انڈینز کا گھٹیا پن/یاسر جواد

یقین مانیں، انڈینز بھی ہم جتنے ہی گھٹیا، چول، جذباتی اور ہم سے زیادہ مذہبی ہیں۔ میں صرف ایک بار ہی دہلی گیا ہوں اور پہلے ہی دن ایک کوٹھے سے بمشکل بچنے اور اپنے پبلشر دوستوں کو بچ نکلنے میں مدد دینے کے بعد وہاں مشاہدہ اور تجربہ کرنے کے لیے چار پانچ دن تھے۔
مجھے وید اور اُپنشد چاہیے تھے۔ ساری نمائش میں 95 فیصد سٹال انگریزی کتب کے تھے، کوئی 5 فیصد ہندی کتب کے۔ کہیں سے بھی وید نہ مل سکے۔ انجام کار بڑی کوشش کے بعد ایک نہایت کٹر ہندو تنظیم کے سٹال سے دیانند سرسوتی کی تفسیر والے دو وید سام وید اور یجر وید شدھ ہندی میں مل گئے۔ گورمکھی پنجابی کے ایک سٹال سے امرتا کی کتاب خریدنا چاہی مگر ملازم ہی غائب تھی۔ انتظار کے بعد آئی تو اُسے رسید بک ڈھونڈنے اور بقایا دینے میں اتنی مشکل پیش آئی کہ کتاب خریدنے پر ندامت ہونے لگی۔
دہلی میں جگہ جگہ مورتیوں کی ورکشاپیں نظر آتی تھیں، جہاں بھگوان گرائنڈروں اور مشینوں سے بن رہے تھے۔ گائے سڑک کے درمیان کھڑی ہو جاتی، یا کچرے میں بیٹھی ہوئی، کوئی اُسے روٹی ڈال رہا ہوتا اور کوئی پرنام کر رہا ہوتا۔ تقریباً ہر رکشے میں رام سیتا اور ہنومان کی گھٹیا پرنٹنگ والی تصاویر ہینڈل کے آگے سجی ہوتیں۔ سڑکوں پر فروخت ہونے والے زیادہ تر پھل ناریل اور کیلے ہی تھے۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ مندروں میں ہنومان کو یہی بھینٹ چڑھائے جاتے ہیں۔
ایک دو بار کسی مندر کے اندر جانے کا دل کیا۔ مگر وہاں اِس قدر غربت زدہ لوگوں کا ہجوم تھا کہ ہمت نہ کی۔ ایک مندر کے باہر رکھے بڑے بڑے لاؤڈ سپیکروں پر کوئی فلمی بھجن بج رہا تھا۔ شہر میں انڈر گراؤنڈ ریلوے کی کھدائی شروع ہو چکی تھی۔ غالباً چاندنی چوک کے قریب چمگادڑوں جیسے لنگوٹی پوش سائیکل رکشہ والے گاہک کے انتظار میں سائیکل پر ہی سوئے ہوئے ملتے۔ بس ایک لال قلعہ ’’اپنا اپنا‘‘ لگا۔ شاید لاہور کی عمارات جیسا ہونے کے باعث۔
بڑی مسجد کے آس پاس بڑا گوشت اندرون لاہور شہر کے قصائیوں والے انداز میں لٹکا ہوتا، اور قریبی گلیوں میں ہی مسلمان پبلشروں کی دکانیں تھیں۔ ہمیں دوسرے تیسرے دن یاد آیا کہ حلال اور حرام سالن کا تو کہیں سے پوچھا ہی نہیں۔ میرے ایک پبلشر دوست (جسے زیابیطس تھی) کو اُن کی مٹھائی کی دُکانیں بار بار روک لیتیں۔
روزانہ ہوٹل کے کمرے سے نیچے ریسپشن پر آتے تو ہوٹل مینیجر پوجا کے مختلف مراحل میں ہوتا۔ آخری روز ہمیں دس پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑا۔ مینیجر یا ریسپشنسٹ نے سٹیل کے ڈبے میں سے دیسی گھی کا پوا لیا، آرتی اُتارنے والے تھال میں ڈالا، اگربتیاں جلائیں، دھونی دی، مراحل مکمل کیے، ماتھا نیوایا اور پھر ہماری بات سنی۔
دہلی میں جگہ جگہ پیشاب کے جوہڑ خاصے کی چیز تھے۔ یہ دراصل خراب یا نان فنکشنل لیویٹریز کا نتیجہ تھے۔ گھٹیا زبان بولنے اور کمزور جسموں والے لوگ جوہڑ نما پیشاب گھر کے کنارے پر ہی کھڑے ہو کر دھار مارتے دکھائی دیتے۔
کوئی دلکش پیکر دکھائی دیتا تو ہم جلدی جلدی آگے بڑھتے اور مڑ کر چہرہ دیکھتے تو احساس ہوتا کہ غلط کیا۔ اِس سے اچھا تھا کہ نہ ہی دیکھتے۔ پرگتی میدان کے انڈر گراؤنڈ بازار میں کچھ ایک اچھے چہرے دکھائی دیے اور بس۔ وہاں بھی دکان دار ریٹ کم کرنے کے لیے پہلے کشمیر ہم سے لیا۔
کبھی کبھی لگتا ہے کہ اگر ہماری ریاست جان بوجھ کر ’ب‘ پنگا نہ لیتی تو شاید ہم اُن سے بہتر نکلتے۔ ویسے مجھے اندازہ نہیں کہ دورۂ ہندوستان کے متعلق اتنا کچھ یاد ہے۔ بس ویسے ہی یہ ویڈیو دیکھ کر سب ریفریش ہو گیا۔
(اپنے ملک پر تنقید کرنے کی وجہ اِسے کمتر ثابت کرنا نہیں، بلکہ یہ اعتراض کرنا ہوتا ہے کہ اِسے کمتر اور گھٹیاں کیوں بنا دیا گیا)

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply