نذیر چوہدری کے ساتھ 22 گھنٹے/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

 

چھوڑیں ماضی کی باتوں کو، حال کے انفاس میں لوٹتے ہیں۔ میں نیویارک شہر کے مرکز سے گرے ہاؤنڈ بس میں سوار ہوا تھا۔ سفر کے دوران شہر فلاڈلفیا راستے میں پڑا تھا جہاں چند منٹوں کے لیے بس رکی تھی۔ یہ شہر میری آنکھوں میں بس گیا تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی کچھ معلوم نہیں شہر کا جو منظر نامہ میرے سامنے تھا جس میں چلتے پھرتے لوگ بھی شامل تھے، اس نے یہ تاثر قائم کیا تھا۔ وہ تو بہت دیر بعد جب میں نے فلم “سکستھ سنس” دیکھی تو مجھ پر شہر فلاڈلفیا کا روپ مزید کھلا تھا۔ محبت کے رشتے ایسے ہی ہوتے ہیں، پل بھر میں ہو جاتی ہے اور عمر بھر اس سے شناسائی نہیں ہو پاتی جس سے محبت محسوس ہوئی تھی۔ پانچ گھنٹے کے بعد میں پینسلوانیہ کے اس شہر میں پہنچا تھا جہاں نذیر چوہدری نے مجھے لینے بس ٹرمینل پر آنا تھا۔
نذیر چوہدری مجھے لینے پہنچا ہوا تھا۔ لمبا تڑنگا، ایک ٹانگ سے ہلکا سا لنگ مارتا ہوا، سیاہ پلاسٹک سے بنے سستے فریم کی موٹی عینک لگائے، کبھی کبھار کرائے کی سائیکل کے ایک ہینڈل کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے کبھی انتہائی سنجیدہ تو کبھی یک لخت فلک شگاف قہقہے لگانے والا نذیر چوہدری اب مہنگا ملبوس زیب تن کیے، سنہری فریم والی قیمتی عینک لگائے، ایک سیاہ رنگ کی بڑی سی ایس یو وی یعنی سپورٹ یوٹیلیٹی وہیکل پر آیا تھا، جسے ہمارے ہاں لینڈ کروزر، پراڈو وغیرہ کہا جاتا ہے۔ جب وہ مجھ سے بغل گیر ہونے کے لیے اترا تھا تو میں نے دیکھا کہ اس کے جوتے بھی کپڑوں سے میچ کرتے ہوئے مہنگے جوتے تھے۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک لمحے کے لیے اس کے اس دور کے مٹی میں اٹے بوٹ آ گئے تھے، جو بوسیدہ اور کہنہ ہوتے تھے۔ مجھے خوشی ہوئی تھی کہ اب میرا دوست آسودہ ہال تھا۔ گاڑی میں سوار ہونے کے بعد میں نے سگریٹ سلگانا چاہا تونذیر چوہدری نے مجھے یہ کہہ کر روک دیا کہ اسے کچھ عرصہ پیشتر “ایمفائسیما” ہو گیا تھا اس لیے اب وہ سگریٹ کے دھوئیں تک سے بچتا ہے۔ یہ بھی اچھی بات تھی کیونکہ نذیر چوہدری ریل کے انجن کی مانند مسلسل دھواں چھوڑا کرتا تھا یعنی وہ اس سے پہلے چین سموکر تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد نذیر چوہدری نے اپنی گاڑی ایک سٹور کے سامنے روکی تھی۔ یہ نذیر چوہدری کا ہی سیون الیون سٹور تھا۔ امریکہ میں سیون الیون ایسے جنرل سٹورز کو کہا جاتا ہے جو ایک زمانے میں صبح سات بجے سے رات گیارہ بجے تک کام کیا کرتے تھے لیکن اب چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے سامنے پٹرول پمپ ہوتے ہیں لیکن ظہیر کے سٹور کے سامنے پٹرول پمپ نہیں تھا۔ ایسے بیشتر سٹور پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کی ملکیت ہیں۔ میں اور نذیر چوہدری سٹور کے عقب میں موجود دفتر میں جا بیٹھے تھے۔ سٹور پر اس وقت دو نوجوان کام کر رہے تھے۔ ان میں ایک کے بارے میں نذیر چوہدری نے بتایا کہ وہ اس کا بیٹا تھا جو پاکستان میں اس کی پہلی بیوی سے تھا جس کے ساتھ اس کی طالب علمی کے زمانے میں شادی ہو گئی تھی لیکن نبھ نہ سکی تھی۔ نذیر چوہدری نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر تم سرمایہ داری کے نطام کو گرفت میں لے لو جو تمہارے جیسے ذہین شخص کے لیے بالکل بھی مشکل نہیں تو تم امریکہ میں سربرآوردہ ہو سکتے ہو۔ پھر نذیر چوہدری اپنے پہلے بیٹے کے جنسی ہیجانات سے متعلق اور اس کی جانب سے پیدا کردہ مسائل سے متعلق بتاتا رہا تھا۔ یہ بھی بتایا تھا کہ اس نے اپنے اس بیٹے کو دوسرے کام کرنے والوں کے ساتھ ایک علیحدہ گھر کرائے پر لے کر دیا ہوا تھا۔ پھر اس نے اپنا فلسفہ بگھارنا شروع کر دیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں آجر مالک ہوتا ہے اور کام کرنے والا اس کا غلام۔ “یہ جو کام کر رہے ہیں یہ سب میرے غلام ہیں”۔ ” تمہارا بیٹا بھی؟” میں نے طنزا” پوچھا تھا جس پر نذیر چوہدری نے سنجیدگی کے ساتھ کہا تھا،” ہاں وہ بھی”۔ میں نے بات کا رخ موڑنے کی خاطر پوچھا تھا ” فیاض باقر بھی تو یہاں امریکہ میں تھا؟” فیاض باقر ہمارا مشترکہ دوست تھا، جس زمانے میں نذیر چوہدری نے مجھے بائیں بازو کے طلباء کی تنظیم کھولنے کی جانب راغب کیا تھا تب وہ اس تنظیم کا کنوینر ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں وہ پاکستان میں ایک بین الاقوامی تنظیم کے ایک شعبے کا ڈائریکٹر تھا۔ نذیر چوہدری نے منہ بنا کر کہا تھا،” ہاں فیاض باقر کو بھی میں نے یہاں نوکری دی تھی، وہ بھی میرا غلام رہا تھا”۔ اس کے لہجے میں تفنن کی بجائے تضحیک کا زیادہ عنصر تھا۔ میری امید پر پانی پھر گیا تھا۔ میں تو یہ سوچ کر آیا تھا کہ چلو دوست ہے، اتنے اصرار پر بلایا ہے، کچھ عرصہ ایڈجسٹ کر لے گا۔ تاہم نذیر چوہدری نے مجھے ایک مشورہ دیا تھا کہ میں کسی اچھی یونیورسٹی سے مارکیٹنگ میں ماسٹرز کر لوں تو میرے لیے کام کے امکانات زیادہ ہوں گے۔
شام کو نذیر چوہدری مجھے اپنے گھر لے گیا تھا اگرچہ شام ہونے تک مجھے کھٹکا لگا ہوا تھا کہ وہ کہیں مجھے اپنے بیٹے کے ہاں نہ ٹھہرا دے۔ نذیر چوہدری 1970 کی دہائی کے اواخر میں کسی طرح جرمنی چلا گیا تھا۔ اس کی موجودہ بیوی مشرقی جرمنی سے ایک نہایت مناسب خاتون تھیں۔ ان کے دو بیٹے تھے، دونوں بیٹوں کے نام مغربی طرز کے تھے مارک اور مارٹن البتہ ان کے ساتھ فرید شکر گنج کے حوالے سے فرید کا سابقہ لگایا گیا تھا۔ نذیر چوہدری نے اپنے چھوٹے بیٹے کے بارے میں ہنستے ہوئے بتایا تھا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو وہ پاکستان کے معروف سیاستدان اور بیرسٹر اعتزاز احسن سے اپنے بوٹ کے تسمے ضد کرکے بندھوایا کرتا تھا جو نذیر چوہدری کے ہاں بطور مہمان آتے تھے۔
مجھے سونے کی جگہ تہہ خانے میں دی گئی تھی جو بہت آراستہ تھا۔ میں اور میزبان وہسکی پیتے رہے تھے۔ میزبان خاتون خانہ نے گھر کے دروازے کے باہر ایک ایش ٹرے رکھ چھوڑی تھی تاکہ میں باہر جا کر سگریٹ نوشی کر سکوں۔ میں دو ایک بار سگریٹ پینے باہر گیا تھا مگر شدید سردی کے باعث ہر بار چند کش لے کر لوٹ آیا تھا۔ طغرل کی جانب سے شراب کی مزید طلب کی خواہش اور فون کارڈ کے معاملے پر نذیر چوہدری نے کچھ تلخ فقرے کہے تھے۔ میں خاموش رہا تھا۔ اگلے روز دوپہر میں نذیر چوہدری کی اہلیہ نے مجھ سے پوچھا تھا،” کیا آپ سپاگیٹی کھاتے ہیں؟”۔ ” نہیں مجھے پسند نہیں ہے” میں نے جواب میں کہا تھا۔ خاتون نے کہا تھا،” اوہو، میں نے تو سپاگیٹی ہی بنائی ہے” اس پر میں بولا تھا،” کوئی بات نہیں، میں کھا لوں گا”۔ سپاگیٹی کا ظہرانہ کھانے کے بعد جب ہم دونوں سٹور کے لیے روانہ ہوئے تو نذیر چوہدری نے کہا تھا،” ڈاکٹر تم ملک سے باہر رہ کر بھی فیوڈل ہی رہے”۔ “کیوں، تمہیں ایسا کس لیے محسوس ہوا؟” میں نے پوچھا تھا۔ اس کے جواب میں نذیر چوہدری نے اپنی اہلیہ کا نام لے کر کہا تھا کہ اس نے پوچھا تھا آیا تم سپاگیٹی کھاؤ گے اور تم نے انکار کر دیا، مغرب میں عورتوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جانا معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ اب معاملہ میری برداشت سے باہر ہو چکا تھا، میں پھٹ پڑا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ تمہاری بیگم نے پہلے یہ نہیں بتایا تھا کہ اس نے سپاگیٹی بنائی ہے بلکہ ایک عمومی سوال کیا تھا جس کا جو جواب بنتا تھا وہ میں نے دے دیا تھا۔ اگر وہ پہلے کہتی کہ میں نے سپاگیٹی تیار کی ہے، کیا آپ کھائیں گے؟ تو لامحالہ اس کا جواب اثبات میں دیا جاتا۔ میں نے الٹا اسے سنا ڈالی تھیں کہ یہاں آ کر تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ تم نے کل سے کوئی ڈھنگ کی بات کی ہی نہیں۔ جب ہم سٹور پر اتر کر دفتر میں گئے تو وہاں نذیر چوہدری کے دو پاکستانی دوست پہلے سے آئے ہوئے تھے۔ عمومی گپ شپ شروع ہو گئی تھی۔ جب جذبات کی جھاگ بیٹھ گئی تو میں نے کہا تھا، “یار نذیر بس کے ٹکٹ بارے پتہ کرو، میں آج واپس جانا چاہتا ہوں”۔ آئے ہوئے مہمانوں نے کہا تھا کہ شام کو آپ ہمارے ساتھ کھانا کھائیں کل چلے جانا لیکن نذیر نے کوئی بات نہیں کی تھی بس اتنا کہا تھا کہ یہاں ٹکٹ آسانی سے مل جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ نیویارک کے لیے روانہ ہونے والی بس کا وقت معلوم کرو۔ گاڑی کو ایک گھنٹے بعد روانہ ہونا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد نذیر چوہدری اور اس کے دونوں دوست مل کر مجھے چھوڑنے گئے تھے۔ میں نذیر چوہدری سے ناطہ توڑ کر نیویارک کے لیے روانہ ہو گیا تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply