کمیونزم پر چھوٹا سا سوال/اعتراض/سجیل کاظمی

کمیونزم پاکستان میں ایک انتہائی مقبول نظریہ ہے اور اس کی سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت سب ہی اچھی طرح واقف ہیں، لیکن شاید کچھ ہی افراد یہ بات جانتے ہوں کہ اس میں وہ کس اخلاقی حق سے دوسرے کی فیکٹری یا دیگر ذرائع پیداوار پر قبضے کو درست سمجھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

 

اس سوال کا جواب ہے “استحصال”……… کمیونسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دار مسلسل مزدور کا استحصال کرتا ہے جس سے وہ دولت کماتا ہے۔ اسی کو وہ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا مسئلہ اور برائی سمجھتے ہیں۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ استحصال ہوتا کیسے ہے؟
اس کے لیے ہمیں مارکس کے “نظریہِ استحصال” کو سمجھنا ہوگا جو کہ پھر آگے ایک اور نظریہ پر منحصر ہے جسے ہم “Labour Theory Of Value” کے نام سے جانتے ہیں جس کی میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا، یہ نظریہ بس یہ کہتا ہے کہ کسی بھی چیز کی قیمت اس پر ہونے والی مزدوری/محنت سے طے ہوتی ہے یعنی یہ مزدور کی محنت ہے جو چیز کی قیمت کو بڑھاتا ہے، مثال کے طور پر آپ کے آپ کے پاس لکڑی کے ٹکڑے تھے، انھیں محنت سے میز اور کرسی بنایا، لکڑی کے ٹکڑے کے مقابلے میں میز اور کرسی کی قیمت زیادہ ہوگی تو مارکس کے مطابق جو لکڑی کی قیمت اور میز کرسی کی قیمت میں فرق ہے جسے وہ “سرپلس ویلیو” کہتے ہیں وہ مزدور کا حق ہے کیونکہ یہ قدر کا اضافہ مزدور کی محنت سے ہوا ہے تو مارکس کے مطابق سرمایہ دار وہ سرپلس ویلیو مزدور سے چھین لیتا ہے اور چیز کو بیچ کر خود منافع کماتا ہے جبکہ مزدور کے ہاتھ اس کی محنت کی قیمت کے عوض بہت ہی کم تنخواہ آتی ہے۔ جو کہ اس کا استحصال ہے۔
لیکن کیا یہ “نظریہِ استحصال” بہت ٹھوس بنیادوں پر کھڑا ہے؟ پہلی نظر میں دیکھنے پر ایسا لگے لیکن اگر ہم تھوڑا سا بھی مشاہدہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ اتنا بھی مضبوط نہیں، اگر ہم غور کریں تو کیا واقعی قیمت مزدور کی محنت سے طے ہوتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا کسی لکڑی کے ٹکڑے پر اگر زیادہ محنت کی جائے تو کیا وہ سونے سے زیادہ قیمت ہوسکتی ہے؟ اگر محنت ہی وہ چیز ہے تو پھر تو ضرور ہونی چاہیئے لیکن ہم سب یہاں تک کہ خود مارکسسٹ بھی جانتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں……. کیوں؟ کیونکہ سونے کی اپنی ایک قدر ہوتی ہے جو لکڑی چاہے اس پر جتنی محنت کرلی جائے حاصل نہیں کرسکتی تو پھر سونے کی یہ قدر کہاں سے آتی ہے؟ شاید آپ لوگوں نے اب تک سمجھ ہی لیا ہو کہ اس کی قیمت اس کی مانگ کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح اگر ایک کرسی میز ہے لیکن انھیں کوئی خریدتا نہیں کیا ان کی کوئی قیمت نہیں ہوگی شاید کسی خیالی وقت میں جہاں کرسی میز بالکل کسی کام کا نہیں وہاں اس کی قیمت اتنی کم ہوجائے کہ اسے مفت میں دینے کے برابر ہی بات ہوجائے تو تب بھی تو اس پر محنت ہوئی ہوگی تو پھر اس محنت کا کیا ہوگا؟ اس بات سے واضح ہوجانا چاہیئے کہ چیز کی قیمت کا تعین کبھی بھی اس پر ہوئی محنت سے نہیں بلکہ اس کی “طلب اور رسد” کے حساب سے ہوتا ہے۔
اب ہم ذرا نظریہِ استحصال پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جس چیز پر مزدور محنت کر رہا ہے اس کی تو قیمت کا تعین ابھی ہوا ہی نہیں……. کیونکہ جب وہ مارکیٹ میں آئے گی تو ہی تو پتہ چلے گا کہ اس کی کتنی طلب ہے اسی سے اس کی قیمت کا تعین ہوگا، جب ابھی قیمت کا تعین ہی نہیں ہوا پھر بھی مزدور اپنی محنت کی قیمت لیتا ہے اسے یہ قیمت کا تعین ہونے سے پہلے ہی ادا کردی جاتی ہے۔ کیا اگر کوئی پراڈکٹ مارکیٹ میں کامیاب نہ ہو تو مزدور سے وہ رقم واپس لیں گے یا کوئی مزدور اسے واپس کرے گا؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اگر کسی چیز کی قیمت بڑھ جائے تو بھی مزدور کی پہلے سے طے شدہ تنخواہ کو بڑھانے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ وہ پہلے ہی اپنی محنت کی قیمت لے رہا ہوتا ہے یہ بھی ممکن ہے کے مارکیٹ میں اس کی قیمت لگے ہی نہ لیکن سرمایہ دار خطرہ مول لیتا ہے اسی لیے اسے منافع کمانے کا بھی حق ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لیبر تھیوری آف ویلیو کا کمزور ثابت ہونا کیا کیا آگے دکھاتا ہے۔ اگر یہ غلط ہے تو پھر سرپلس ویلیو جیسی کوئی نہیں، جب سرپلس ویلیو جیسی کوئی چیز نہیں تو استحصال والی دلیل ٹوٹ جاتی ہے اور اگر استحصال نہیں ہورہا تو مارکسیوں کا سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سب سے بڑی دلیل ماند پڑ جاتی ہے اور اسے ظالم نظام ثابت کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ اب کچھ مارکسسٹ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ہم کہتے ہیں کہ محنت سے قیمت طے ہونی چاہیئے نہ کہ ہوتی تو ان سے میرا یہی سوال ہے کہ پھر استحصال کیسے ہوتا ہے؟ کہیں ایسا تو کہ سرمایہ دارانہ نظام پر سب سے بڑا اعتراض مارکس کا اپنا ذہنی اختراع ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply