گل مکئی از سجاد حیدر 

دنیا خواہ سوشل میڈیا کی ہو یا پرنٹ میڈیا کی, کسی بھی شخص یا واقعہ کو زیادہ دیر تک اپنی سرخیوں میں ٹکنے نہیں دیتی. کوئی بھی واقعہ ہو ایک خاص وقفہ کے بعد خودبخود پہلے صفحہ سے آخری, آخری صفحہ سے اندرونی صفحات پر منتقل ہو جاتا ہے اور پھر وقت کے دھندلکے میں گم ہو جاتا ہے. چند لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو بار بار وقت کی چادر کو تار تار کر کے پھر سے لوگوں کے ذہنوں میں اپنی یاد تازہ کر دیتے ہیں. ایسی ہی ایک شخصیت گل مکئی ہے جسے لوگ ملالہ یوسفزئی کے نام سے جانتے ہیں. ایک گروہ اسے ہیرو، دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی, ایک کمزور نہتھی لڑکی جس نے قلم کے ذریعے بندوقوں کا مقابلہ کیا, سمجھتی ہے. جب کہ دوسرا گروہ اسے امریکہ اور مغرب کا ایجنٹ سمجھتا ہے. ان کے خیال میں ایک کمزور , دور دراز کی رہنے والی لڑکی ایسے کارنامے سر انجام نہیں دے سکتی. ملالہ کے پردے میں اس کے والد ضیاءالدین یوسفزئی, جو سی آئی اے کا ایجنٹ ہے, مغرب اور امریکہ کے دیئے ہوئے ایجنڈے کو پورا کر رہا ہے اور ملالہ کا نام استعمال کر کے پاکستان میں مذہبی شدت پسندوں کو بدنام کر رہا ہے. ان حضرات کے نزدیک گل مکئی کی ڈائری سے لے کر ملالہ پر حملے تک سب کچھ ایک سکرپٹ کا حصہ ہے بلکہ یہ سرے سے ملالہ پر حملہ کا بھی انکار کرتے ہیں.

ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک بہت بڑا تیسرا گروہ ایسے صاحب الرائے افراد کا بھی ہے. جو ملالہ پر حملہ کے واقعہ سے تو انکار نہیں کرتے لیکن ملالہ کی پذیرائی اور اسے نوبل انعام ملنے کی وجہ سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں. ان کا سوال بڑا سادہ ہوتا ہے کہ آخر ملالہ نے ایسا کون سا کارنامہ سر انجام دیا ہے کہ اسے ہیرو بنایا جائے. ان کے خیال میں ملالہ کو نوبل پرائز, جو دنیا بھر میں اپنی اہمیت اور قدر و قیمت کے لحاظ سے سب سے بڑا انعام ہے, بھی مغرب نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے دیا ہے اور اس پر انعامات کی جو بارش ہو رہی ہے ملالہ اس کی حقدار نہیں. ان کے خیال میں امریکی ادارے دراصل ملالہ کو ایک کٹھ پتلی کی طرح استعمال کر کے پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں.

ملالہ کے بارے رائے اس وقت بہت زیادہ بدلی جب اس کی کتاب…… I am Malala….. چھپ کر مارکیٹ میں آئی. تو فورا ہی اس کے اقتباسات کو متن سے ہٹ کر حوالہ جات کے لیے استعمال کیا گیا. اور یہ الزام لگایا گیا کہ ملالہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں لکھا اور شعائر اسلام کا مضحکہ اڑایا ہے. یہ دونوں باتیں اتنی بڑی تھیں کہ لوگوں نے کتاب پڑھے بغیر ہی ملالہ کے بارے اپنی رائے بدل لی. مزے کی بات یہ ہے کہ ملالہ کے بارے میں وہ لوگ بھی شکوک شبہات کا شکار ہیں جنھوں نے اس کی کتاب کو پڑھنا تو درکنار دیکھا تک نہیں.

 اب حالت یہ ہے کہ کبھی تو ملالہ کو ارفع کریم کے مقابل کھڑا کر کے مطعون کیا جاتا ہے, اور کبھی عافیہ صدیقی کیس کے حوالے سے ملالہ کو گالیاں دی جاتی ہیں. حتی کہ دسمبر 2014 میں اے پی ایس کے سانحہ کے بعد بھی ملالہ کو ایک بزدل لڑکی کے روپ میں پیش کیا گیا کہ اے پی ایس کے بچے بہادر ہیں جو اب بھی اسی سکول میں پڑھ رہے ہیں جب کہ ملالہ بزدل تھی جو بھاگ گئی. ہمارا اس وقت کا موضوع ملالہ کا دفاع کرنا نہیں بلکہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہے کہ آخر ملالہ کی اتنی پذیرائی کی وجہ کیا ہے اور ہم اس حوالے سے کنفیوژن کا شکار کیوں ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors

 اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے مغرب کے انداز فکر کو سمجھنا ہوگا. یہاں میں سرکاری ایجنسیوں اور مغربی ممالک کی حکومتوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ ان ممالک کی عوام اور غیر سرکاری اداروں کا تذکرہ مقصود ہے. مغرب نے دو جنگیں لڑ کر یہ سیکھ لیا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی طاقت ہے تو وہ علم کی طاقت ہے. اور مغرب نے تعلیم اور قلم کو ہتھیار بنا لیا, مغرب اگر آج دنیا پر حکومت کر رہا ہے تو وہ صرف اور صرف ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے ساری دنیا کی باگ دوڑ اس کے ہاتھ میں ہے. مغرب کے نزدیک ساری ترقی کا دارومدار صرف اور صرف تعلیم پر ہے. تعلیم کے معاملے میں وہ عورت اور مرد میں تخصیص کا قائل نہیں, اس کے نزدیک تعلیم کا حصول ہر شہری کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے اور حکومت کا اولین فریضہ ہے کہ وہ تمام پیدا ہونے والے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے وسائل مہیا کرے. کم از کم ہائی سکول تک کی تعلیم حاصل کرنا تمام بچوں کے لیے ضروری ہے. اس معاملے میں ہمارا معیار ان کے معیار سے مختلف ہے. ہمارے اپنے پیارے ملک میں تین کروڑ بچے سکول نہیں جاتے لیکن ہمارے کسی ادارے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی, نہ ہی عوام میں کسی بھی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے. ہم اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے ورکشاپوں میں بھیجنا پسند کرتے ہیں جہاں ان کا معاشی, جسمانی اور جنسی استحصال کیا جاتا ہے. ہمارے بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں, اخبارات کو چند دن مسالہ ملتا ہے, خوب شور مچتا ہے, پھر ہم کسی ایان علی کے ہیئر سٹائل میں ایسے گم ہوتے ہیں کہ ہمیں یاد بھی نہیں آتا کہ ایک قیامت گزری تھی. ہماری اس بے حسی کا مقابلہ دنیا کی کوئی قوم نہیں کر سکتی. ہمارے ملک میں انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کا پہلا نشانہ بھی تعلیمی ادارے ہیں. وہ بھی یہ جانتے ہیں کہ قوم کو اگر اندھیروں میں دھکیلنا ہے تو روشنی کے ان میناروں کو مسمار کیے بغیر یہ ممکن نہیں, (اگرچہ ہم نہیں سمجھتے). ہمیں تو شاید یہ بھی یاد نہیں کہ سوات میں کتنے سکولوں کو بموں سے اڑایا گیا تھا. سوات میں نام نہاد شریعت نافذ کرنے والوں نے سب سے پہلے گرلز سکولوں کو نشانہ بنایا تھا تاکہ قوم کی بیٹیاں زیور تعلیم سے آراستہ نہ ہو سکیں. ایسے میں ایک معصوم لڑکی جو تعلیم سے محبت کرتی ہے, جو پڑھنا چاہتی ہے, جو جاہل نہیں رہنا چاہتی وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں دنیا کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے آگاہ کرتی ہے, اس کی آوذ نشریاتی رابطوں پر دنیا بھر میں گونجتی ہے. جاری ہے۔۔۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply