• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • میانوالی میں ڈاکٹر سدرہ کے قاتل باپ کے نام ایک خط/محمد وقاص رشید

میانوالی میں ڈاکٹر سدرہ کے قاتل باپ کے نام ایک خط/محمد وقاص رشید

” ڈاکٹر سدرہ مرحومہ کے باپ کے نام ایک کھلا خط “

 

 

 

 

 

جشن منا بے ! خوشیوں کے شادیانے بجا۔ پوری میانوالی کی سرزمین میں چراغاں کا اہتمام کر ۔ اپنے ہم خیال “غیرت مندوں” کو بھی بُلا کر ان لوگوں کی بڑی ضیافت کر۔ مل کر بھنگڑے ڈال ، جھومر ڈال ، اس غیرت مند سرزمین پر اپنے مردانہ پاؤں زور زور سے مار کر رقص کر ، ہوا کی سانسوں میں بارود بھر دے ،ڈھول کی تھاپ پر ساری دنیا کو بتا کہ تیری غیرت جیت گئی، بیٹی ہار گئی۔
ایک ایسے علاقے میں جہاں عورت کا مطلب مردانہ غیرت کی زندہ یا مردہ حالت میں تسکین کرنے والی ایک مخلوق۔ جہاں مرد بنیانوں میں اور عورتیں ٹوپی والے برقعوں میں نظر آتی ہیں۔ وہاں اسکی یہ جرات کہ عورت کی ازلی کمتری کا طوق گلے میں پہننے سے انکار کرے اور خود کو دوسرے درجے کی ایک مخلوق سمجھنے سے انکار کرے۔ یہ تو اس انکار سے بھی بڑا انکار ہے جو ابلیس نے خدا کو کیا تھا۔ پھر آسمان کے خدا نے جو اسکو سبق سکھایا یہاں زمین کے خدا مرد کا بھی تو کچھ حق بنتا تھا ناں۔۔؟ کمال سبق سکھایا۔ زندہ باد۔۔۔

رات دن ایک کر کے جو اس نے میڈیکل کی زخیم کتابوں کو پڑھا انہی کتابوں نے اسکا دماغ خراب کر رکھا تھا بہت اچھا کیا سیدھا سر میں سوراخ کیا تاکہ اس دماغ میں بھرا ہوا یہ علم و آگہی کا خناس دماغ سمیت نکل کر اس خاک میں مل جاتا جس میں اسے اب دفن کیا جا چکا۔ اسکے وجود سے پہلے اس دماغ کا مٹی میں ملنا ضروری تھا۔ تاکہ پتا چلے کہ غیرت سے بڑی کوئی ڈگری نہ علم۔

وہ خود مسیحا تھی ایک ڈاکٹر جو لوگوں کو رب سے شفا لے کر دیتی تھی۔ روزانہ کتنے مریض دیکھتی تھی ۔ انکے زخموں پر مرہم رکھتی تھی۔ انکے دردوں کی دوا کرتی تھی۔ لوگوں کو خون کی بوتلیں لگاتی تھی۔ آخری آٹھ دس دن خود موت و حیات کی کشمکش میں رہی۔ یہاں کے فیس بک پیجز سے اسکے لیے خون دینے کی اپیلیں کی جاتی رہیں۔ ہسپتال کے بستر پر زندگی اور موت کے مابین جھولتا اسکا وجود تیری غیرت کے ساتھ پدری شفقت کا بھی منہ بولتا ثبوت تھا۔ بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا۔

اس وجود کی یہ جرات کہ یہ محض ایک ڈاکٹری کی ڈگری گلے میں سجا کر تیری عظیم غیرتمندانہ روایات کو جراتِ انکار کرتا ہوئے اپنا ہم پلہ جیون ساتھی طلب کرے۔ عورت تھی عورت بن کر رہتی ڈاکٹری کیا کر لی بھول گئی کہ ایک عورت ہے اور عورت کا کام مرد کی زبان کی راکھی کرنا ہے۔ باپ نے جہاں زبان دے دی وہاں شادی سے انکار۔ اسکی سزا ، سزائے موت ہی بنتی تھی۔
باپ کی ، یعنی ایک مرد کی زبان کا پاس نہیں رکھا اور آخری ہفتہ ڈیڑھ وینٹی لیٹر پر بالکل گم سم پڑی رہی ۔ نہ بول سکتی تھی نہ سن سکتی تھی نہ دیکھ سکتی تھی اور تو اور سانس بھی مشینوں سے لیتی۔

یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ میرے پاس الفاظ نہیں تحسین کے۔ ایک باپ نے اپنی ڈاکٹر بیٹی کو اسکی مرضی سے اپنا جیون کسی کو تج دینے سے انکار کیا۔ زندہ کیسے رہ سکتی تھی۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے یہاں ایک تیرے جیسے ہی غیرتمند مرد نے اپنی پانچ دن کی بیٹی کو پانچ گولیاں ماری تھیں غیرتمند تھا ناں۔ مردانہ طاقت و غیرت کے شاہکار دوستوں نے کہا بیٹی ہونے کا مطلب مردانہ کمزوری ہوتا ہے تو اس نے مردانہ طاقت کا مظاہرہ اس بچی سے اسکی زندگی چھین کر کیا تھا۔ وہ بھی غیرت مند تھا۔ دونوں میں لیکن فرق کرنا مشکل ہے کہ زیادہ غیرتمند کون رہا۔
اسلام ایک عاقل بالغ عورت کو مرضی سے نکاح کا حق دیتا ہے اور اسکے ولی یا کفیل کو اسکی مرضی پوچھنے جاننے کا حکم دیتا ہے تو یہ اسلام جانے اسکا کام۔ یہاں ہماری روایات ہیں۔ جس میں باپ نے زبان دے دی تو بس بات ختم ۔۔۔نہیں تو زندگی ختم۔۔۔

او میرے جیسے باپ تو بزدل بھی ہیں بے غیرت بھی۔ جو یہ سوچتے ہیں کہ ہاتھ کا چھالہ بنائی ہوئی ایک تتلی کو اپنے آنگن میں کھلتا ، اڑتا ، چہچہاتا ، کھلکھلاتا اور جگمگاتا دیکھتے اسکے درد میں ٹیسیں اپنے دل پر محسوس کرتے کوئی باپ اتنا سفاک کیسے ہو سکتا ہے کہ اپنی بیٹی کی جان ہی لے لے۔

لیکن سُن ! اپنے مکروہ سینے میں دل کے نام پر انسانیت کی قبر کا کتبہ اٹھائے ہوئے سفاک بھیڑیے۔ وہ بیٹی تھی بیٹی ! خود ایک ڈاکٹر تھی۔ اگر بدن میں تھوڑی سی بھی سکت ہوتی تو پہلے ہی دن خود کو بچانے والے اپنے پیٹی بھائیوں بہنوں سے کہتی مجھے مت بچاؤ مجھے مرنے دو کہ میرے جی اٹھنے سے شاید میرے باپ کی غیرت کی تسکین نہ ہو۔ میں بچ گئی تو شاید اسے میری ڈولی اٹھانی پڑے۔ اب ڈولی کی بجائے تابوت اٹھائے گا تو بڑا غیرت مند کہلائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پسِ تحریر ! خبر ! میانوالی میں باپ کی مرضی سے شادی سے انکار پر باپ نے ڈاکٹر سدرہ کو قتل کر دیا۔
اندازہ لگائیے کہ یہ اس سرزمین پر ایک پڑھی لکھی عورت کے متعلق ایک مردار سوچ رکھنے والے باپ کا اندازِ فکر ہے۔ بے چاری وہ جنہیں پیدا ہوتے ساتھ یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ چار دیواری کے دیگر مویشیوں کی طرح کا ایک مویشی ہے ان کو نام نہاد غیرت کی سولی چڑھانے کا عالم کیا ہو گا۔ انسان پتھر کے دور سے نکل آیا مگر اس صنفی وحشت کو ساتھ ہی لے آیا اب کیسے کہے کہ یہ دورِ جہالت کی وراثت ہے ، حیوانیت ہے ، وحشت ہے ، بربریت اور سفاکیت ہے ۔۔۔بس کہتا ہے یہ غیرت ہے۔ لعنت ملامت اور مزمت اس نام نہاد غیرت کی جسکی بھینٹ انسانی زندگی چڑھ جائے۔
” ایک بیٹی کا باپ “

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply