حصول کا کھلاڑیوں سے شائقین تک ہر کوئی متمنی ہے۔

      جیسے انگلینڈ آسٹریلیا کی ایشز ٹیسٹ کرکٹ کی شان ہے ویسے پاکستان بھارت مقابلے بھی ون ڈے یا ٹی ٹونٹی کا حسن کہلاتے ہیں (یاد رہے کہ راقم کسی سیاسی ، جغرافیائی یا عسکری کاروباری رقابت کا قائل نہیں )۔

     پاک بھارت کرکٹ کا تجزیہ کچھ حیران کن حقائق کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان بھارت کو ورلڈکپ کے علاوہ ہر جگہ مات دیتا تھا۔ بھارت کی ٹیم صرف ساچن ٹنڈولکر دی گریٹ پر انحصار کیا کرتی تھی۔ وہ آؤٹ ہوئے تو ساری ٹیم دھڑام سے نیچے آ گرتی۔ باؤلنگ میں ایک مدت تک سری ناتھ اور کمبلے کے علاوہ کوئی خاص نام ابھرا نہ تھا۔ پاکستان بھارت کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں چاروں شانے چت کر دیا کرتا تھا۔

         اس وقت پاکستان میں باؤلنگ میں وسیم اکرم ، وقاریونس ، مشتاق ، ثقلین اور پھر شعیب اختر ہوا کرتے تھے۔ بیٹنگ میں جاوید میانداد، سعید انور ، عامر سہیل ، انضمام ، یوسف ، اور بہترین آل راؤنڈرز عبدالرزاق ، اظہر محمود اور شاہد آفریدی ہوا کرتے تھے۔ یہ کھلاڑی اپنی محنت ، ریاضت اور جان لڑانے کی خو کی بنیاد پر آل ٹائم سپر سٹارز کہلائے۔

       بھارت نے وہاں سے ادارہ جاتی بنیادوں پر اپنی کرکٹ کو اٹھایا اور آج انکی ٹیم میں ایک کے بعد دوسرا dependable بلے باز آتا ہے۔ باؤلنگ کے شعبے کا بھی یہی عالم ہے چاہے سپن ڈیپارٹمنٹ ہو یا پیس اٹیک۔

        ایشیاء کپ کی بات کی جائے تو پاکستان اور بھارت کے میچ میں ہماری ٹیم بحیثیت ایک یونٹ کے شدید احساسِ کمتری کا شکار نظر آئی۔ کیا بیٹنگ ، کیا باؤلنگ اور کیا فیلڈنگ۔ اور یہی احساسِ کمتری تاریخ کی بد ترین ہار پر منتج ہوا۔

         پاکستان اور سری لنکا کے میچ کی بات کی جائے تو یہ میچ ایک لٹمس ٹیسٹ کے طور لیا جا سکتا ہے۔ بارش کے باعث 42 اوورز تک محدود اس یادگار میچ میں آخری بال پر فیصلہ یقیناً دلچسپی کے لحاظ سے بہترین معرکہ تھا لیکن فائنل کی دوڑ سے پاکستان کا باہر ہونا جن غلطیوں کی وجہ سے تھا انکا اعادہ ضروری ہے کیونکہ زندگی میں غلطیوں کے تدارک ہی سے نتائج کی بہتری ممکن ہے۔

     اوپننگ بیٹسمین، بیٹنگ لائن اپ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مگر ہمیں بد قسمتی سے ورلڈکپ سر پر آچکنے پر بھی کوئی بہترین و مستقل جوڑی دستیاب نہیں۔ فخر زمان ایک آن سائیڈ سلاگر ہے۔ ٹیکنیک بہت کمزور ہے۔ دنیا کا کوئی بھی بلے باز جب خود کو وکٹ کے ایک طرف کے لیے مخصوص کر لیتا ہے تو اچھے اور سمجھدار باؤلر دوسری طرف کی لائن اینڈ لینتھ اور فیلڈ پلیسنگ سے  اس سے رنز نہیں کھاتے۔ فخر زمان اسی وجہ سے مسلسل ناکامی کا شکار ہیں۔

      بابر کا آغاذ بہت مثبت تھا لیکن اگر انہوں نے بھارت کے خلاف سری لنکا کے پانچ آؤٹ کرنے والے بیس سالہ نوجوان ویلالاگے پر ورک آؤٹ کیا ہوتا تو ایک لوزشاٹ کھیل کر سٹمپ آؤٹ نہ ہوتے۔ عبداللہ شفیق نے ایک اچھی اننگز کھیلی لیکن اسے سینچری میں بدلنے کا سنہری موقع ایک ریش شاٹ کھیل کر ضائع دیا جب ڈیپ مڈ وکٹ پر ایک ہی فیلڈر اس فالس ہک شاٹ کے لیے کھڑا کیا گیا تھا۔ نہ تو انہوں نے گیند کو گراؤنڈ کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی باڈی کو گھماتے ہوئے اسی فل بلڈڈ ہک کرنے کی کوشش کی کہ باؤنڈری سے باہر جائے۔

     اسکے بعد رضوان نے اچھی اننگز کھیلی لیکن آخر پر وہ بھی اپنی لیگ سائڈش ٹیکنیک کی وجہ سے اپنی سینچری اور ٹیم کے پندرہ سے بیس رنز پیچھے رہے کیونکہ آخر پر ان سے آن سائیڈ سلاگنگ کی کوشش میں کافی مسنگ ہوئی۔

   افتخار نے بھی اچھی اننگ کھیلی لیکن صرف اپنی ٹیکنیک میں کورز اور آن سائیڈ آؤٹ شاٹس نہ کھیلنے سے وہ لیگ سائیڈ سلاگنگ کی کوشش میں مسنگ بھی کرتے رہے اور آؤٹ بھی ہو گئے۔ بحرحال رضوان اور افتخار کی اوورآل اچھی اننگز کی بدولت پاکستان نے 252 رنز بنا لیے۔ حارث کو اگر ون ڈے کرکٹ کھیلنی ہے تو اپنی کرکٹنگ سوچ پر بہت توجہ دینی ہو گی اس casual بیٹنگ اپروچ کے ساتھ تو شاید وہ ٹی ٹونٹی میں بھی تادیر نہ کھیل سکے۔

     سری لنکا کی ٹیم کی بدن بولی پہلی ہی گیند گرنے سے بہت مثبت تھی۔ انکے اوپنر کا پاکستان کے مین باؤلر شاہین آفریدی پر اٹیک کرنا ایک مضبوط اٹیکنگ اور مثبت مائنڈ سیٹ کی دلالت کر رہا تھا۔ شاداب خان کی پورے میچ میں واحد اچھی کارکردگی پریرا کا رن آؤٹ تھا جو بہت جارحانہ موڈ میں تھا۔ اسکے بعد ایک بہترین پارٹنر شپ مینڈس اور سدیرا کے درمیان رہی۔ انکی پارٹنرشپ کی خاص بات نیچرل سٹروک پلے تھا۔ وہ بہترین انداز میں ہر دور اورز میں ایک آدھ باؤنڈری کے ساتھ سٹرائیک روٹیٹ کرتے رہے۔ سنگلز اور ڈبلز کے اس تواتر کے ساتھ انکی اوریج چھے ساڑھے چھے سے کم ہوئی ہی نہیں۔

       پاکستانی ٹیم کی باؤلنگ میں جہاں حارث اور نسیم کی شدید کمی محسوس ہوئی وہیں پر سپن ڈیپارٹمنٹ میں اوسط درجے کی باؤلنگ نے سری لنکا کا ہدف آسان بنایا۔ شاداب ایک عام سے لیگ سپنر بن کر رہ گئے ہیں انکے پاس دھوکہ دینے والی گگلی نہیں۔ فلپر کرنے کی کوشش میں ہاف ٹریکر کر جاتے ہیں۔ فلائیٹ دیتے ہوئے فل ٹاس کرنے لگتے ہیں۔ نواز نے اکنامکلی اچھی گیندبازی کی لیکن پاکستان کو رن آبال کی صورت میں جیتنے کے لیے وکٹیں چاہیے تھیں جو نہ مل سکیں۔

    ایک اور بات جو اس میچ میں کھل کر سامنے آئی ہے اور جو میری نگاہ میں ہار کا سبب بنی وہ بابراعظم  کا لگا بندھا اندازِ کپتانی ہے۔ افسوس تب ہوتا ہے جب انفارمیشن کے دور میں ہم شائقینِ کرکٹ کئی چیزوں کی کمی باہر بیٹھ کر محسوس کرتے ہیں۔ مگر پچیس کروڑ کے نمائندہ کھیلنے والے گیارہ اور انکا سربراہ یہ محسوس کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔

          آپ صرف تین کامیاب باؤلرز کے باؤلنگ فگرز دیکھ لیجیے آپکو بابر کی کپتانی میں دفاعی حکمتِ عملی دکھائی دے دے گی۔ شاہین 9-52-2 , شاداب 9-55-1، افتخار 8-50-3۔ یاد رہے کہ یہ وکٹس کھیل کے آخری حصے میں گریں جسکا صاف مطلب یہ ہے کہ پارٹنر شپ بلڈنگ کے دوران فیلڈنگ پھیلا کر بیٹسمین کو باآسانی سٹرائیک روٹیٹ کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ باقی کسر دو سپن باؤلرز  اور وسیم جونئیر کی کمزور باؤلنگ نے پوری کی۔

      محمد رضوان نے رنز تو کیے مگر اہم ترین موقع پر اس بلے باز کا کیچ گرا دیا جس نے سری لنکا کو میچ جتوایا۔

    محمد زمان ایک محنتی اور باصلاحیت کھلاڑی ہے لیکن اسکا آخری اوور واضح طور پر دباؤ کا شکار نظر آیا۔ پہلا بال سلو ڈلیوری فائن لیگ اوپر اور پیڈز پر فل ٹاس ۔ شکر کرے کہ بچ گیا۔ اسکے بعد آخری دو گیندوں میں جب چھے چاہیے تھا تو کوئی وجہ ہی نہیں تھی کہ آپ تھرڈ میں دائرے میں رکھ کر آف سٹمپ سے باہر گیند کریں یہ ہر طرح کی کرکٹ میں باؤنڈری ہو گی۔ اور بھیا آپ اسی چوکے پر زمین بوس کیوں ہو گئے وہیں دل کیوں ہار بیٹھے۔ آخری بال پر دو چاہیے تھا واپس مڑتے پر عزم ہوتے اور اپنا بہترین گیند پھینکتے جو بلاک ہول کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ یہاں بھی کپتانی کا شدید فقدان نظر آیا۔ آخری بال پر دو چاہئیں اور فیلڈر سارے باونڈریز پر ہیں ۔ حالانکہ باؤلر کو یہ اعتماد دیا جاتا کہ اس نے بلاک ہول میں تیز یارکر کرنا ہے اور فیلڈر اوپر بلائے جاتے جیسا کہ 99 کے ورلڈکپ سیمی فائنل میں لانس کلوزنر اور ایلن ڈونالڈ کا مشہورِ زمانہ رن آؤٹ تھا۔ لیکن زمان نے ایک بے کار سی سلورون کردی وہ بھی پیڈز پر  جسے بڑے آرام سے گیپ میں کھیل کر سری لنکا نے دنیا کی نمبر ایک ٹیم کو ایشیاء کی نمبر ایک ٹیم بننے سے روک دیا۔ بحرحال ایک مثبت بات ضرور اس میچ میں پاکستانی کرکٹ کے تناظر میں رہی کہ اچھی فائیٹ ہوئی۔

       کرکٹ پاکستانی قوم کے لیے ایک واحد تفریح رہ گئی ہے۔ قومی ٹیم کی فتح شائقین کے لیے ایک مسرت کا سامان ہوتی ہے۔ خود اعتمادی ، جدید کرکٹنگ ٹیکنیکس ،دباؤ میں مثبت رہ کر کھیلنا ، سٹرائیک روٹیٹ کرتے رہنا ، سپن باؤلنگ کے شعبے کو مضبوط کرنا،”دوستی فیکٹر ” کے تاثر کو ختم کرتے ہوئے خالصتاً میرٹ پر ٹیم منتخب کرنا اور سب سے بڑھ کر لگی بندگی دفاعی کپتانی کی بجائے ایک اٹیکنگ انوویٹو اور صورتحال کو تیزی سے بھانپتی اور اقدامات اٹھاتی کپتانی ہی سے پاکستانی ٹیم قوم کو یہ خوشی دے سکتی ہے لیکن اسکے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ امر ہے ٹیم ورلڈکپ کھیلنے جائے جیسے باقی ٹیمیں جاتی ہیں نہ کہ “چلے” پر جہاں اسے قدرت کی رضا کے اسرارورموز سمجھنے اور قوم کو سمجھانے ہیں۔

          خدا نے کرکٹ بھی فرشتوں کے ذمے لگانی ہوتی تو لگا سکتا تھا اس لیے آپ خدا کے کرکٹ کے فرشتے نہ بنیں، انسان بنیں۔

فرشتوں سے  بہتر  ہے  انسان  بننا

Advertisements
julia rana solicitors

مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply