خودکشی کی قیمت/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

“سر جی، یہ لوگ خودکشی کیسے کر لیتے ہیں؟”
وہ آج تین دن بعد آفس آیا تھا اور اپنے خیالوں میں کھویا مجھ سے پوچھ رہا تھا۔

” مرنا تو آسان نہیں ہوتا۔ یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ انسان خود تو نجات پا جاتا ہے لیکن پیچھے رہ جانے والوں پہ کیسی کیسی مصیبتیں لاد دیتا ہے۔ سر جی کسی غریب کے لیے تو موت کا دکھ منانا بھی ممکن نہیں ہوتا کہ موت کے اخراجات منہ کھولے کھڑے ہوتے ہیں”

اس نے تین دن پہلے اپنے بڑے بھائی کی لاش قبر میں اتاری تھی اور آج تین دن بعد ہی کام پہ آ گیا تھا۔ میں نے پوچھا کہ اتنی جلدی کیوں آ گئے کام پہ تو بولا
میں نے سوچا کام پہ آ کر دھیان بٹ جائے گا”
لیکن پھر شائد جھوٹ بولنا مشکل لگا تو آہستہ سے بولا “ویسے بھی کام سے چھٹی کروں گا تو نظام کیسے چلے گا”

“سر جی وہ قبرستان میں قبر کے لیے جگہ ہی نہیں دے رہے تھے۔ اٹھائیس ہزار روپے مانگ رہے تھے ، میں اٹھائیس ہزار کہاں سے لاتا۔ میں نے مانگ تانگ کر پچیس ہزار اکٹھے کر کے دیے تب قبر کے لیے جگہ ملی۔ قبر میں پانچ سو اینٹ بھی لگ گئی۔ ایک اینٹ پندرہ روپے کی ہو گئی  ہے ، پہلے تو صرف چھ روپے کی ہوتی تھی۔” اس کے لہجے میں تکلیف ہی تکلیف تھی۔

اس کا بھائی پچھلے مہینے بھر سے گردوں کے شدید عارضے میں مبتلا تھا۔ غریب انسان کہاں سے بہتر علاج کرواتا۔ پہلے علاج سے بھاگتا رہا اور جب مجبور ہو کر علاج کی طرف آیا تو بیماری علاج شروع کروانے سے پہلے ہی اتنی بگڑ چکی تھی کہ اب اس کا علاج گردے کے ٹرانسپلانٹ کے علاوہ کچھ نہیں رہا تھا۔ وہ بیچارے مزدوری کر کے روزی روٹی کمانے والے کہاں سے گردے کا ٹرانسپلانٹ کرواتے۔

ہم سب نے اس کے بھائی کے علاج کے لیے مقدور بھر مدد کرنے کی کوشش کی کہ ہم یہی کر سکتے تھے۔ لیکن اس کا بھائی بچ نہیں سکا اور تین دن پہلے ہسپتال میں ایڑیاں رگڑتا ہوا فوت ہو گیا۔

“سر جی بھائی بہت تکلیف میں تھا، پھیپھڑوں میں پانی بھر گیا ہوا تھا۔ اسے سانس نہیں آ رہا تھا، پاؤں اٹھا اٹھا کر بیڈ پہ مار رہا تھا۔ میں گیا تو مجھے بولا پیکٹ والی آکسیجن لے آؤ، مجھے سانس نہیں آ رہی۔ میں لے آیا تو اسے کچھ سکون ملا لیکن کچھ دیر بعد پھر وہی حالت ہو گئی۔ مجھ سے اس کی تکلیف دیکھی نہیں جا رہی تھی، میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں کچھ بھی کر کے اس کی تکلیف کم کر دوں لیکن میں کچھ نہیں کر پایا۔

ڈاکٹرز نے اس کے منہ میں نالی لگا کر اسے وینٹیلیٹر پہ ڈال دیا لیکن اسے سکون نہیں آیا۔ وہ میرے سامنے پڑا تڑپ رہا تھا اور میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اور پھر اس نے تڑپتے تڑپتے جان دے دی۔ سر جی کچھ دیر کے لیے تو ہر شے ساکت ہو گئی تھی۔ وہ میرا بڑا بھائی تھا، سارا بچپن، ساری عمر تو اسی کے ساتھ جی تھی۔ اس کے بغیر تو جینے کا کبھی تصور ہی نہیں کیا تھا”

وہ میرے پاس بیٹھا اپنے خیالوں میں مگن بولے جا رہا تھا اور میں بس چپ کر کے سنتا جا رہا تھا۔
” سر جی امی کی حالت نہیں بہتر ہو رہی۔ ان سے بڑی اولاد کا دکھ برداشت ہی نہیں ہو رہا۔ میرا دل نہیں تھا کہ میں انھیں چھوڑ کر آفس آؤں لیکن آ گیا۔ بھائی کے دو بیٹے ہیں ایک پانچ سال کا ہے، دوسرا سات سال کا ، ان دونوں کا پتا نہیں کیا بنے گا”

“غریب بندے کے لیے تو مرنا بڑا مشکل ہوتا ہے، پھر یہ جو لوگ غربت سے تنگ آ کر خودکشی کر لیتے ہیں ، وہ کیسے کر لیتے ہیں۔ انھیں نہیں پتا ہوتا کہ پیچھے رہ جانے والوں پہ کیا گزرے گی۔ سر جی اتنی تو میری تنخواہ نہیں جتنے پیسے قبر والوں نے لے لیے۔ جو جمع پونجی تھی وہ تو پہلے ہی بھائی کے علاج پہ لگا دیے تھے۔ اور ایمبولینس والے میت گھر لے کر جانے کے دو ہزار مانگ رہے تھے حالانکہ گھر تو ہسپتال کے بالکل پاس ہی تھا۔ میں تو 1122 والوں کی بھی منتیں کرتا رہا کہ شائد وہی مفت میں چھوڑ آئیں لیکن انھوں نے کہا کہ ہم ایمبولینس پہ صرف ایکسیڈنٹ وغیرہ کے مریض لے کر آتے ہیں۔ سر جی کوئی ایمبولینس دو ہزار سے کم پہ مان ہی نہیں رہی تھی۔”

Advertisements
julia rana solicitors

“بھائی چلا گیا ہے، امی صدمے سے نکل ہی نہیں رہیں۔ بھائی کی بیوہ عدت میں ہیں۔ بھائی کے بچے تو بس سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہوا کیا ہے۔ بڑے والا میت کو دیکھ کر اتنا شدید رو رہا تھا کہ اسے دیکھ دیکھ کر میرے دل کو کچھ ہونے لگ گیا تھا۔ میں بھائی کا سوگ کیسے مناؤں سر جی ، میری تو ذمہ داریاں ہی کم نہیں ہو رہیں۔ کام پہ آئے بغیر میرا کیسے گزارا ہو گا”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply