غیر طبقاتی سماج اور عورت کی آزادی۔۔سائرہ ناز

سماج میں کوئی بھی تبدیلی isolation میں نہیں لائی جا سکتی ۔سماج کی وسیع پرتیں جو سماجی اور معاشی لحاظ سے پسی ہوئی ہیں اور دہرے تہرے معاشی و سماجی وریاستی جبر کا شکار ہیں۔ استحصال کا شکار اکثریتی طبقہ اس استحصال اور جبر کو اپنی قسمت سمجھتا ہے کیونکہ استعاری مشینری طاقتور اور وسائل پر ایسے قابض ہے کہ naturalization of exploitation کرنا اس کے لیے بہت آسان ہے وہ اس کے لیے نفسیاتی حربے اور مذہب و قدیم رسم و رواج اور نام نہاد حب الوطنی کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے

عورتوں کو معاشی و سماجی سطح پر برابر حقوق کا نعرہ 1789 کے فرانسیسی انقلاب کے نتیجے میں سامنے آیا ۔فرانسیسی انقلاب نے یورپ کی تاریخ کو بدل ڈالا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں جو نظریات و افکار پیدا ہوئے انہوں نے یورپ کے سماج کی نئی تشکیل کی۔ نیشنل ازم، سیکولرازم، سوشلزم اور فیمینزم انقلاب کی پیداوار تھے جنہوں نے فکر کی نئی راہیں کھولیں ۔یورپ میں بھی حالات ہمارے سماج سے مختلف نہ تھے مگر یورپ کی خواتین کو طویل جدوجہد کرنی پڑیم،مگر سرمایہ دارانہ نظام میں عورتوں  کی اس نام نہاد آزادی نے خواتین کو صرف مادرپدر آزادی ہی دی ہے اسکے حقوق نہیں۔

امریکہ و یورپ میں عورت کو مرد سے کم تنخواہ ملتی ہے، زچگی کی چھٹیاں یا تو ملتی نہیں یا بِناء اجرت کے ملتی ہیں، ماہواری کی چھٹیاں نہیں ملتیں، کام کی جگہوں پر علاج کی سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں، غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کے سبب جسم فروشی کی صنعت میں کروڑوں کی تعداد میں ان کی بھرمار ہے، تعلیمی اخراجات پورے کرنے کی خاطر نت نئے انداز سے انہیں جسم فروشی کرنی پڑتی ہے۔ گھریلو اخراجات پورے کرنے کی خاطر انہیں ایک سے زائد نوکریاں کرنی پڑتی ہیں, اب تک جنسی و گھریلو تشدد سہنا پڑتا ہے وغیرہ وغیرہ

معاشی آزادی کے بغیر عورت کی آزادی اور غیر طبقاتی سماج کے قیام کے بغیر معاشی آزادی, لبرل ریا کاری سے زیادہ کچھ نہیں. سوشلزم میں ہی عورت کی حقیقی, مستحکم اور مکمل نجات ہے۔ سوشلزم کے بغیر عورت کی جمہوری آزادی و برابری درمیانے طبقے کا یوٹوپیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں صرف اقلیتی سرمایہ دار طبقے کی عورت کو جمہوری آزادی اور برابری ملتی ہے اور عورتوں کی اکثریت اس سے محروم رہتی ہے۔

“عورت کی آزادی” اس نعرہ کو محض ” سیکس فری معاشرے کا قیام یا سرمایہ دارانہ نظام کا بورثوا نعرہ “میراجسم میری مرضی” کہہ کہ آپ بھی سماج کی کوئی بھلائی نہیں کر رہے۔ اس نعرہ کی درست تصویر کشی کرنا بھی ضروری ہے۔ اپنے جسم پر اپنا اختیار کوئی ماورائی بات بھی نہیں ہے۔ جب گھر میں عورت پر تشدد ہوتا ہے، اَن چاہیے بندھن میں بندھے ہوئے کے marital rape کا شکار ہونا پڑتا ہے،لڑکے کی پیدائش تک مسلسل بچے پیدا کرنا پڑتے ہیں، خاندانی تنازعات کی آڑ میں ونی، کاروکاری وٹے سٹے اور کم عمری اور زبردستی کی شادی کی بھینٹ چڑھنا پڑتا ہے، بھائی کی حرام کاریوں کا اپنی زندگیاں قربان کر کے تاون بھرنا پڑتا ہے، خاوند کے لیے جوئے کامہرہ بننا پڑتا ہے۔ روٹی کے حصول کے لیے جسم کو بطور سی۔ وی پیش کرنا پڑتا ہے۔

اس سب میں بہت واضح ہے کہ عورت کا جسم عورت کے اختیار میں نہیں ہے، اور اگر وہ اس حق کو حاصل کرنے کے لیے آواز بلند کرتی ہے، تو اس میں مضائقہ کیا ہے، برائی کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو اندازا نہیں کہ یہ سب اس نظام میں ممکن نہیں ہے۔

اس سب کے باوجود ہمیں ان کی مشروط حمایت کرنا پڑتی ہے، اور ان کو باور بھی کرانا پڑتا کہ درست راستہ کیا ہے۔ اس سب میں ہم الگ کھڑے ہو کر ان کا نظارہ نہیں کر سکتے۔ سماج کوئی ایک اکائی نہیں ہوتی، نا ہی پورا طبقہ شعور کی کسی ایک سطح پر ہوتا ہے۔ طبقہ کی ہر پرت کو اس کے سماجی شعور کی سطح پر ہی جیتا جا سکتا ہے۔

غیرطبقاتی سماج ایک ایسا سماج جہاں وسائل پہ چند لوگوں یا گروہون کا قبضہ نہ ہو بلکہ خوراک، تعلیم ،صحت جیسی بنیادی ضروریات تک سب کو رسائی ہو۔ ایسے سماج کے قیام کی جدوجہد صرف خواتین کے حقوق کی لڑائی نہیں ۔یہ پسے ہوئے اس محنت کش طبقے کی آزادی کی جدوجہد ہے جسکا استحصال کر کے ایک طاقتور طبقہ اپنی تجوریا ں بھر رہا یے اور ایک طرف دولت کے انبار ہیں۔ایک طرف بھوک سے بلکتی کروڑوں عوام۔

ایک طرف آسائشیں ہیں ایک طرف بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کروڑوں لوگ۔ غیر طبقاتی سماج کا قیام ہی ناانصافی جبر اور غربت کے خاتمے کا واحد حل ہے ۔ کیونکہ سماجی ناانصافی کی جنم گاہ معاشی ناانصافیانہ نظام ہے۔ہر گناہ اور برائی کی جڑ غربت و افلاس ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حوالہ جات : ڈاکٹر مبارک علی
شاداب مرتضی
بابر پطرس

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply