غریبِ شہر کا وقت/یاسر جواد

بہت محنت اور توجہ سے لکھا گیا یہ ناول میرے تصورِ ادب سے قطعی مختلف ہے، اور اسلوب کے متعلق میری آرا سے بھی۔ اِس کے مصنف اِس قدر اہم معاصر ادیب ہیں کہ اُن کی ہر تحریر پڑھنا ضروری ہے۔ میں نے اُنھیں کئی ادبی پروگراموں میں بہت مدلّل اور محقق گفتگو کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ وہ انگلش کے علاوہ معاصر اردو ادب سے نہ صرف وسیع واقفیت رکھتے بلکہ زیادہ ہمدردانہ اور رعایتی نظر سے بھی دیکھتے ہیں۔

ناول ’غروبِ شہر کا وقت‘ پر اُنھوں نے غالباً دو سال تک کام کیا۔ مجھے یہ سوانحی ناول لگتا ہے جس میں مصنف کے لاہور شہر میں گزارے ہوئے لڑکپنے اور نوجوانی کے ایام کی قبیح اور حسین یادیں تاش کے پتوں کی طرح اوپر تلے رکھی ہوئی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ پان کے یکے تلے ملکہ آ جائے، یا بادشاہ کے پتے تلے جوکر، مگر زندگی کے پورے 99 پتے موجود ہیں۔ تھوڑی سی تخلیقی رِیڈنگ آپ کو ان میں آسانی سے ربط پیدا کرنے کے قابل بنا دے گی۔ آپ کو بہت کچھ ریلیٹ کرنے کو بھی مل جائے گا۔

یادیں باری باری ایک دوسری کو پیچھے دھکیلتی اور روندتی ہوئی آگے آتی اور خود کو شناخت کرتی ہیں، کسی ذاتی احساسِ زیاں کے بغیر، مگر معاشرتی زیاں سے بھرپور۔ ناول صیغہ واحد متکلم میں ہے، یعنی مرکزی کردار ہی کہانی سنا رہا ہے جو مصنف خود ہے۔ زیادہ تر انداز خود کلامی کا ہے۔ اگر کوئی غروبِ شہر کا وقت کی کہانی بیان کرنا چاہے گا تو مشکل ہو گی۔ مصنف کسی سے کوئی مکالمہ نہیں کرتا، کسی سے تعلق نہیں بناتا۔ وہ سایوں اور پرچھائیوں اور ہیولوں اور سناٹوں کا گرویدہ ہے جس میں بس ایک دو بار ہی کوئی آنچل لہرایا اور بس۔ اُسے ہی محبت کہہ ڈالا۔ ’’میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھے محبت سے زیادہ محبت کے تصور میں دلچسپی ہے۔‘‘ (صفحہ 172)

وہ ان ہیولوں کو حقیقت بنانے کی کوشش کرتا اور ناکام ہوتا ہے۔ کہانی سنانے والا انسانوں سے ایک فاصلے پر ہے۔ اُس کے کردار بھی اُس سے بات کم ہی کرتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی تو قاری کو بھی ایک طرف چھوڑ جاتا ہے۔ ناول کو بیان کرنے والے کردار کا مطالعہ مصنف کی طرح کافی وسیع ہے۔ متعدد جگہوں پر کسی فرانسیسی مصنف، پرتگالی مصنف، کسی گارشیا مارکیز، کیٹس، کافکا وغیرہ کا ذکر ہے، فزکس کی تھیوریز کابیان ہے۔ مرکزی کردار کا مطالعہ یہ عناصر شامل کرنا آسان بنا دیتا ہے جس کے متعلق ہم آخر تک چھدری معلومات ہی حاصل کر پاتے ہیں۔

مصنف بین حقیقتوں کو علامتی روپ بھی دیتا ہے، شاید اُن کا تیکھا پن اور شناخت کند کرنے کے لیے، یا شاید سیاسی لحاظ سے محفوظ رہنے کی خاطر۔ یہاں تک کہ خود بیان کرنے والے کا اپنا وجود بھی ایک ایسے معاشرے کی ’علامت‘ بن کر رہ گیا ہے جسے وہ پانچ سو سے زائد صفحات میں بیان کرنے کا خواہاں ہے۔ اِس بیانیے کو انیس حصوں اور 99 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مصنف سکولوں، کالجوں، گلیوں، محلوں کے غنڈوں اور سفاک انسانوں، وکلاء اور ججوں، اُستادوں اور کھوٹے انسانوں کے بہت سے کامِک پروفائلز کو اِن صفحات میں گوندھتا ہے۔

ناول میں جگہ جگہ انیسویں صدی کی ’کلاسیکی‘ اردو کتب کے اقتباسات (بہت ہی چھوٹے پوائنٹ میں) دیے گئے ہیں: قصہ چہار درویش از میر امن دہلوی، الف لیلہ از پنڈت رتن ناتھ سرشار، سنگھاسن بتیسی از کاظم علی جوان، فسانۂ عجائب از رجب علی بیگ لکھنوی، داستان امیر حمزہ از امان علی لکھنوی، بیتال پچیسی از مظہر علی خان، طلسم ہوش ربا از سید محمد حسین، مذہب عشق از نہال چند لاہوری، توتا کہانی از حیدر بخش۔ ناول آگے بڑھنے کے ساتھ ان اقتباسات میں کمی ہوتی ہے اور اشعار، نظموں وغیرہ میں اضافہ ہو جاتا ہے: مجید امجد، ن م راشد، سلیم الرحمان، طیبہ خالد۔۔۔
ناول چھپتے ساتھ ہی افتخار عارف، مستنصر تارڑ، خواجہ محمد زکریا اور سلیم الرحمان جیسے بڑے نام طباعت کے معیار کی اتنی تعریف کر چکے ہیں کہ اور کوئی کچھ کہے بھی تو کیا۔ متعدد بلیک اینڈ وائٹ تصاویر بھی شامل ہیں۔ بہرحال ناول اتنا خوب صورت چھپا ہے کہ دیگر مصنفین کو بھی بک کارنر سے ہی رجوع کرنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر اِس ناول کو سوانحی ناول شمار کیا جائے تو اِس سال تین آپ بیتیاں چھپ کر مقبول ہوئی ہیں (چند غیر مقبول بھی ہیں): علی اکبر ناطق کی آپ بیتی آباد ہوئے برباد ہوئے، میری آپ بیتی کتاب کہانی اور غروبِ شہر کا وقت۔ تینوں میں ایک بات مشترک ہے: معاشرے پر گزشتہ تیس چالیس سال میں پڑنے والی افتاد جس نے اِس کا تانا بانا اُدھیڑ ڈالا ہے۔ قاری کا کام ہے کہ ان تینوں کو پڑھے اور موازنہ کرے۔ اُسے معاشرہ زمین بوس ہوتا ہوا ملے گا۔
میری طرف سے اسامہ صدیق جیسے سنجیدہ اور محنتی ادیب کو مبارکباد اور نیک تمنائیں۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply