• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مغربی ممالک میں آباد پاکستانیوں کے لیے لمحہ فکریہ۔۔۔طاہر انعام شیخ

مغربی ممالک میں آباد پاکستانیوں کے لیے لمحہ فکریہ۔۔۔طاہر انعام شیخ

شفیلڈ میں ایک پاکستانی کی وفات کے بعد اس کی تجہیز و تکفین کے وقت جو افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی، مرحوم کے لواحقین نے میت کی اسلامی طریقے سے تدفین کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ کئی دیگر مذاہب کے لوگوں کی طرح میت کو جلا دیا جائے۔ اس سےمجموعی طور پر پاکستانی کمیونٹی کے افراد کو سخت دھچکا لگا جو ہمیں مستقبل کے نادیدہ خطرات کا اشارہ دیتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ کمیونٹی لیڈروں اور خاندان ہی کے ایک فرد کے تعاون سے بالآخر میت کو دفن کردیا گیا لیکن یہ واقعہ ہماری آنکھوں سے بہت سے پردے ہٹاتے ہوئے کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔ غربت کے مارے ہم لوگ 1950/60کی دہائی میں جب اس ملک میں محنت و مزدوری کی غرض سے آئے تو اکثر کے ذہن میں یہی تھا کہ چند سالوں میں دس سے بیس ہزار روپے جمع کرکے واپس اپنے ملک جاکر عزت و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں گے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ صورتحال کچھ ایسے تبدیل ہوتی رہی کہ ہم تو کمبل کو چھوڑتے تھے لیکن کمبل ہمیں نہیں چھوڑ رہا تھا، آبائی ملک کی خراب صورتحال، یہاں دولت کی کشش، تعلیم و صحت، مستقبل کے تحفظ کے نظام اور سوشل سیکورٹی وغیرہ نے ہم کو کچھ ایسا جکڑا کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی صورتحال پیدا ہوگئی، اگر چند لوگوں نے پاکستان جاکر کاروبار کرنے کی کوشش بھی کی توچندہی سال میں سب کچھ گنوا کر دوبارہ اسی ملک میں واپس آگئے۔

یہاں پر پیدا ہونے والے ہمارے بچوں کا اصلی وطن تو اب یہی تھا ان کو پاکستان سے بہت کم دلچسپی تھی۔ پاکستان سے محبت تو ہم لوگوں کو تھی جن کا بچپن اور نوجوانی وہاں پر گزری تھی اور اس ملک کے گندےگلی کوچوں سے بھی ہمیں بے پناہ پیار تھا، نئی نسل کی تو تمام تر جذباتی وابستگی بھی اپنے نئے ملک سے تھی، پرانی نسل نے یہاں آکر اپنی غربت تو یقیناً دور کرلی بلکہ پاکستان میں بھی اپنے خاندان، رشتہ داروں اور دوستوں تک کی بھی بہت مدد کی لیکن بدقسمتی سے ہم اپنی ترجیحات کا صحیح تعین نہ کرسکے، دولت کے حصول اور بچوں کی تربیت کے درمیان توازن قائم نہ رکھ سکے، ہماری تمام تر توانائیاں دن رات ٹیکسی چلانے، ٹیک اوے، دکانوں اور کارخانوں میں کام کرنے میں صَرف ہوگئیں اور دولت کے اندھا دھند حصول میں اپنے بیوی بچوں کو وقت نہ دے سکے، نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری اصل دولت ہمارے بچے جن کے لئے ہم یہ سب جتن کررہے تھے ہمارے نہ رہے، بچوں کے سلسلہ میں جہاں دو باتیں اشد ضروری تھیں ایک تو یہ کہ وہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، سائنسدان یا کوئی دوسرا باعزت پیشہ اختیار کریں تاکہ مستقبل میں آرام دہ زندگی بسر کرسکیں اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے دین و ثقافت سے رشتہ برقرار رکھیں بے شمار واقعات میں ایسا ہوا کہ ایک بہتر پیشہ اختیار کرکے وہ دنیاوی طور پر تو ایک کامیاب انسانی تو بن گئے لیکن مغربی ماحول کا ان پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ وہ والدین جنہوں نے اپنی شب و روز محنت سے اس مقام پر پہنچنے میں مدد دی تھی ان سے بچوں کا رشتہ کٹ گیا اور وہ گوروں کی طرح صرف عید یا کسی خاص موقع پر ان سے ملاقات کو آنے لگے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے بڑھاپے میں آپ کا سہارا بنیں تو آپ چاہے خود کتنے بھی لادین اور ماڈرن کیوں نہ ہوں اس ملک میں اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم ضروری دلائیں تاکہ ان کو پتہ ہوکہ اسلام میں والدین کا کیا رتبہ ہے۔

آپ جس ملک میں بھی آباد ہیں اس کے قوانین کا مکمل احترام کریں اس کی ترقی میں شاندار کردار ادا کریں اور مقامی لوگوں سے بہترین تعلقات رکھیں لیکن اپنی مذہبی اقدار اور اصولوں پر قائم رہیں مقامی حکومتیں اور کونسلز بھی آپ کی مذہبی تقریبات میں نہ صرف شامل ہوتی ہیں بلکہ کئی صورتوں میں مالی مدد بھی دیتی ہیں لیکن ہم میں سے ہی خود کئی افراد احساس کمتری کا شکار بن جاتے ہیں، میں ایک ایسے خاندان کو جانتا ہوں جو ماڈرن بننے کے شوق میں اپنے بچوں کو دیگر پاکستانیوں سے کوئی تعلق نہیں رکھنے دیتے تھے، انہوں نے مکان بھی اپنی کمیونٹی سے دور لیا تھا، وہ گوروں سے بھی زیادہ گورے بنے ہوئے تھے اور ایک دن پتہ چلا کہ ان کا بچہ ڈاکٹر بننے کے بعد اپنے بوڑھے والدین کو تنہا چھوڑ کر چلا گیا اور چونکہ وہ اسلام سے بالکل لاتعلق تھا اس نے اپنے عیسائی دوستوں کی سوسائٹی کے زیراثر عیسائی مذہب اختیار کرلیا ہے، پاکستان سے آنے والے ہم لوگوں کی اکثریت بے شک ایک بے عمل مسلمان تھی لیکن وہاں کے معاشرے کے زیراثر اپنی ثقافت اور مذہب سے بہت زیادہ جڑے ہوئے تھے۔ کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ نہیں آسکتا تھا کہ وہ اپنے والدین کو دفن کرنے کے بجائے جلائے گا، اس طرح کے واقعات کا ذمہ دار کون ہے؟

پہلے تو والدین جو اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم نہ دے سکے اور پھر کمیونٹی لیڈر، ایسے بچے بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں جن کے والدین نے ان کی دینی اور دنیاوی تعلیم پر پوری توجہ دی اور وہ کامیابی سے زندگی گزار رہے ہیں لیکن ان کی تعداد کوئی بہت زیادہ نہیں۔تہذیبوں کے تصادم کا یہ سلسلہ یوں تو خاصی دیر سے جاری ہے، 9/11کا واقعہ بلاشبہ ایک شر تھا لیکن اس سے خیر کا ایک پہلو بھی برآمد ہوا، ہماری یہاں پر پیدا شدہ نسل جو بڑی تیزی کے ساتھ اپنے مذہب و ثقافت سے بے بہرہ ہو رہی تھی اور مغرب ثقافت کے رنگ میں رنگی چلی جارہی تھی، 9/11کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جو لہر اٹھی، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہمارے بچے بھی اس کا نشانہ بنے وہ اس بات پر سخت ناراض تھے کہ ہم یہاں کے پیدائشی ہیں اور بعض صورتوں میں تعلیمی میدان میں بھی گوروں سے بہتر ہیں لیکن ہمارے ساتھ اچھوتوں کی طرح کا برتائو کیوں کیا جارہا ہے تو ان کو اس کی وجہ اپنا مذہب نظر آیا، صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے، مغربی معاشرے سے مسترد کئے جانے کے بعد وہ دوبارہ اپنی اصل بنیاد کی طرف پلٹے اور دین اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور پھر بے شمار نوجوانوں نے داڑھیاں رکھی لیں اور پانچ وقت کی باقاعدگی سے نمازیں شروع کردیں اور پھر یہ بچے ہم برصغیر سے آنے والوں سے بھی بہتر مسلمان بن گئے کیونکہ ہم تو صرف ایک روایتی اور ثقافتی مسلمان تھے جب کہ یہ بچے دین کو سمجھ کر اسلام میں بھی متحرک ہوئے تھےاور ایک اچھے عملی مسلمان بنے، اس وقت پرانے افراد کی نسل آہستہ آہستہ یا تو ختم ہوتی جارہی ہے یا پھر غیر متحرک ہوگئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ہم نے اپنا دینی ورثہ بچوں کو منتقل نہ کیا، ان کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ نہ کی تو آئندہ بیس یا پچیس سال میں یہاں کی صورتحال شاید بالکل مختلف ہو۔تو ان کو اس کی وجہ اپنا مذہب نظر آیا، صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے، مغربی معاشرے سے مسترد کئے جانے کے بعد وہ دوبارہ اپنی اصل بنیاد کی طرف پلٹے اور دین اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور پھر بے شمار نوجوانوں نے داڑھیاں رکھی لیں اور پانچ وقت کی باقاعدگی سے نمازیں شروع کردیں اور پھر یہ بچے ہم برصغیر سے آنے والوں سے بھی بہتر مسلمان بن گئے کیونکہ ہم تو صرف ایک روایتی اور ثقافتی مسلمان تھے جب کہ یہ بچے دین کو سمجھ کر اسلام میں بھی متحرک ہوئے تھےاور ایک اچھے عملی مسلمان بنے، اس وقت پرانے افراد کی نسل آہستہ آہستہ یا تو ختم ہوتی جارہی ہے یا پھر غیر متحرک ہوگئی ہے۔ اگر ہم نے اپنا دینی ورثہ بچوں کو منتقل نہ کیا، ان کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ نہ کی تو آئندہ بیس یا پچیس سال میں یہاں کی صورتحال شاید بالکل مختلف ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply