• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سانحہ بلدیہ: منافع کے لیے مقتل بنی کارگاہیں/(سانحہ کا ایک اہم پہلو جسے نظر انداز کر دیا گیا )-تحریر/ناصر منصور

سانحہ بلدیہ: منافع کے لیے مقتل بنی کارگاہیں/(سانحہ کا ایک اہم پہلو جسے نظر انداز کر دیا گیا )-تحریر/ناصر منصور

گیارہ برس پہلے 11 ستمبر 2012 کے دن پاکستان کی تاریخ کے بدترین صنعتی سانحہ میں 260 مزدور جھلس کر جا ں  بحق اور ساٹھ سے زائد مزدور جان بچاتے ہوئے زخمی ہو ئے تھے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سانحہ بلدیہ سیاسی و گروہی مفادات کی نذر ہو گیا جس کی وجہ سے اس واقعہ کے حقیقی ذمہ داران، فیکٹری مالکان  معصوم بنے آزاد گھوم رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سانحہ بلدیہ سے سرمایہ داروں اور حکومت نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نتیجاً صنعتی حادثات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ صحت و سلامتی سے متعلق ملکی و بین الاقوامی معیارات مجرمانہ حد تک نظر انداز کرنے کی وجہ سے کارگاہیں مزدوروں کے لیے مقتل بنی ہوئی ہیں۔ بعض طاقت ور عناصر نے ایک منصوبہ  بندی کے تحت   سانحہ بلدیہ کے  مزدور شہداء کے اصل قاتلوں کو بچانے کے لیے نام نہاد جے آئی ٹی کا سہارا لیا جس کی “فائنڈنگز” حقائق سے کو سوں دور تھیں۔ سارا مقدمہ سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا۔ خود حالیہ عدالتی فیصلہ تضادات کا مجموعہ اور انصاف کا قتل ہے، ثابت ہو گیا کہ طاقت ور کے قانون مکڑی کے جالے  سے بھی نحیف و کم زور ہے۔

مزدور تحریک اور شہداء کے لواحقین پچھلے گیارہ سالوں سے اس امر کی جانب توجہ مبذول کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فیکڑی میں آگ لگی یا لگائی گئی ،سے قطع نظر فیکٹری میں ہونے والی ہلاکتوں کی اہم اور بڑی وجہ باہر نکلنے کے راستوں کا مستقل مسدود ہونا ، کھڑکیوں کا بھاری سلاخوں سے بند کیا جانا، آگ بجھانے کے آلات کا نا کارہ اور مزدوروں کو ان کے استعمال کی ٹریننگ نہ ہونے کے علاوہ، غیر قانونی بلڈنگ اسٹرکچر، فیکٹری کے اندر بوائلز کی موجودگی اور ہر منزل پر ایمرجنسی فائر الارمز کا نہ ہونا شامل تھا۔مزدوروں کی ہلاکتوں کی اہم وجوہات میں مالکان کی مجرمانہ غفلت اور لیبر قوانین کی کھلی خلاف ورزی شامل تھی، جنہیں اب تک مظلوم بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ جھوٹ کے اس گرد و غبار میں سانحہ بلدیہ میں شہید ہونے والے مزدوروں کے لیے حتمی انصاف کے لیے مزدور تحریک کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے سِوا دوسرا کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔

سانحہ بلدیہ سے جڑے معاملات میں جو پہلو مسلسل نظر انداز ہوا، وہ مزدور جہدوجہد کے نتیجے میں حاصل کئی ایک کام یابیاں ہیں جسے اجاگر کرنے سے مزدور تحریک کو نئی توانائی اور قوت میسر آئے  گی اور اس امر کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ منظم اور شعوری جدوجہد کس طرح بارآور ہوسکتی ہے۔ سانحہ میں شہید مزدوروں کے لواحقین اور زندہ بچ جانے والے مزدوروں کی تنظیم بلدیہ متاثرین ایسوسی ایشن ، مزدور تحریک خصوصا ً نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کی ان تھک جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ تمام متاثرہ خاندانوں کو بیس سے پچیس لاکھ روپے معاوضہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سوشل سکیورٹی اور ای او بی آئی سے پنشن کا اجراء ہوا ،جو بذات خود اس بات کا اظہار ہے کہ منظم اور مستقل جدوجہد نتائج پر منتج ہو سکتی ہے۔ اسی جدوجہد کی حاصلات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سندھ کام کی جگہوں کو محفوظ بنانے کے لیے ” ہیلتھ اینڈ سیفٹی ایکٹ ” جیسے اہم قانون منظور ہوا۔

متاثرین کی جدوجہد ملک تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس کے دور رس اثرات یورپ اور دیگر خطوں میں محسوس کیے گئے۔ متاثرہ خاندانوں کی جانب سے سانحہ کا شکار فیکٹری سے مصنوعات تیار کروانے والے جرمن فیشن برانڈ کے خلاف جرمنی کی عدالت میں غیر محفوظ اور غیر انسانی ماحول میں کام کروانے کا مقدمہ دائر کیا گیا۔ بدقسمتی سے جرمنی میں کوئی ایسا قانون ہی موجود نہیں تھا کہ جرمنی سے باہر غیر قانونی عمل میں ملوث کسی جرمن کمپنی کو متاثرہ فریق عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر سکے۔ اسی قانونی ہیچ کی بنا پر پانچ سالہ طویل عدالتی جنگ کے بعد مقدمہ خارج کر دیا گیا ۔

اس صورت حال نےجرمن سماج میں بین الاقوامی برانڈز کے مزدور دشمن  طرز عمل کے خلاف زبردست بحث کا آغاز کیا جس کے نتیجہ میں جرمن برانڈ چھ اعشاریہ ایک ملین ڈالرز متاثرین کو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے لانگ ٹرم کمپنسیشن کنونشن کے تحت ادا کرنے پر مجبور ہوا ،جو کہ پاکستانی کرنسی میں تقریبا ًپونے دو ارب کی رقم بنتی ہے۔ ایک دل چسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ آئی ایل او کے قیام کے سو سال گزرنے کے بعد پہلی مرتبہ کمپنسیشن کے کنونشن کا عملا ً اطلاق ہوا ہے۔

سانحہ بلدیہ کے کئی ایک ذمہ داران میں سے ایک جرمن برانڈ ” KIK” بھی شامل ہے،اس کے خلاف اٹھنے والی بین الاقوامی متحرک آوازوں نے جرمنی کو مجبور کیا کہ وہ ایسی قانون سازی کرے کہ ان بین الاقوامی کمپنیوں کے دنیا کے کسی بھی کونے میں کیے گئے جرائم پر انہیں جواب دہ بنایا جاسکے۔ اسی تناظر میں حال ہی میں جرمنی ، ناروے اور ہالینڈ میں ڈیو ڈیلیجنس کا قانون منظور ہوا ہے۔ جس کے تحت ان ممالک میں مصنوعات فروخت کرنے والی کمپنیوں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں ان کے غیر قانونی و غیر انسانی طرز عمل پر قانون کے سامنے جواب دہ بنایا جا سکے گا۔ ایسی ہی قانون سازی یورپین پارلیمنٹ میں ہونے جا رہی ہے۔ اسی قانون کو استعمال کرتے ہوئے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کئی ایک دیگر ملکی و غیر ملکی تنظیموں کے اشتراک سے پاکستان خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں سیلاب اور بارشوں سے ہونے والی تباہی کو ماحولیاتی بگاڑ کا شاخسانہ سمجھتے ہوئے اس کی ذمہ دار کمپنیوں کے خلاف مقدمہ دائر کرنے جا رہی ہے۔

یہ پاکستان کی مزدور تحریک اور اس کے بین الاقوامی طبقاتی اتحادیوں کی مسلسل کوششوں کا ثمر ہے کہ سانحہ بلدیہ جیسے صنعتی سانحات روکنے کے لیے بنگلہ دیشن کے بعد پاکستان میں بھی کام کی جگہوں کو محفوظ بنانے کے لیے بین الاقوامی مزدور تنظیموں اور نام ور بین الاقوامی فیشن برانڈز کے درمیان ایک دور رس نتائج کا حامل معاہدہ ”پاکستان اکارڈ” کا اطلاق ہونے جا رہا ہے۔ یہ ایسا تاریخی معاہدہ ہے جو معاہدہ کرنے والے برانڈز کے لیے ملبوسات تیار کرنے والی سات سو سے زائد چھوٹی بڑی ٹیکسٹائل گارمنٹس فیکٹریوں پر لاگو ہوگا جس میں سندھ میں قائم تین سو سے زائد فیکٹریاں بھی شامل ہیں ۔ یہ فیکٹریاں اس معاہدہ پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہوں گی جو کام کی جگہوں پر صحت و تحفظ کے انتظامات کو بہتر بنانے میں معاون و مدد گار ثابت ہو گا۔ اس معاہدہ کے تحت پانچ لاکھ سے زائد مزدوروں کی زندگیوں اور صحت کو محفوظ بنایا جا سکے گا ۔ اب تک ستر سے زائد معروف بین الاقوامی برانڈز اس اکارڈ ( معاہدہ ) کا حصہ بن چکے ہیں جو کہ صنعتی ترقی کے لیے خوش آئند عمل ہے۔

بد قسمتی سے کئی ایک بین الاقوامی برانڈز   ابھی تک اس معاہدہ میں شامل نہیں ہوئے لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ جلد یا بدیر یہ بھی اس معاہدہ کا حصہ بننے پر مجبور ہوں گے۔

سانحہ میں شہید ہونے والے مزدوروں کے لواحقین ایک نہایت ہی اہم مسئلہ کے حل کے لئے جدوجہد کا آغاز کیے ہوئے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ بلدیہ متاثرین کے لیے جرمن برانڈ نے چھ اعشاریہ ایک ملین ڈالر کی رقم لانگ ٹرم کمپن شین کی مد میں ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت ادا کئے تھے جس کی انویسٹمنٹ اور اس سے متعلق معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لیے پاکستان میں ایک ”اوور سائٹ کمیٹی ”، تشکیل دی گئی تھی جو لواحقین ، مزدوروں ، حکومت سندھ اور آئی ایل او کے نمائندوں پر مشتمل تھی، بدقسمتی سے آئی ایل او نے لواحقین اور مزدور نمائندوں کو اعتماد میں لئے بغیر جرمن برانڈ کی فراہم کردہ خطیر رقم ایک مخصوص انشورنس کمپنی میں انویسٹ کر دی ہے۔ جس کے بارے میں نہ تو بتایا جا رہا ہے کہ کتنی رقم انشورنس کمپنی کو ادا کی گئی ہے ۔اور نہ ہی لواحقین اور مزدور نمائندوں کے بار بار مطالبہ کے باوجود آئی ایل او آفس انشورنس کمپنی سے کیے گئے معاہدہ کی دستاویز فراہم کر رہا ہے ۔ آئی ایل او نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اوور سائیٹ کمیٹی بھی ختم کر دی ہے جس کی وجہ سے متاثرین اپنے مسائل کے حل کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ جبکہ کراچی میں آئی ایل او کی ایک نمائندہ سندھ سوشل سیکورٹی انسٹیٹیوٹ کے ایک اہل کار کے ساتھ مل کر متاثرہ خاندانوں کو مسلسل خوف زدہ کر رہی ہے۔ متاثرین کو گروپ انشورنس اور گریجویٹی کی مد میں ملنے والی رقم گیارہ سال گزرنے کے باوجود فیکٹری مالکان نے ابھی تک ادا نہیں کی   ہے ۔ مالکان نے نہ صرف غیر قانونی طور پر متاثرہ فیکٹری کو مسمار کر دیا ہے بلکہ فروخت بھی کر دیا  ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس سانحہ سے سبق سیکھتے ہوئے ریاست اور سرمایہ داروں نے کارگاہوں کو محفوظ اور کام کے قابل بنانے کی بجائے اپنی مزدور دشمن روش کو جاری رکھا ہوا ہے اور بد قسمتی سے سماج کے متحرک سیاسی ، سماجی اور دانش ور حلقوں نے بھی سانحہ کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی بجائے ریاست کے پھیلانے نقطہ نظر کو ہی درست تسلیم کرتے ہوئے کروڑوں محنت کشوں کے لیے مقتل بنی کارگاہوں میں جاری مزدور کشی پر مایوس کن رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ سانحہ بلدیہ ان سنجیدہ اقدامات کا متقاضی ہے کہ فیکٹریوں کارگاہوں میں صحت و سلامتی کے اقدامات کو یقینی بنایا جائے، سندھ پیشہ ورانہ صحت اور حفاظت ایکٹ کو فی الفور لاگو کیا جائے، سانحہ بلدیہ کی ازسر نو تحقیقات کا آغاز کیا جائے اور اس سانحہ کے اصل ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے، حکومت، مالکان ‘‘پاکستان اکارڈ ” جیسے مزدور دوست معاہدہ پر عمل درآمد میں معاون و مددگار بن کر کروڑوں محنت کشوں کی زندگیوں کو کام کے دوران محفوظ بنانے کی جانب پیش قدمی کریں ، فیکٹریوں کارخانوں میں لیبر قوانین کے اطلاق سے ہی سانحہ بلدیہ جیسے واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply