• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت کے آخری بدھ مت حکمران شری بدت کی کہانی(2)۔۔تحریر و تحقیق/اشفاق احمد ایڈوکیٹ

گلگت کے آخری بدھ مت حکمران شری بدت کی کہانی(2)۔۔تحریر و تحقیق/اشفاق احمد ایڈوکیٹ

ڈاکٹر جی ڈبلیو لیٹنر ، 1866 میں ، پہلا یورپی تھا جس نے شری بدت کی کہانی ریکارڈ کی تھی جس سے انہوں نے 1877 میں “تاریخی افسانوی تاریخ برائے گلگت” کے نام سے شائع کیا ۔ انہوں نے شری بدت کی کہانی کو حقیقت اور افسانے کا امتزاج قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر لیٹنر اپنی کتاب دردستان کے صفحہ نمبر 9 تا 16 میں شری بدت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مقامی روایات کے مطابق شری بدت بری روحوں کی اولاد تھا۔
انہوں نے اپنی کتاب دردستان میں اس قاتل شہزادہ کا نام آذر جمشید کے بجائے آذر شمشیر لکھا ہے جس نے شری بدت کی بیٹی کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر اس کے ذریعۂ شری بدت کی لافانی زندگی کا راز معلوم کیا کہ اس کی” روح برف کی ہے” اور اس کی زندگی صرف آگ سے ہی ختم ہو سکتی ہے۔

روایت ہے کہ شری بدت گلگت میں ایک محل میں مقیم تھا ،اس کے ذوق موزوں تھے ،اس کے محل کے سامنے ساتھ ایک پولو گراونڈ تھا اور وہ پولو کھیل کا دلدادہ تھا مگر اس کے ہر عمل سے اس کی منحرف شخصیت کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کا ملک زرخیز تھا- دارالحکومت کے چاروں طرف دلکش اور پرکشش باغات تھے۔ مگر وہ بادشاہ آدم خور تھا اس آدم خوری کی ابتدا ایک حادثہ کی وجہ سے ہوئی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ اسے اپنی رعایا سے روزانہ خراج میں ایک بھیڑ لینے کی عادت تھی۔ ایک دن ، جب وہ کھانا کھا رہا تھا ، اسے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ گوشت پہلے سے زیادہ مزیدار  تھا۔ اس نے اپنے کولن (باورچی خانے کے دروغہ) کو  پوچھا کہ بھیڑیں کہاں سے لائی گئیں۔ چھان بین کے بعد اس کے دروغہ نے بتایا کہ اسے یہ بھیڑ گلگت میں برمس گاؤں کی ایک عورت سے ملی ہے۔ بادشاہ نے اس عورت کو شاہی دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ وہ عورت جو اچانک اس بلاوے  کی وجہ نہیں جانتی تھی بادشاہ کے کے سامنے لاۓ جانے سے وہ بہت خوفزدہ تھی ، جسے اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جب وہ دربار پہنچی تو وہ شری بدت کے سوالات سن کر پُرسکون ہوگئی اور خوشی سے جواب دیا: “اے گلگت کے عظیم بادشاہ ، تجھ پر سلامتی رہے!

میرا بچہ اور یہ بھیڑ ایک ہی دن پیدا ہوئے تھے میرا بچہ پیدائش کے کچھ دن بعد وفات پا گیا تھا اور اس بھیڑ کی ماں اس کے پیدائش کےکچھ ہی دن بعد فوت ہوگئی تھی۔ پیدائشی طور پر بھیڑ کے بہت خوبصورت ہونے کی وجہ سے میں نے ان کی بہت تعریف کی تھی۔ بھیڑ کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے بیٹے ایوے کو بھی کھویا تھا چنانچہ میں نے اپنا غم مٹانے کے لئے اس بھیڑ کے بچے کو اپنا ہی دودھ پلایا جب تک کہ وہ چر نہ سکے ، کچھ دن پہلے اسی بھیڑ کے بچے کو آپ کی عظمت کے سامنے پیش کیا گیا۔ ” یہ کہانی سن کر شری بدت بہت خوش ہوئے ، اور خاتون کو بڑا انعام دیا اور اسے واپس جانے دیا۔
تنہا بیٹھے ہوئے ، اس نے گوشت کو  چکھنے کی وجہ پر سوچنا شروع کیا۔

اس نے استدلال کیا کہ جب ایک بھیڑ کے گوشت جس نے تھوڑی دیر کے لئے صرف انسانی چھاتی کو چوس لیا ہو ، اس کا ذائقہ اتنا عمدہ ہوتا ہے ، تو انسان کا گوشت جو ہمیشہ ہی انسانی دودھ سے پرورش پاتا ہے یہ جانور کے گوشت سے بہتر ہوگا۔ اس نتیجے پر پہنچ کر ، انہوں نے یہ احکامات دیئے کہ بھیڑوں کے بجائے مستقبل میں انسانی بچوں کا ٹیکس عائد کیا جائے ، اور ان کے گوشت کو ہمیشہ اس کے رات کے کھانے میں پیش کیا جائے۔ اس طرح وہ انسانی گوشت کھانے لگا۔”

جب یہ ظالمانہ حکم صادر کیا گیا تو اس سے ملک کے لوگ اس طرح کی حالت پر مایوس ہوگئے ، اور قربانی دے کر اس میں بہتری لانے کی کوشش کی ، بادشاہ کے  حکم کی تعمیل میں پہل پہلے تو یتیموں اور پڑوسی قبائل کے بچے اس کی  خوراک بن گئے ! آہستہ آہستہ سب کی باری آنے لگی اور جلد ہی اس کی ظلمت گلگت کے بہت سے خاندانوں نے محسوس کی ، جو اپنے بچوں کو ذبح کرنے کے لئے ترک کرنے پر مجبور ہوۓ تھے اور عوام اس کے ظلم سے سخت ناخوش تھے۔

مقامی لوگ اس بادشاہ کے خلاف کچھ اثر نہیں ڈال سکتے تھے چونکہ اس کو جادوئی امداد حاصل تھی۔ آخر کار ان کے لیے پہاڑ کی چوٹی سے امداد ائی جس پر چڑھنے میں ایک دن لگتا ہے ، اور یہ امداد دریا کے کنارے گلگت کے نیچے ، دیور(دنیور) نامی گاؤں کے اوپر پہاڈ پر نمودار ہوئی ، جس میں تین شخصیات نظر آئیں۔ وہ مردوں کی طرح نظر آتے تھے ، لیکن زیادہ مضبوط اور خوبصورت تھے۔ انہوں نے اپنے بازوؤں میں دخش اور تیر اٹھائے ہوئے تھے وہ تینوں پری زاد تھے۔

بقول ڈاکٹر لیٹنر آذر شمشیر نے شری بدت کی بیٹی کو بتایا کہ وہ ایک پری زاد  ہے یہ سن کر وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی اور اپنے باپ کی لافانی زندگی کا راز آذر شمشیر کو بتایا-
یہ راز معلوم کرنے کے بعد اس نے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کیا اور محل پر آگ لگایا جس سے شری بدت کا خاتمہ ہوگیا اور قاتل شہزادہ نے شری بدت کی بیٹی سے شادی کرکے خود گلگت کا حکمران بن گیا۔

ایسا لگتا ہے کہ لیٹنر نے شری بدت کے افسانہ کو حقیقت اور افسانے کا ایک مرکب سمجھا ہے ، جس کا ثبوت ان کے عنوان اور “تاریخی” اور “خالصتا ً ادبی” نقطہ نظر دونوں کے حوالہ سے ہے۔ پھر بھی یہ ایک تاریخی نقط نظر ہے جس نے لیٹنر کے بعد آنے والوں کی توجہ مبذول کرائی۔

اس لئے شری بدت سے منسوب آدم خوری کی قدیم کہانی کو ایک نئے انداز میں دیکھنا لازمی ہے چونکہ یہ صرف اساطیر سے بھری ہوئی ایک کہانی نہیں بلکہ درحقیقت یہ قدیم کہانیاں وہ نالیاں ہیں جن سے اس زمانے کا مجموعی شعور ہم تک آتا ہے جس میں وہ حقائق پنہاں ہو سکتے ہیں جن سے سینکڑوں سال قبل ہمارے آباؤ اجداد دوچار ہوۓ تھے –

مقامی روایت کے تحت بیان کی گئی اس کہانی کا جائزہ لیا جاۓ تو پتہ چلتا ہے شری بدت اور آذر جمشید دونوں کو دیو مالائی مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا ہے آذر جمشید کو پری زاد اور شری بدت کو بدروح اور آدم خور کہا گیا ہے جو حقیقت سے زیادہ افسانہ لگتا ہے۔

لیکن اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے چونکہ دنیا کی ہر تہذیب میں اساطیری یا دیومالائی قصے کہانیاں ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہیں جن میں انوکھی مخلوقات، پریاں اور دیوی دیوتا ہوتے ہیں ۔
دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ تاریخ میں انسانی گوشت خوری کا رواج رہا ہے جس کی تصدیق کرتے ہوۓ مشہور فلسفی برٹرینڈرسل اپنی نوبل انعام یافتہ کتاب “فلسفہ مغرب کی تاریخ “کے صحفہ نمبر 47 میں لکھتے ہیں کہ ” تمام دنیا میں مذہبی ارتقاء کے خاص مرحلے پر مقدس حیوانوں اور انسانوں کی قربانیاں دی جاتی اور انہیں کھایا جاتا تھا – یہ مرحلہ مختلف جگہوں پر مختلف زبانوں میں رائج رہا- انسانوں کو کھانے کی نسبت انسانی قربانی زیادہ عرصہ تک قائم رہی, یونان میں تاریخی زمانوں کی ابتدا تک یہ رسم ختم نہیں ہوئی تھی -ان ظالمانہ پہلووں کے بغیر زرخیزی کی رسومات تمام یونان میں عام تھیں۔ دیوتا کو پوری طرح انسان ماننا جاتا تھا البتہ وہ انسانوں سے اتنے مختلف ہیں کہ وہ غیر فانی اور فوق البشری قوتوں کے مالک ہیں”۔

گلگت بلتستان کی قدیم روایات میں شری بدت کو بھی ایک مافوق فطرت قوت کا مالک بتایا گیا ہے۔کہ اس کی موت کا زاز معلوم کئے بنا اس کو جان سے نہیں مارا جاسکتا ہے چونکہ وہ جادوئی طاقت کا حامل شخص تھا چنانچہ اس سے آدم خور اور بدی کا پیکر بنا کر پیش کیا گیا جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ شری بدت کے قاتل آذر جمشید کو مسیحا بنا کر پیش کیا گیا اور آج بھی ہمالیہ ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑوں کے دامن میں آباد کچھ افراد خود کو اس کی نسل سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر یونیورسٹی آف نارتھ ٹیکساس کی پروفیسر صدف منشی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ہنزہ کے راجہ جمشید علی خان نے خود کو شری بدت کی بیٹی کے نسل سے ہونے کا ذکر کیا ہے۔
یہ واصغ ہے کہ شری بدت کے کردار کو بدی کا پیکر کے طور پر پیش کرنے کے پیچھے مختلف سماجی معاشی اور سیاسی مقاصد پوشیدہ تھے جن پر نظر ڈالنے سے حقیقت کا کھوج لگانا آسان ہوتا ہے۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی شری بدت ایک آدم خور تھا یا پھر بیرونی جارحیت کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے یہ محض اس کے دشمنوں کی طرف سے پھیلایا گیا ایک نفرت انگیز جھوٹا پروپیگنڈہ تھا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اس اہم سوال پر اسکالرز میں دو طرح کی راۓ پائی جاتی ہے مثال کے طور پر شری بدت پر کیلیفورنیا یونیورسٹی امریکہ سے ڈاکٹریٹ کرنے والے سکالرJohn Mock, Ph۔D کے بقول ”گلگت کے آخری بدھ مت بادشاہ شری بدت کو آدم خور بنا کر پیش کرنے کا مقصد پرانے معاشرتی نظام کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کرنا تھا تاکہ ماضی سے عوام کے تعلق کو توڑ کر نئے معاشرتی نظام کی توثیق اور قبولیت کے لئے راستہ ہموار کیا جاسکے”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply