موشگافیاں/کتاب کا ریویو۔۔عامر کاکازئی

مصنف : احمد نعیم ہاشمی
صنف : طنز و مزاح /خاکہ نگاری
قیمت: 450
پبلشر: جہاں بخت پبلی کیشنز ، ملتان
رابطہ نمبر: 374-5346-0312
محترم احمد نعیم ہاشمی صاحب، جن کا تعلق ملتان کے ایک روحانی علمی ادبی اور سیاسی خاندان سے ہے۔ان کے جد امجد جناب مخدوم عبدالرشید حقانی صاحب اپنے وقت کے درویش صفت قلندر اور بہت بڑے معلم تھے، جن کا زکر ابنِ بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں بھی کیا ہے۔ عبدلرشید صاحب جناب بہاءوالدین زکریا ملتانی کے عم زاد اور برادرِ نسبتی تھے ۔ ان کے والد صاحب، مخدوم مبارک شاہ ہاشمی بھی ملتان کی ادبی فضاء کے سرخیل رہے ہیں، وہ قادر الکلام اور درویش صفت شاعر تھے۔ نعیم صاحب ملتان کے مشہور سیاسی لیڈر مخدوم جاوید ہاشمی کے بھتیجے ہیں۔ جو کہ سیاست کے میدان کے ساتھ ساتھ ایک اعلئ پاۓ کے مصنف بھی ہیں، جن کی تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، ہاں میں باغی ہوں، زندہ تاریخ اور تختہ دار کے سائے تلے ۔ اب وہ چوتھی لکھنے پر لگے ہوئے ہیں، موضوع جسکا جمہوریت اور گذری دو دہائیاں  ،ہے۔
اب جن کا تعلق ملتان کے ایک روحانی، علمی، ادبی اور سیاسی خاندان سے ہو تو ان سے آپ ایک بہترین کتاب کی ہی توقع کر سکتے ہیں۔ اپ اس ادبی اور علمی خاندان کی میراث کے تن تنہا وارث ہیں۔ موشگافیاں ان کی پہلی تصنیف ہے۔
کسی بھی کتاب پر پہلی نظر اس کے سرورق پر پڑتی ہے، موشگافیاں کا سرورق نہ صرف بہترین بلکہ ایک خوبصورت عنوان کے ساتھ ہے۔ کتاب کا نام پڑھ کر ہی سمجھ ا جاتی ہے کہ کتاب کی صنف طنز و مزاح ہے۔
کسی بھی کتاب کا پہلا صفحہ اُلٹتے ہی جس چیز پر نظر پڑتی ہے وہ “انتساب” ہے، جو کہ ہرمصنف کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا جُز ہے، جو مصنف ایک جملے میں اس شخصیت کے بارے میں بیان کرتا ہے جس سے اس کا جذباتی اور محبت کا تعلق ہوتا ہے۔ یہ کتاب نعیم صاحب نے اپنے والد محترم کے نام ان الفاظ کے ساتھ منسوب کیا۔ “جن کی ادبی میراث کے موتی موتی کو میں نے اپنی پلکوں پہ پرو دیا ہے”
یہ کتاب تقریباً اکیس خاکوں پرمشتمل ہے۔ جس کے 160 صفحات ہیں۔ خاکے لکھنے کے لیے کسی خاص موضوع کی ضرورت نہیں ہے مگر اردو ادب میں زیادہ تر خاکے ایسی شخصیتوں پر لکھے گئے ، جن کا فنون لطیفہ میں کوئی نام تھا۔ ڈاکٹر خلیق انجم خاکہ نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
” خاکہ کا فن بہت مشکل اور کٹھن فن ہے، اسے اگر نثر میں غزل کا فن کہا جاۓ تو غلط نہ ہو گا۔ جس طرح غزل میں طویل مطالب بیان کرنے پڑتے ہیں، ٹھیک اسی طرح خاکے میں مختصر الفاظ میں پوری شخصیت پر روشنی ڈالنی پڑتی ہے۔”
یہ کتاب اس لحاظ سے مختلف اور دلچسپ ہے کہ نعیم صاحب نے بجاۓ کسی ایک مشہور شخصیت کا انتخاب کرتے، انہوں نے عام چیزوں اور بندوں کا چناؤ کیا، یہ سب سے مشکل کام ہے کہ ایک عام بندے یا چیز پر کوئی خاکہ تحریر کرنا۔ جیسے کہ شوہر، بیوی، سگرٹ نوش، گونگا، کاغذ، وغیرہ اور حتی کہ انہوں نے اپنے اپ کو بھی نا چھوڑا اور بے نامی کے عنوان سے اپنے اوپر خاکہ لکھ ڈالا۔
ہر خاکہ سے پہلے اس کے بارے میں ایک جملہ میں تعارف بیان کرتے ہیں۔ کچھ خاکوں کا تعارف کچھ اس طرح بیان کیا۔
“شادی کے بعد دل سے مسکرانے کے لیے دل ہی نہیں، گُردہ بھی چاہیے ہوتا ہے”
“چار چیزیں ایسی ہیں جو کبھی سکون سے ٹکنے نہیں دیتی۔ عشق، دانت درد ، خارش اور الہڑ پڑوسن۔
” رقص اگر اعضاءکی شاعری ہے، تو پنجابی بھنگڑے کو پورا دیوان جانیں۔
“ایک کان سے سُن کر دوسرے سے نکال دینے کی سہولت صرف حضرت انسان کو حاصل ہے۔”
“عام ادمی آم چوستا ہے، مچھر (سیاست دان) خون ادم چوستا ہے۔جج سیاست دان کو چوستا ہے، جرنل سبھی کچھ چوس جاتا ہے، اور بالاخر جرنل کو پھر آم چوستا ہے۔
ڈینٹسٹ کلنک ایسی جگہ ہے ، جہاں دکھائی بتیسی جاتی ہے، نکلتی چیخیں ہیں۔
کسی کو بے کار کرنا ہو تو، اُسے پاکستان کا صدر بنوا دو۔
ایک خصلتی خاوند کا خاکہ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ: بیوی بھلے جتنے پیار و التفات کا مظاہرہ کرلے، خاوند کی نگاہ التفات بیوی ہوتی ہے، کسی دوسرے کی۔
شوہر جب تک منگیتر ہوتا ہے، آگے پیچھے پھرتا ہے، جب شوہر ہو چکتا ہے، خبر نہیں کہاں کہاں پھرتا ہے۔
ایک بیوی کا خاکہ کچھ اس طرح بیان ہوا کہ : بیوی بھی کیا عجب ہے، جب نہ ہو سکوں نہیں ہوتا! جب ہو، تب بھی نہیں ہوتا!!
خوشیوں میں مگن ہنستا مُسکراتا دولہا اور پھر ہنسیوں قہقوں کو ترستا مفلوک حال شوہر، ترقی سے تنزلی کا ایسا سفر کی واحد وجہ بیوی ہے۔
بیوی ایسی مخلوق ہے، جس کو اپناتا ہر کوئی ہے، چاہتا کوئی کوئی ہے۔
محبوبہ کو بیوی بنانے کو بہت دل کرتا ہے، بیوی کو محبوبہ بنانے کو ۔ذرا بھی نہیں۔
کالی مرچیں کے نام سے ایک مضمون ہے، جس میں مختصر مختصر جملے ہیں، ہر جملہ پُر اختصار ، مدلل اور اپنے اندر ایک مکمل کہانی لیے ہوۓ ہے، مثلاً :
قینچی اور زبان اگر رُک رُک کر چلیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ خواتین کے زیر استعمال نہیں ہیں۔
پاکستان تو پاکستان، چین کو بھی پاکستان کے گدھے عزیز ہیں۔
اللہ رے، گوجرانوالہ کے چڑے تو چڑے ، چڑیاں بھی طاقت آور ہیں۔
بسکٹ ، ببل گم اور بیوی ۔۔۔بچوں کو بہلانے کے بہترین بہانے ہیں۔
بارش کا اور بیڈ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
جو لوگ دوسری شادی کی آس میں جیتے ہیں، دراصل مرتے ہیں، نہ جیتے ہیں۔
جسے ریٹائرمنٹ پر اراضی و مربے ملیں جنرل ہوتا ہے، ۔۔۔فوجی کو تسلیاں ملتی ہیں۔
اپریل ۴ کے دن بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی۔ —-اسی روز ہی بھٹو زندہ ہوا تھا۔
ملک پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ بلو رہا ہو جاتا ، ببلو مظلوم ہو جاتا ہے، اور پپو پاس ہو جاتا ہے۔
آخری خاکہ بےنامی کے نام سے نعیم صاحب نے اپنے لیے لکھا۔ لکھتے ہیں کہ جب پیدا ہوۓ، تو اماں ابا کے ہاں دو ہیرے پہلے آچکے تھے، ہماری پیدائش کے بعد جنم کار نے ان کے آنگن میں دو اور بھی ڈال دیے۔ وزن اتنا کم ہے کہ بندہ گھر سے نکلے تو ملنے والا پوچھتا ہے کہ اپ کو بھوک نہیں لگتی؟ ہوادار موسم میں، بیگم کچھ پتھر جیب میں ڈال دیتی ہے کہ اِدھر اُدھر لُڑھکتا نہ پھرے۔
عامر خان نے ایک بار انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ اگر شاہ رخ خان بولی وڈ کے کنگ ہیں تو ہم اِکّا ہیں، ٹھیک اسی طرح ہم نے علی سجاد شاہ کو one liner king کا خطاب دیا تھا، تو احمد نعیم ہاشمی آج کے دور کےون لائنر کے اِکّا ہیں۔ جن کے پُر مزاح اور طنزیہ جملوں کا مقابل کوئی نہیں۔ دور حاضر کے انور مقصود اگر کہیں تو غلط نہ ہو گا۔
اختتامیہ میں یہ کہنا چاہیں گے کہ نعیم صاحب پر ان کے بزرگوں کا روحانی فیض ہے کہ انہوں نے ہنسانے کو بھی بے مقصد طریق سے متعارف نہیں کروایا بلکہ کوشش کی کہ کسی طور ہنسی بھی پھیلے اور سوچ بھی ۔ لطیفہ قہقہہ لاتا ہے، قہقہہ آسودگی اور اگر ساتھ میں خیال آفرینی بھی مل جائے یعنی قہقہہ یا ہنسی کچھ سوچنے پر بھی مجبور کر دے تو اس سے بڑھ کر مصنف کے لیے رب کا اور کیا انعام ہو سکتا ہے؟

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply