نمکین چائے۔ ۔۔ شہزاد حنیف سجاول

آج اتوار ہے اور میں گھر کی دوسری منزل پر ٹیرس میں بیٹھا سامنے وادی میں بادلوں کی آنکھ مچولی دیکھ رہا ہوں۔ بارش ابھی ابھی رکی ہے چھت کے کھپریلوں سے بارش کا پانی بوند بوند ٹپک رہا ہے۔۔ فضا میں ایک رومانوی غنائیت رچی ہوئی ہے، میں چائے پی رہا ہوں اور ماحول سے رستے کیف میں بھیگ رہا ہوں۔ سامنے وادی کے اس پار سر بفلک پہاڑوں کا سلسلہ ہے جن کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ سب سے پیچھے جو سب سے برا پربت ہے جس کی چوٹی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آسمان کو چھید رہی ہو، اس نے باقی جو اس کے سامنے ہیں اور قد اور جسامت میں اس سے چھوٹے ہیں کو اپنی گود میں لے رکھا ہو۔ جیسے ماں اپنے بچوں کو گود میں لیے رکھتی ہے۔ یہ پربت بھی دیگر ہمزادگان کے لیے ماں جیسا ہی لگتاہے۔ اور یہ احساس میرے دل کو اس کے لیے محبت سے بھر دیتاہے اور میرا دل چاہتا ہے کہ آگے بڑھ کے میں اسے گلے سے لگا لوں۔ بارش کے بعد سب دھل دھلا کر نکھر سے گئے ہیں اگرچہ گردوغبار کا اس کوچے میں کوئی گزر نہیں لیکن اگر چند  دن بارش نہ ہو تو سارے  ماحول میں جیسے سستی پھیل جاتی ہے اور بارش کی ہلکی سی پھوار پورے ماحول کو چست بنا دیتی ہے۔
میری زندگی میں پہاڑوں کی بہت اہمیت ہے۔ میں ایک پہاڑی علاقے کا رہنے والا ہوں ہمارے گھر کے ساتھ ایک پہاڑ ہے جو میرا بچپن کا دوست ہے۔۔ میرا سکول جہاں سے میں ایلمنٹری تک کی تعلیم حاصل کی آج بھی اس پہاڑ کے سینے پہ ہے۔ اب اسے ہائی سکول کا درجہ مل گیاہے۔ ہمارے گھر سے اس کا فاصلہ چار کلو میٹر ہے۔۔ حالانکہ دیکھنے میں ایک کھلونے کی مانند کارنس پر دھرا نظر آتا ہے جب جی چاہا ہاتھ بڑھا کر چھو لیا۔ سکول تک جانے والا رستہ سانپ ایسے بل کھاتا جاتا ہے۔ دوسری جماعت تک اماں آدھے رستے تک میرے ساتھ جاتی تھیں۔ پھر چوتھی تک سیفی جو میرے ماموں کا بیٹا ہے اور آسٹریلیا میں بہتر مستقبل کی تلاش میں ٹیکسی چلاتا ہے وہ میرا بستہ اٹھا کر لے جاتا تھا۔ پھر میں خود اس قابل ہو گیا کہ بستہ اٹھا کر پہاڑ چڑھ لیتا تھا۔بچپن میں اس پہاڑ سے مجھے والہانہ محبت تھی اور اس کو میرے ساتھ۔

اس پربت نے نے مجھ کوہ پیمائی ایسے سکھائی جیسے کسی شیر خوار کو ماں پیروں پر کھڑا کرتی ہے پھر اس کے ننھے منھے ہاتھ پکڑ  کراپنی ٹانگوں پر چلاتی اپنے سینے سے لگا لیتی ہے، ویسے ہی اس نے مجھے ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھایا۔ میں گھر کےصحن میں بیٹھا سکول کا کام کرتا تھا تو یہ میرے اوپر جھک جاتا تھا ۔۔جیسے میری کاپی میں دیکھ رہا ہو۔ میں اکثر رات کو اٹھ کر دیکھتا تھا کہ یہ کہیں اور نہ چلا جائے۔ کیونکہ میری نانی ایک کہانی سناتی تھی جس میں ایک پہاڑ ایک پری کی محبت میں گرفتار ہوکر اپنے گاوں سے دور چلا جاتا ہے۔ اورگہرے اندھیرے میں جب وہ نظر نہ آتا تو میں اداس بھی ہو جاتا تھا۔ لیکن اگلی صبح وہ وہی ملتا تھا اپنی جگہ استادہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london


اس پہاڑ کے علاوہ میری زندگی میں ایک اور قوت تھی جس نے مجھے وقت، حالات اور زمانے سے مخاصمت نہیں مسابقت سکھائی تھی وہ اماں تھیں۔ ہمارے گھر میں دو چیزوں کا مستقل ڈیرہ تھا ایک غربت اور ایک محبت، اگرچہ ان دونوں کسی جگہ بیگ وقت جمع ہونا حیرت انگیز امرہے لیکن ہمارے گھر میں تو یہ ہمجولیوں کی طرح رہتی تھیں اور لاکھ کوشش کے باوجود جدا نہ ہوتی تھیں۔غربت تو بعد میں رخصت ہو گئی لیکن محبت ہمارے گھر کے درو دیوارمیں رچ بس گئی۔ ابا جی کثیر العیال خاندان کے واحد کفیل تھے اور غیور اس قدر کہ اپنے سائے سے بھی کچھ نہ مانگیں۔ ڈھلی عمر کی شادی، قلیل آمدن اور کثیر کنبے کی نگہداشت۔ جس صبر مسلسل کی طالب تھی قدرت نے شاید انھیں اسی مٹی سے بنایا تھا۔اور اسے تسلیم و رضا کے پانی سے گوندھا تھا۔ کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتے تھے۔ اور اماں تو جیسے ان ہی کا عکس تھیں۔ انھیں ابا سے عبادت کی حد تک محبت تھی۔ہم نے دونوں کے درمیان کبھی کسی بات پر تکرارہوتے نہ دیکھی تھی۔ دونوں کو دلوں کے مضمون نگاہوں سے پڑھ لینے میں ملکہ حاصل تھا۔ ابا کا زیادہ وقت گھر سے باہر ہی گزرتا تھا پھر وہ مزدوری کے لیے پنڈی چلے گئے تو مہینوں بعد ایک یا دو دن کے لیے آتے تھے۔
ہم بہن بھائیوں نے غربت اپنی ماں کے کھردرے ہاتھوں سے سیکھی تھی۔ جو دن بھر گھرکے کاموں میں جتے رہتےتھے اور ہمارے سکھ چین کا بندوبست کرتے رہتے تھے۔ مجھے نہلا کر سر میں تیل ڈال کر جب اماں اپنا محبت بھرا ہاتھ میرے چہرے پر پھیرتی تو اس کا کھردرا پن مجھے بے چین کر دیتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ پھوپھی کا ہاتھ تو ایسا کھردرا نہیں پھر ہماری اماں کے ہاتھ ایسے کیوں ہیں۔ گھر کا صحن، کمروں کے فرش، اور کچن جس کی دیواریں تک توکچی، جن کی لپائی اماں اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں تبھی تو ان میں محبت کی حدت ہوا کرتی تھی۔ ایک گائے تھی دو تین بکریاں بھی ہواکرتی تھیں چند مرغیاں ان سب کی دیکھ بھال بھی اماں کرتی تھیں۔ ان کے لیے چارہ کاٹنا، پانی پلانا، انھیں چرانے کے لیے باہر لے جانا اور لانا ان کا گوبر صاف کرنا یہ سب کام اماں کرتی تھیں۔اور گھر کے باقی کام اس کے علاوہ تھے۔ اماں کو آرام کے لیے بہت کم وقت ملتا تھا۔ اماں کو میرے ساتھ بے حد لگاو تھا۔ ماں کو سبھی بچے عزیز ہوتے ہیں لیکن اماں مجھے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔ جہاں جاتیں میں ان کے ساتھ جاتا۔ ان کے ساتھ سوتا تھا۔ شائد میں پڑھنے لکھنے میں زیادہ تیز تھا اس لیے۔ اتنی محبت کے باوجود وہ مجھے سکول سے چھٹی نہ کرنے دیتی تھیں۔ بارش میں سکول کا ناغہ نہ ہونے دیتی تھیں۔ سرما میں سکول کی لمبی چھٹی میں وہ مجھے ماسٹر سعید کے گھر بھیجتی تھیں تاکہ میری پڑھائی کا حرج نہ ہو۔
گھر میں جب بھی کوئی خاص چیز بنتی تو وہ میرا حصہ الگ سے نکال کے رکھتی تھیں۔دوسرے بہن بھائیوں کو میرے ساتھ محبت کی تلقین کرتی تھیں۔ اماں کے اس رویے کی بدولت میں گھر بھر کا چہیتا تھا۔ میں کچھ دیر کے ادھر اُدھر ہو جاتا تو اماں پریشان ہو جاتی تھیں ایک دن سکول میں والی بال میچ تھا میں وہ دیکھنے سکول رک گیا۔ آتے آتے مغرب ہوگئی جب میں گاوں پہنچا تو اماں میرا پتہ کرنے آدھے رستے تک آچکی تھیں۔ مجھےدیکھتے ہی دوڑ کر گلے سے لگایا اور اس شدت سے روئیں کہ میں دھل سا گیا۔ آج بھی جب یہ واقعہ یاد کرتا ہوں تو ڈر سا جاتا ہوں۔ میرے میٹرک کےداخلے کے لیے اماں نے دیسی گھی کی فروخت سے رقم پس انداز کر رکھی تھی۔ میری بہنیں اور بھائی میٹرک سے قبل ہی سکول چھوڑ چکے تھے۔ بہنیں اس وجہ سے کہ انھیں کون سی ملازمت کرنی ہے اور بھائی کند ذہن تھا پڑھنے لکھنے میں اسے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ مال مویشیوں سے بے پناہ محبت تھی سو انھیں میں مگن ہوگیا۔ اب ہمارے گھر میں دو گائیں ایک بھینس، اور آٹھ دس بکریاں ہو گئیں تھیں۔ کوئی درجن بھر مرغیاں بھی تھیں۔ ان سے ہمارے ذرائع آمدن میں اضافہ ہوا تھا اور میں اس قابل ہوا تھا کہ میڑک کا داخلہ بھیج سکوں۔ اس سے پہلے تو یہ بس ایک خوش خیالی سی تھی۔
میٹرک میں میرے بہت اچھے نمبر آئے تھے ماسٹر سعید نے میرے اماں ابا کو بطور خاص تاکید کی تھی کہ فاقے کر لو ،لیکن بچے کو کم سے کم بی ۔اے تک تعلیم ضرور دلوائو۔ ابا تو اس کے حق میں نہیں تھے انھیں بیٹیوں کی شادی کی فکر تھی اور پھر میری تعلیم کا خرچہ وہ شدید تذبذب کا شکار تھے، لیکن اماں نے مجھے بی ۔اے تک تعلیم دلوانے کی ٹھان لی تھی۔ جیسے تیسے میرا داخلہ کالج میں ہوگیا۔ اماں نے زیادہ محنت شروع کر دی تھی اب وہ مٹی کے تندور بنا کر فروخت کرتی تھیں تا کہ میری تعلیم کے اخراجات پورے ہو سکیں۔ میرے پاس ایک یونیفارم تھِی جسے وہ روزانہ دھوتی تھیں اور شرٹ کو نیل لگانا کبھی نہ بھولتی تھیں۔ بی۔ اے کے آخری سال بڑی بہن کی شادی کے باعث گھر میں کچھ تنگ دستی آنے لگی تھی ابا نے کہا کہ لڑکے کو کسی کام پر لگا دو کم سے کم کچھ آمدن میں اضافہ ہو جائےگا لیکن اماں نہ مانیں داخلہ فیس کے لیے ابا کے پاس پیسے نہ تھے تو اماں نے اپنے کان کی سونے کی بالیاں بیچ کر میرے فیس ادا کر دی۔
امتحانات کے اختتام پر میں ابا کے ساتھ راولپنڈی آ گیا جہاں ایک مجھے ایک سرکاری نوکری مل گئی۔ میرا نتیجہ میری توقعات کے بر عکس بہت عمدہ تھا مجھےہر گز امید نہیں تھی کہ میں اے پلس گریڈ میں پاس ہو جائوں گا۔ میرے رفقاء نے مجھے اپنی تعلیم جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ میرے آفیسر بہت خدا ترس انسان تھے انہوں نے میرا داخلہ اپنی جیب سے ادا کر کے میر اداخلہ ایم ۔بی۔ اے، میں کرا دیا اور اس دوران میری ہر ممکن امداد بھی جاری رکھی۔ میں ان کی مہربانی سے صبح یونیورسٹی جاتا۔ واپسی پر دفتری امور نپٹاتا۔ اور شام کو ایک اور جگہ کچھ گھنٹے کام کرتا، تاکہ تعلیمی اخراجات کے ساتھ ساتھ گھر والوں کی امداد بھی کر سکوں۔ اماں اب بیمار رہنے لگی تھیں۔ ان کی صحت دن بدن گرنے لگی تھی۔ وہ ہر لمحے یہ دعا کرتی رہتی تھی یا اللہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھنا جب میں اپنے بیٹے کو پتلون پہنے دیکھ لوں اس کی کلائی میں گھڑی ہو اور جب وہ صحن میں داخل ہو تو یہ منظر دیکھنے کے لیے میری آنکھیں سلامت ہوں۔
مجھے گائوں جانے کا بہت کم وقت ملتا تھا ۔۔جب بھی جاتا تو وہ مجھے اپنی نظروں سے دور نہ ہونے دیتی تھیں۔ ایم ۔بی۔ اے کی تکمیل کے بعد فاروقی صاحب کی مہربانی کی بدولت مجھے ایک بنک میں ملازمت مل گئی۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیسے میں اڑ کر گائوں پہنچوں اور اماں کو یہ خبر سنائوں لیکن نئی نئی ملازمت تھی۔ رخصت ملنا دشوار تھا پھر میں بھی اماں کی خواہش کی تکمیل کے لیے رک گیا کہ اب کی بار جب گائوں جائوں گا تو پینٹ پہن کر جائوں  گا،کلائی میں گھڑی بھی ہو گی۔ پھر جب میں گائوں پہنچا تو اسی حلیے میں تھا۔ جب میں صحن میں داخل ہوا تو اماں تو صحن میں تھی لیکن مجھے دیکھ نہ سکتی تھی اماں مر گئیں تھیں۔ شاید وہ اسی لیے زندہ تھی کہ مجھے اس منزل تک پہنچا سکیں اور جیسے میرے قدم منزل پر پہنچے اماں نے رخت سفر باندھ لیا۔
کھانے پینے کا مجھے کوئی خاص شوق نہیں تھا اور نہ اب ہے۔۔ ہاں میں چائے میں میٹھا زیادہ ڈال کر پیتا تھا تو اماں میری چائے میں چٹکی بھر نمک ملا دیتی تھیں کہ بیٹا زیادہ میٹھا اچھا نہیں ہوتا قدرت بھی شاید اسی اصول پر کارفرما ہے وہ بھی زندگی کی چائے میں زیادہ میٹھے کی قائل نہیں ہے۔ ٹیرس پر بیٹھے میں سامنے وادی میں بادلوں کی آنکھ مچولی دیکھ رہا ہوں اور چائے پی رہا ہوں لیکن یہ چائے نمکین کیوں ہے؟ میری بیٹی میرے سامنے کباب رکھتے ہوئے ٹھٹک سی جاتی ہے۔۔ بابا آپ رو کیوں رہے ہیں۔۔ وہ اپنے ہاتھوں سے میرے آنسو صاف کرتی جاتی ہے اور کہہ رہی ہے سارے آنسو آپ کی چائے میں گرتے جارہے ہیں اور آپ پیتے جا رہے ہیں ،لیکن میں اسے بتا نہیں سکتا کہ میں عمر بھر ایسی ہی آنسو ملی نمکین چائے پیتا رہا ہوں۔

 

Facebook Comments

شہزاد حنیف سجاول
افسانہ نگار۔ ڈرامہ نویس۔ فلسفہ و الہیات کا طالب علم۔ کلر سیّداں ضلع راولپنڈی سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply