بجلی کا بِل اور عوام/اختر شہاب

اس بات کا اعتراف تو مئیرکراچی نے بھی کیا ہے کہ شہر میں کنڈے زیادہ  ہیں اور شرفا  کم۔ بلکہ کہنا تو یوں چاہیے کہ ہر شریف آدمی نے بزعم خود اپنی بجلی کی چوری کو اس بِنا پر جائز قرار دے دیا ہے کہ جب ہر شخص بجلی چوری کر رہا ہے تو میں کیوں نہ کروں۔ بجلی کی چوری اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وہ کرایہ دارجو بیچارہ سارا دن گھر میں دھوپ میں رہتا ہے اور پنکھوں میں گزارہ کرتا ہے اس کابِل تو بارہ سو روپے آتا ہے جبکہ مالک مکان جو پنج وقتہ نمازی بھی ہے اس کے گھر میں دو اے سی بھی چلتے ہیں اس کابل 800روپے آتا ہے۔

پچھلے دنوں ایک صاحب بتا رہے تھے  کہ وہ ایک پیر صاحب کے گھر میں ایک ایئرکنڈیشنر نصب کرنے گئے۔ ان پیر صاحب کا کراچی میں سکہ چلتا ہے اور بقول ان کے اگر کراچی کے حالات خراب بھی ہوں  اور آپ کی جیب میں ان پیر صاحب  کا کارڈ ہو تو وہ گویا عافیت کا سِکہ ہے۔آپ کو کوئی روک ٹوک نہیں کرسکتا۔
‘‘اسے کنڈے پر چلا دو۔’’ائیرکنڈیشنر کی تنصیب کروا لی تو پیر صاحب نے فرمایا۔
‘‘میں یہ کام نہیں کر سکتا آپ اپنے کسی مرید سے کروالیں۔’’ اس پر انہوں نے کہا۔
والہ اعلم انہوں نے سچ کہا یا جھوٹ، خود ان کے اپنے گھر میں بھی بجلی کا آدھا نظام کنڈے پر چلتا ہے ۔

یہ تو شرفاء کے کنڈے ہیں جبکہ فیکٹریوں میں اگر کسی فیکٹری میں بجلی چوری پر چھاپہ مارا جائےتو رشوت کی بات لاکھوں سے شروع ہوتی ہے۔
ابھی پچھلے دنوں کچھ علاقوں میں جہاں بجلی کی سپلائی کنڈوں پر تھی یعنی جہاں کنڈوں کا بل آتا تھا، بجلی کے میٹر لگانے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا ۔ ۔تو ہُوایوں کہ  جن لوگوں نے میٹر لگائے وہ عذاب میں آگئے جبکہ کنڈے والے سو روپے ماہانہ میں بجلی پر استری بھی کرتے ہیں بلکہ کھانا بھی پکاتے ہیں لہذا میٹر والوں نے بھی اب صرف ایک بلب میٹر پر لگایا ہوا ہے اور باقی کام کنڈے سے چلاتے ہیں یعنی رند کے رند رہے اور جنت بھی ہاتھ سے نہ گئی۔

جب بجلی کی کھپت اور طلب اور رسد میں توازن نہ رہا اور بجلی کنڈوں پر اور رشوت میں زیادہ جانے لگی اور کے ای ایس سی خسارے میں جانے لگی   تو انہوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ بجلی کے میٹر بدل دو۔ جو پرانے میٹر سے تیس تا چالیس فیصد تیز چلتے ہیں۔ ان میٹروں سے زیادہ بل آنے لگا۔

اس کے علاوہ کے ای ایس سی کے پاس دوسرا حل یہ تھا کہ سال کے سال یہ جب بھی موقع ملے بجلی کے ریٹ بڑھا کر اپنی بے ایمانیوں، اپنی رشوت خوریوں اور اپنے اللّوں تللّوں  کا بوجھ صارفین پر ڈال دو۔

پچھلے دِنوں کونسلر کے الیکشن میں ایک سیاسی جماعت کے افراد اپنی کنونسنگ کے سلسلے میں میرے پاس آئے۔
میں نے ان سے کہا ‘‘سارا کراچی ہمیشہ کے لئے آپ لوگوں کا ووٹ بنک بن سکتا ہے اس لیے آپ کو صرف ایک کام کرنا ہے۔’’
‘‘وہ کیا ْ’’ انہوں نے اشتیاق سے پوچھا۔
”کراچی والوں سے اپیل کریں کہ وہ بجلی کا بل دینا بند کر دیں۔’’ میں نے کہا
‘‘آپ کو پتا ہے  ، آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔آپ سول نافرمانی کی اپیل کر رہے ہیں۔’’ وہ ناراض ہو گئے۔
‘‘جی نہیں میں اپنے حق کے لیے لڑنے کی بات کر رہا ہوں۔ ’’ میں بولا ‘‘ آپ کو چاہیے تھا کہ پوچھتے کہ میں نے یہ بات کیوں کی یا پھر یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ کب تک بجلی کا بل نہ دیں۔’’
‘‘اچھا چلیں آپ خود ہی بتا دیں آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔’’ وہ بولے۔
‘‘میں صرف یہ کہنا چاہ رہا ہوں  کہ کراچی والے اس وقت تک بجلی کا بل دینا بند کر دیں جب تک کراچی میں ایک بھی کنڈا موجود ہے ۔’’
‘‘اس سے کیا فائدہ ہوگا۔؟ ‘’ انہوں نے پوچھا۔
‘‘حیرت کی بات ہے آپ سیاسی آدمی ہوتے ہوئے یہ سوال مجھ سے کر رہے ہیں کہ اس سے کیا فائدہ ہوگا۔’’

میں نے کہا ‘‘ زیادہ تر کراچی کنڈے پر چل رہا ہے۔ فیکٹریوں میں ہرماہ کروڑوں روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور ان سب چوریوں کا بل کےای ایس سی والے اپنی جیب سےتو نہیں دیتے ۔ وہ اسےہم آپ جیسے شرفاء پر ، جو ایمانداری سے بجلی کا بل دینا چاہتے ہیں یا بل دیتے ہیں، پرتقسیم کردیتے ہیں۔ گویا ان کنڈوں سے چوری ہونے والی بجلی کا بل ہم دیتے ہیں جو کہ سراسر زیادتی ہے اور بجلی کا بل دینے سے انکار کرکے ہم اپنے اسی حق کا اظہار کریں گے۔’’

‘‘اس سے تو اور طوائف الملوکی پھیلے گی اور کے ای ایس سی تو بند ہوجائے گی۔’’ انہوں نے دلیل دی۔

‘‘آپ کی سیاست کی طرح آپ کی سوچ بھی منفی ہے۔’’ میں نے‘‘ کہا آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جب کے ای ایس سی والےسنجیدگی سے کنڈے بند کرنے کا سوچیں گے اور کراچی میں ان کنڈوں سے ہونے والی چوری ختم ہوجائے گی تو بجلی کی کتنی بچت ہوگی اور کے ای ایس سی کے پاس اتنی بجلی فالتو ہوگی کہ وہ اسے کھپانے سے ہی معذور ہوگی ۔۔ اور اگر کے ای ایس سی والے اپنی رشوتوں کو اپنی شاہ خرچیوں کو اپنے اللوں تللوں کو ختم کر دیں تو پھر کنڈے والاشخص بھی میٹر سے ہی بجلی لے گا۔ اس طرح یوں سمجھیں بجلی 50پیسے فی یونٹ پڑے گی اور جب بجلی 50پیسے فی یونٹ ملے گی تو نہ میں چوری کروں گا نہ آپ کریں گے اور نہ کوئی کنڈا ڈالے گا۔جب فیکٹریوں کو بھی بجلی سستی ملے گی تو انھیں بھی چوری کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی یوں نا  صرف عام صارفین سے بھی بوجھ کم ہوگا بلکہ کے  ای ایس سی کی آمدن بھی یک لخت کئی گنا بڑھ جائے گی ۔اس زائد آمدن کو وہ اپنے ملازمین میں تقسیم کرکے بجلی کی چوری میں مدد کرنے سے روک سکتی ہے۔’’
‘‘یہ بات کے ای ایس سی والوں کو زبانی بھی سمجھائی جا سکتی ہے۔’’ انہوں نے حجت کی۔
‘‘بالکل سمجھائیےمیں نے کہا اگر وہ مان جائیں تو ! کون بھلا اپنی رشوت کی لاکھوں کی آمدنی چھوڑ کر ماہانہ ہزاروں پر گزارا کرنا پسند کرے گا۔’’
‘‘یہ کام تو آپ بھی کر سکتے ہیں وہ بولے اس میں سیاسی جماعت کی کیا ضرورت ہے۔’’
‘‘ضرورت اس لئے ہے کہ آپ بجلی کے صارفین اور کنڈوں کا ڈیٹا اکٹھا کر سکتے ہیں۔ عام لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ کتنی بجلی چوری ہو رہی ہے اور وہ کتنا بجلی کا بل دے رہے ہیں آپ اپنے کارکنوں کو محکمہ کا محاسبہ کرنے کے لئے اکٹھاکر سکتے ہیں۔آپ عوام کو پروپیگنڈے سے بچا سکتے ہیں اور انہیں اصل حقائق سے آگاہ کر سکتے ہیں۔’’
‘‘آپ نے بجا فرمایا وہ بولے ہم اقتدار میں آتے ہی پہلا کام یہی کریں گے۔’’

مگر یہ ہو نہ سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کا ش صارفین کی انجمن کا کوئی رکن اس مسئلہ پر کام کرے تاکہ بہت سے شرفا کو جو واقعی ایمانداری سے بجلی کا بل دینا چاہتے ہیں مگر جنہوں نے اس مقولے کو اپنایا ہوا ہے کہ جہاں سب چوری کر رہے ہو ں،جہاں دوسروں کے کنڈوں کا بل ہم دے رہے ہوں وہاں چوری کرنا جائز ہے ، بھول کر اپنی آخرت داغ  دار کرنے کے بجائے واقعی ایمانداری کا رستہ اختیار کرسکیں۔ جب تک صارفین متحد نہ ہوں گے وہ اسی طرح پستے رہیں گے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply