کشن گنگاکی وادی( 15،آخری قسط)- جاویدخان

گزشتہ قسط کا لنک

 

 

 

 

 

پندرھویں ،آخری قسط

اِک شب آب زادی کے قُرب میں :۔
مَیں بستر پر دراز ہوا۔تھکن جوبدن میں سوئی ہوئی تھی جاگنے لگی اَور مَیں سونے گا۔بستر پر لیٹتے ہی نیند آئی اَور اُس نے مجھے گودمیں لے لیا۔اس وادی کے حسین مناظر،بن بوٹے ،پربت ،نیلگوں پانی ،جھرنوں کی گُونج اَور آب شاروں کی لوریاں لیتے لیتے مَیں اُس کی گودمیں سررکھ کر سوگیا۔ ٹھنڈی زمین پر پھوُل دار گھاس تھی اُس پر چٹائی تھی اَورپھر اُس پر ایک گدا۔
جانے کون ساپہر تھا۔اچانک مَیں نے اَپنے پاس ایک نسوانی وجود کومحسوس کیا،جیسے چوڑیوں کی کھنک ہوئی ہو۔اک ہیولاسا،نسوانی لبادے میں آگے بڑھا۔شناخت ،تجسس اَور اَجنبیت کے پردوں میں بس ایک نسوانی رُوپ کامیٹھامیٹھااَحساس تھا۔ایک نیلی پری میرے پاس کھڑی تھی۔اُس نے اَپنے ہونٹوں پر اُنگلی رکھ کر اشارہ کیاخاموش ۔۔۔آؤ ۔۔۔میرے پیچھے پیچھے آؤ۔۔!مَیں پہلی نظر میں ہی تنویمی عمل کاشکار ہوگیا۔میرابدن کسی سحرکے تحت خود بہ خود اُٹھنے لگا۔اَور پھر اس نسوانی ہیولے کے پیچھے ہولیا۔چاند رات کاشباب چھن چھن کر برس رہاتھا۔میرے اِردگرد کی دُنیا سوئی پڑی تھی۔قدم خودبہ خود اُٹھتے گئے۔رستہ جیسے جاناپہچاناتھا۔اِس چاند نگر میں یہ ساراپربتی نگر یہ سحرزدہ اَور ٹھنڈاٹھنڈاماحول ایک سحرزدگی طاری کرتاجارہاتھا۔یہ وہی راہ تھی جس پر مَیں شام کو چلاتھا۔یہ رہ گُزر اَب خاموش تھی ،سارانگر چُپ سادے ہوئے تھا۔پہاڑ جیسے عبادت ِشب میں قیام میں کھڑے تھے۔ندی کاپانی اِن میں سے بعض کے پیروں کودُھلاتاآگے بڑھ رہاتھا۔مَیں وہاں پہنچاجہاں پہاڑوں کی گودمیں ٹھنڈے سفید برفیلے ڈھیر پڑے تھے۔میرے قدم یہاں خود بہ خود رُک گئے۔ہُوکاعالم تھا،سُنہری آسمانی تشتری سے زرد شعاعوں کاسیلابہہ رہاتھا۔نہ کوئی آواز،نہ شور ،نہ زمین پر گِرنے کی آواز۔۔۔۔پھولوں کی مہک سے رُوح میں تازگی بھری جا رہی تھی۔اِس پھول زار پر سُنہری آب شار،سنہری تشتری سے خاموشی سے بہہ ہی تھی۔کُچھ شعاعیں سفید برفیلے ڈھیرپہ گررہی تھیں اَور کُچھ پربتوں پر،ساری کی ساری وادی اس سُنہری آب شار تلے بیٹھی نہارہی تھی۔جیسے کوئی پری ویرانے میں کِسی سُنہری جھرنے تلے بیٹھی ہو۔جھرنے اَور آب شاریں سُریلے نغمے گاتے ہیں۔مگر اس جہاں کاآج دستور نرالاتھا۔آسمان کے بیچوں بیچ سُنہری تشتری کھڑی تھی اَور سُنہری آب شار بہے جارہی تھی۔اِس کی سُنہری دھاروں سے بس خامشی کانغمہ پھُوٹ رہاتھا۔ساری سُریلی ندیاں اَور اُن کی آب شاریں ایک طرف ۔اِس خامشی سے بہتی ندی کے سُر ایک طرف۔تنویمی سرگوشی ہوئی بیٹھ جاو۔۔!!!یہاں میرے پاس اِس پتھر پر بیٹھ جاؤ!
سناٹوں نے اَنگڑائی لی اَور سحر میں ڈُوبی اس ملکوتی سرگوشی کی طرف دیکھا۔کیایہ رُوپ بھی ملکوتی ہے۔؟؟؟
ہمیں جانتے ہو۔۔۔؟
اَجنبیت کے لبادے میں اس اُجلے رُوپ کوسُناتو جواب ایک لہر ِخیال کی شکل میں کہیں مَن کی تہہ میں اُبھرااَور پھر تہہ میں ڈُوب گیا۔۔۔نہیں ۔۔۔۔!!!
سوال پہ اِک گونج سی من مندر کے سناٹوں میں بازگشت بنی تھی اَور اَب جواب بھی اِک میٹھی سرگوشی ۔۔۔اَور ۔۔پھر سرگوشی بازگشت بن کر کہیں تہہ خانے میں اُتر گئی۔
ہمارے لیے آوارہ ہوچُکے ہو۔نگر نگر پھرتے ہواَور اَب کہتے ہوکہ ‘نہیں ’۔۔۔۔۔؟؟؟اتنی دُور یہاں کِس کو ملنے آئے ہو۔؟؟؟
آوازمیں  جادُو تھا۔میٹھاس تھی اَور رس تھا۔مَیں نے اِس رسیلے لہجے کو محسوس کیا۔اَیسارسیلالہجہ نہ مَیں نے کبھی محسوس کیا،نہ سُنانہ کبھی پہلے دیکھاتھا۔آواز میں اک جل ترنگ تھی ،ساز بجا تھااَور میرے دل کی سماعتوں نے رس بھری میٹھی دُنیا سے شناسائی پائی تھی۔
اَچھاتو میرالہجہ رسیلااَور جل ترنگ ہے۔؟؟؟
تُم جل ترنگ لہجوں سے کب شناساہوئے۔؟کب سے شناسائی پال رکھی ہے اِن لہجوں سے۔؟لہجے میں ،آواز میں اَپنایت تھی۔ہماری جل ترنگ نے کیاکبھی تمھیں بھی کوئی ترنگ دی ہے۔؟؟؟نازک اَور خوب نظر ہاتھوں نے مل کر پیالاسابنایااَور میرے چہرے کے نزدیک آگئے۔ٹھنڈی اَور رسیلی خوش بُو سے جِس میں جنگلی پھُولوں کی باس بھری تھی اَورشبنمی تراوٹ تھی ۔میرااِردگر د مہک اُٹھا۔مہک میرے نتھنوں سے ٹکرائی اَور میں خواب و خمارکی دُنیامیں ڈُوبتا چلاگیا۔گیلی گیلی مہک نے خمار کو تیز کردیا۔پیالانماہاتھوں نے میرے چہرے کو اُپنے کٹورے میں بھراتو گیلی سرد اَور رسیلی خوش بُو میری رُوح تک اُترگئی۔پھر جیسے کِسی نے مُجھے بنچ دیاہو اَور کھیِنچ لیاہو۔مَیں اَیسی دُنیامیں چلاگیا۔جہاں صرف سنّاٹوں ،خوش بُوؤں اَور خوش رؤں کاراج تھا۔نخلستان پھُولوں سے لدے تھے اَورپھُولوں نے اَپنے عِطر دان کھولے ہوے تھے۔گیلی ہوائیں اُترتیں اِن رنگ برنگے عِطر دانوں سے خُوشبوئیں اُٹھاتیں اَور اِن وادیوں میں لیے لیے پھرتیں۔نیلے گگن تلے کہیں کہیں بدلیاں اَکٹھ کرتیں ،گھٹائیں بنتیں، اَبر ناچ کرتا،اِٹھلاتااَور پھر کہیں کِسی وادی کے نخلستان پر،کِسی پربت کی چوٹی پر پھُو ار چھڑکتااَور واپس آسمان کو لوٹ جاتا۔بادل اَور بدلیاں پھو ل زاروں پر آکر منڈلاتے ۔ہوائیں اِنھیں نغمے سُناتی ۔کہیں کوئی پرندہ اُڑتاہواآتاپھول زاروں کے اُوپر سے گُزرتااَور پربتوں کی اَوٹ میں گُم ہوجاتا۔اس کے پروں کی سرسراہٹ جاگتی ،پنکھ وادی پر سادہ اَور میٹھی سی آواز پیداکرتے ،پھول ،تتلیاں ،بھنورے اَورگھاس کی پتیاں ہلتیں ،سب سراُٹھاکر اِس آواز کی جانب دیکھتے پھر ساری وادی وہی خامشی کی چادراُوڑھ لیتی ۔ہوائیں جب بادلوں کے نرم گالوں کو چھُوکرنیچے پلٹتیں تو مسرت سے پھُول مچلنے لگتے۔نرم اَور خوش بُودار گھاس کاوسیع و عریض قالین حدِ نگاہ تک بچھاہواتھا۔اچانک خُوب رَو پری نے میرے ہاتھ کوتھامااَور نخلستان پرچلنے لگی۔ مہک تھی ،خمارتھااَور سکون آورفضاتھی۔مَیں ِاس ماحول میں نہال ہواجارہاتھا۔جوخیال اَور سوال میرے ذہن میں آتا۔میری ہم راہی اس کاجواب فوراً دے دیتی ۔مسرت کی اِک لہر میرے بدن میں اُتر کر مچلنے لگی۔اتنی خامشی میں جب جل ترنگ لہجہ گویاہوتاتوساری فضامیں نغمگی جاگ اُٹھتی۔
دُھلادُھلاحُسن ،شفاف رنگ دُنیا ،خامشی کی چادرلِپیٹے ہوئے تھا۔اک سحر ساتھااَور مَیں سحرزدہ اَجنبی اپنے ہم راہی کے قُرب میں خُوشبوؤں میں لِپٹی اَجنبی راہ پر چلتاجارہاتھا۔ایک جگہ ہم رُکے ،ہزار مسکراہٹوں کوشرماتی ہوئی مُسکان ہوئی۔لب واہوئے۔مجھے دیکھااَور کہا۔تُم معصوم ہو ۔۔۔اَور ہم بھی ۔ہمیں معصوم لوگ پسند ہیں ۔تُم اَب تک شناساہوکر بھی اَجنبی ہو۔ہمارے لیے مرے جاتے ہواَور سوچتے ہو کہ ہم کون ہیں۔؟
تجسس میرے اَندرپریشان بیٹھاتھا۔جانے کیوں مَیں اِس رُوپ سے مکمل ناشناسائی کے باوجود اَپنایت اَور شناسائی محسوس کررہاتھااَور کھِنچتاجارہاتھا۔
تُم نے ‘شاہ زادی ’نام توسُناہوگا۔شاہوں کی ہر نازنین بیٹی شاہ زادی ہوتی ہے۔اَیسے ہی مَیں ‘آب زادی ’ہوں ،آب کی نازنین بیٹی ۔جَل کی بیٹی جل پری ہوتی ہے ۔جیسے پریاں ہوتی ہیں۔اَیسے ہی جل پریاں ہوتی ہیں۔یہاں کِسی نے تُمھیں میرانام ‘ڈھاریاں سریاں سَر ’بتایاتھا۔؟ہے نا۔۔۔!تُم میرے بارے میں لوگوں سے کیاپوچھتے پھررہے تھے۔؟اَپنے ہوکر بے گانوں سے پُوچھتے ہو۔اَپنے ہومگر کبھی کبھی بے گانوں جیسے کیوں نظر آنے لگتے ہو۔؟؟؟یہاں کی قدیم ترین زبانوں میں ‘ سَر’ آب زادی کے لیے بولاجاتاتھا۔تمام جل پریاں کِسی پوتر تہذیب میں ‘‘ سَر’’ہوتی تھیں۔تُم شیوسَر گئے تھے اَور لولوسَر بھی ۔۔۔۔!یہ سب تُمھارے بارے میں بتارہی تھیں۔ہم تُمھیں اَکثر یادکرتی رہتی ہیں۔ ہم سب کی سب ‘ہوکر سَر،تارسَر،مارسَر،کرشن سَر،وِشن سَر،جَو تیاں سَر،حراموش کی پہاڑیوں میں بستی کتوال سَر،سرن سَر،مان سَر،سناسَر،باگ سَر،تن سَر،معصوم سی نیل سَراَور پریوں میں گھیری رہتی کال ڈچھنی سَر اَور مَیں بھی ۔۔۔تُمھیں بہت یادکرتی ہیں۔۔۔۔تُم یادوں میں رہتے ہواَور رہوگے۔اَرے تُمھارے عشق کے چرچے زبانِ زدِعام ہیں۔جَل تَرنگ ہوئی ۔۔۔اِک معصوم سے نیل بدن خُو ب رَوچہرے نے شرارت بھری مُسکان نیلی آنکھوں میں لاکرجو دیکھاتوساری کائنات میں نغمگی پھیل گئی۔جیسے محبت گہرے نیلے پانی کی اُجلی اَور دُھلی ہوئی شفاف لہر ہو۔ خوش بُوؤں کی گیلی گیلی لِپٹیں تھیں،شبنمی قطروں میں دُھلی ہوئی پھُولوں کی باس تھی اَورٹھنڈی ٹھنڈی مند پَوَن تھی۔نیلے آکاش تلے زمین پھُولوں سے سجانرم قالین تھااَور ہم دَونوں اِس پرننگے پاوں چل رہے تھے۔دُور پاربرفیلے پربت کے نیچے اِک چوٹی کی نوک بلند ہوکر نیلے گگن سے ہم کلام ہورہی تھی۔مَیں اُسے ہم کلامی میں محو دیکھ رہاتھا۔جَل تَرنگ ہوئی۔کئی سُرلہروں کی تال پرنخلستان کی گہری خاموشی میں گُھل گئے۔اُس طرف کیادیکھ رہے ہو۔۔۔؟؟؟کیاوہاں کوئی اَور بھی ہے۔؟تُم صبح سویرے کالاسَر(جھیل )جاناچاہتے ہونا۔۔۔!لوگوں سے ‘کالاسَر ’کاپتاپُوچھ رہے تھے۔وہ وہاں اُس چوٹی کے اُس طرف رہتی ہے۔وہ بہت معصوم ہے بالکل میری طرح ۔مُسکان ہوئی اَور سبزہ زاروں پر پھول لہلہانے لگے۔نیلے دُھلے رُوپ نے اِسی معصوم اَور شرارتی مُسکان سے میری طرف دیکھااَور پُوچھا۔۔۔اِتنی سب کاکیاکروگے۔۔۔؟؟؟ہیں ۔۔۔؟؟؟ بولو۔۔نا۔۔۔!!!صرف میرے ہوجاؤ۔۔۔!!!آب زادی نے مُسکان لہجے میں دیکھا۔۔۔۔۔پاتال سے آکاش تک محبت معصوم صورت بن کر کلکاریاں کرنے لگی ۔معصوم اَوراَلہڑ دوشیزگی کائنات کے تن بدن میں لوٹ آئی۔جیسے کائنات کے سارے سچے سُروں نے اِس لہجے میں آکر اَنگڑائی لی ہو۔نرم،گدازاَورگیلی مہک سے مہکتے نیلے رُوپ نے نیلی معصوم آنکھوں سے جومیری طرف دیکھاتو سوچوں کاسارابہاو اِس حُسن زادی کے سامنے ساکت ہوکررہ گیا۔
اَچھاچھوڑو یہاں لوگوں نے تُمھیں کیابتایا۔؟کہ ایک بارات یہاں میرے سینے میں اُتر گئی تھی۔۔۔؟دیکھووہ دُلھا تو اَب بھی میرے پاس رہتا ہے۔اُس کی جگہ مَیں تُمھیں اَپنے پاس رکھ لُوں اَور اُسے آزاد کردُوں ۔۔۔کیاخیال ہے۔۔رہوگے اِدھر میرے ساتھ ہمیشہ کے لیے۔؟۔۔ہوں۔۔؟جَل تَرنگ بجی اَورساری وادی میں سُروں کی سرگم پھیلی اَورگُم ہوگئی ۔
میرے پیارے آدم زاد ۔۔۔!تُمھیں لوگوں نے بتایاتھاکہ یہاں دِیواَور پریاں رہتی ہیں۔ہرجمعرات رات کو ڈھول بجتے ہیں اَورگھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آتی ہے۔تو کیاہوا۔۔ڈھول اَور گھوڑے آدم زادوں کے کھلونے ہیں۔جَل ترنگ بجی۔
سنوآدم زادے ۔۔۔!تُم کیاسمجھتے ہوکہ گویائی اَور روح صرف تُم لوگوں میں ہے۔؟لہجہ قدرے مختلف تھا۔شکوہ تھااَور شکایت تھی اَورمَیں ویسے کاویساہی ساکت کاساکت ۔ ۔۔خاموش۔سُنوخامشی بھی اِک گویائی ہے اَورزبان ہے۔تُم یہاں اِس وقت مُجھے سُن رہے ہو۔میرے اَحساسات کوسمجھ رہے ہو،محسوس کررہے ہواَور مَیں تُمھارے دَرد کومحسوس کررہی ہوں ۔یہی زبان ہے بالکل یہی گویائی ہے۔اَصل کام ایک دُوسرے تک پہنچناہے ایک دُوسرے کوسمجھنا ہے۔
تُم کل لوگوں سے میرے بارے میں پُوچھتے پھررہے تھے ۔؟جو لوگ خود کو نہیں جانتے وہ ہمیں کیاجانیں گے ۔؟جنھوں نے کبھی خُود کونہ دیکھاہووہ ہمیں کیادیکھیں گے۔؟تُم بھی زیادہ نہ دیکھاکرو۔ورنہ ہمارے ہی ہوکررہ جاؤ گے پلٹناناممکن ہوجائے گا۔ایک آدم زادی گھر میں لائے ہو۔تُم سے بے نیاز اِس وقت وہ تُمھارے گھر میں سورہی ہے۔اُسے خبر نہیں کہ اُس کاناخُداباغی ہوکر اِک آب زادی کے  قُرب میں گُم صم بیٹھاہے۔اُس کے حُسن میں کھویاہواہے۔
مَیں تُمھیں بتاتی ہوں۔سیکڑوں ،ہزاروں صدیاں گزر گئیں ۔یہاں میرے پاس کئی رشیوں،مُنیوں نے پَوتر اَشنان کیے۔جَل ،اَشنان اَورخُدا۔یہ ایک زنجیر ہے۔تمام پیغمبروں نے آبِ رواں کے کنارے بساؤ کیا،پڑاؤ کیے اَور اَشنان کیے۔حضرت موسی ؑنے عصامار کر بارہ چشمے جاری کیے۔حضرت اِسماعیل ؑ نے ایڑیاں رگڑ یں تو سوکھے جلے صحرا نے ننھے قدموں سے میٹھاچشمہ جاری کردیا۔یہ مقدس آب ِزم زم کہلایا۔آج بھی اُسی آب و تاب سے بہے جارہاہے۔
جَل پیغمبروں کی مانگ اَور خُداکی عطاہے۔
تومَیں کہہ َرہی تھی۔یہاں پر میرے پاس رشیوں،مُنیوں اَور صوفیوں نے مراقبے کیے ،دھیان باندھاسچے اَور اَزلی محبوب سے راز ونیاز کیے۔پھر یہاں سے چلے گئے۔یہ خاموش دُنیا،یہ نخلستان عام نہیں ،خاص ہیں۔جہاں سچے اَور اَزلی محبوب سے ملاقات ہو،وہ جگہیں کبھی عام نہیں ہواکرتیں۔سچا ہمارے اَندربھی ہے اَورباہر بھی۔جنھوں نے میرے پاس بیٹھ کر اُسے پایااَور خُودکوپایا۔وہ لوگ مُجھے کبھی نہیں بھُولے۔یہاں اس جگہ اُن کے محبوب نے اُن سے کلام کیاتھا۔اُن کی بے چین روح کویہاں شانتی ملی،نروان ملااَور تب سے وہ اس جگہ کو مقدس مانتے تھے۔جس جگہ محب اَورمحبوب آن ملیں ۔وہ جگہیں عظیم سنگم ہوتی ہیں۔تُم اُنہی خاص جگہوں میں گھُوم رہے ۔یہ تُم ہماراباطن دیکھ رہے ہو۔اُس کی ہزار جہتوں میں سے ایک کی جھلک۔
اَبر کی ٹکڑیاں پھر سے منڈلانے لگی تھیں۔وہ آسمان میں بڑے بڑے سفید بگلوں کی طرح پَر پھیلائے ہوئے تھیں۔اُن کاسایہ ہمارے سامنے زمین پر پڑ رہاتھا۔اس پرستان میں دُور دُور تک کوئی درخت نہ تھا۔صدرنگ پھول تھے ۔ساری کی ساری زمین پھُولوں سے اَٹی پڑی تھی۔اِردگرد اَور دُور برفیلی چوٹیاں تھیں ،ڈھلانیں تھیں ۔مَن میں خیال کی اِک لہر اُبھری کہ یہ سحرزادی یہاں کب سے رہ رہی ہے۔؟اس نے اَداے خاص سے مُسکراکردیکھا۔
آدم زادے ۔۔۔!جنموں پہلے کی داستان ہے۔جب سات جنموں نے بھی اَبھی جنم نہ لیاتھا۔تب گھُپ اَندھیراچھایارہتاتھا۔خوف ناک اَندھیرا جس میں چاند نے اَپناچہرہ دکھانے سے منع کردیاتھا۔وہ ناراض تھااَور چاہتاتھاکہ  شور نہ ہو۔غبار جو پھیلاہے ،یہ جوغصیلے بادلوں کاراج ہے یہ سب گِرجتے راجے چاند کوسخت ناپسند تھے اَور سورج نے بھی زمانوں اُپنارُخ نہ دکھایا۔یہاں سخت غصیلے بادل ہروقت اَکڑتے،گرجتے،چمکتے اَور برستے رہتے تھے۔سردی یہاں بہت زیادہ تھی ۔اس سے بھی قبل یہاں کے باسیوں نے ہمیں بتایا تھاکہ ایک وقت میں یہ دھرتی بہت گرم ہوچکی تھی۔زمین سے پانی کی جگہ آگ کے چشمے اَور دریاپھُوٹ بہتے تھے۔پھر یہ سرد ہوتے گئے۔یہاں تک کہ آج اُن کانام ونشان تک نہیں رہا۔زندگی پرسرددَور کاآغاز ہوا۔سردی اتنی تھی کہ ہم مُنجمند ہوکر رہ گئیں ۔تمام آب زادیاں سُکڑ کر اَور دُبک کر بیٹھ گئیں ۔زندگی ساکت اَور جامد ہوکررہ گئی۔برسوں بجلیاں کڑک کڑک کر اَپنا غصہ یہاں ٹھنڈاکرتی رہیں۔یہاں بہت کٹاؤ ہوا۔بہت سی آبی پریاں جو ہم سے بھی زیادہ خوب صورت تھیں ۔اس عظیم تخریب کی زدمیں آکر ختم ہوگئیں۔کچھ جوبہت وسیع تھیں حالات نے انھیں سُکڑنے پر مجبورکردیا۔
پھردن پھرنے لگے ۔آسمان نے اعتدال پایااَور میرے اِردگرد اِس خوب صورت نخلستان نے جنم لیا۔یہاں واقعی پریاں بستی تھیں۔زمانوں تک یہاں خاموشیوں کاراج رہا۔آواز میں جادُوتھا اَورداستان میں جادُوبیانی تھی۔ماحول اَور سحر میں ڈُوباحُسن ایک بارپھر سکوت کی رِدااُوڑھ کر مراقبے میں چلاگیا۔ہرسُوپھر سے خامشی ،جیسے زندگی ،حرکت ،سب سوگئے ہوں۔
کچھ دیر سکوت چھایارہاپھر نیلے رُوپ نے خاموش دُنیاکومیٹھے لہجے سے مترنم کیا۔ہماراحُسن زمانوں تک پوشیدہ رہا۔حُسن وہی ہے جوپردے میں رہے جو طالب اَور مطلوب بن کررہے۔اَب ہم سرِبازار ہیں اَور سرِعام ہیں۔اَب بازاری دُنیا،بازای لوگ اَوربازاری نگاہیں ہمیں روزستاتی ہیں۔
پردے میں رہ کر جو حواس پر چھاجائے وہی حُسنِ عظیم ہے۔بھلابے پردگی میں حُسن کہاں۔۔۔۔؟ لہجے میں اُداسی بھر آئی ۔اُداس اَور حسین نگاہوں نے مُڑکر دیکھا۔ نگاہیں مجھ پر ٹک گئیں جیسے کوئی جی بھر کردیکھنا چاہتاہو۔سکوتیہ لہجہ،رِم جھم آنسواَور اُداس اُداس نگاہیں ،جو زمانوں کی داستان اُپنے اَندر چھپائے بیٹھی ہیں ۔یہ داستان جواَبھی بھی پوری نہیں ہوئی۔مَیں اُسے دیکھ رہاتھااَور وہ مجھے۔اِن نگاہوں میں گہری ،نیلی اَور شفاف دُنیا تھی،کسی عظیم وقت کی یادیں تھیں۔جہاں ویرانیاں تھیں،خاموشیاں تھیں،اَلوہیت تھی،اِلہامی کلام تھے اَور ہم کلام بھی،پھولوں بھرے نخلستان تھے ،ان میں  عطربھی تھا۔ان وادیوں میں، ان آنکھوں میں ،ان زمانوں میں، اُتر جانے کامن کرتاتھااَور ہمیشہ کے لیے وہاں کی سیر کونکل جانے کابھی ۔
اِک سوگواری سی میرے اَحساس میں داخل ہوگئی اَور جیسے سارے جہاں کی اُداسیاں ہم دونوں میں آکر بس گئیں ہوں۔ہمارے اِردگرد دوطرح کے لوگ ہیں ۔ایک ہمیں چاہنے والے دُوسرے دیکھنے والے۔تم ہمارے چاہنے والے ہواَوراکیلے ہو۔نم آلود آنکھوں کی نیلاہٹ مزید گہری ہوگئی۔جیسے یہ نمی میری ذات کو نم کرگئی ہو۔وقت کاچکر گھوم رہاہے اَور اَب جُدائی کاوقت آن پہنچا۔اَلوداع۔۔۔۔۔۔ ۔۔آبی ہیولابلند ہوا۔فضامیں اُداس ترنم ہوااَور وہ نسوانی وجود تحلیل ہوگیا۔
مَیں جھٹکے سے جاگاتو خیمے میں بلب جل رہاتھا۔اعجاز یُوسف میرے بائیں طرف گہری نیند میں تھے۔صرف سانسیں جاگ رہی تھیں۔بائیں طرف ذرانیچے عمران رزاق اَورراحیل خورشید نیند کی بانہوں میں دبے نیم جان تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ختم شُد

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply