پیالی میں طوفان (97) ۔ سرکتے برِاعظم/وہاراامباکر

زمین ویسی کیوں ہے جیسے ہم اسے پاتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں پیشرفت نہیں ہوئی تھی۔ ویگنر کا سرکتے ہوئے براعظموں کا متنازعہ آئیڈیا قبول نہیں کیا گیا تھا۔ اگرچہ کوئی نئے خیال تو نہیں تھے لیکن 1950 کی دہائی میں کچھ نئی پیمائشیں آ چکی تھیں۔ آتش فشانوں کے لاوا میں لوہے کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔ اور یہ دریافت ہو چکا تھا کہ لاوے میں شامل کمپاؤنڈ کا ہر ذرہ قطب نما کی سوئی جیسا کام کر سکتا ہے۔ اور مقامی مقناطیسی فیلڈ سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔ اور سب سے مفید حصہ یہ ہے کہ جب لاوا سرد ہو کر ٹھوس چٹان بنتا ہے تو لوہے کی یہ معدنیات اب ہل نہیں سکتے اور اس پوزیشن میں لاک ہو جاتے ہیں۔ یہ چھوٹے منجمد قطب نما زمین کے مقناطیسی فیلڈ کا ریکارڈ محفوظ کر لیتے ہیں۔ جب ماہرِ ارضیات نے اس ریکارڈ کی مدد سے زمین کی تاریخ میں ہونے والی مقناطیسی فیلڈ کی تبدیلیوں کو دیکھا تو ایک دلچسپ چیز سامنے آئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے مقناطیسی فیلڈ کی سمت ہر چند لاکھ سال بعد الٹ ہوتی رہی ہے۔ یعنی جنوبی قطب شمالی بن گیا اور شمال جنوب بن گیا۔ اس سے کچھ زیادہ فرق تو نہیں پڑتا لیکن یہ عجیب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر جیولوجسٹ سمندر کی تہہ تک پہنچے۔ زمین کے سٹرکچر کا ایک معمہ یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ کئی سمندروں میں پانی کے نیچے پہاڑوں کے بڑے سلسلے سمندر کے flat plains کے درمیان وسیع لکیروں کی صورت میں پھلے ہیں؟ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ یہاں پر کیا کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور بحرِاوقیانوس کے درمیان کا سلسلہ ہے۔ یہ آتش فشانوں کا سلسلہ ہے جو سمندر کے اوپر سے شروع ہوتا ہے۔ (وہ ملک جسے ہم آئس لینڈ کہتے ہیں، اس سلسلہ کا باہر نکلا حصہ ہے)۔ اور پھر یہ سمندر کے نیچے چلا جاتا ہے۔ یہاں پر یہ بحرِاوقیانوس کے درمیان سے zigzag کرتا ہوا تقریباً اینٹارٹیکا تک جا پہنچتا ہے۔ 1960 میں مقناطیسی پیمائشوں نے یہ بتایا کہ اس سلسلے کے گرد چٹانوں کے مقناطیسیت بہت عجیب ہے۔ یہ دھاریوں کی صورت میں ہے اور یہ دھاریاں پہاڑوں کے متوازی چلتی ہیں۔ آپ درمیان سے جس طرح سائیڈ کی طرف جاتے ہیں، سمندر کی تہہ کی چٹانوں کی مقناطیسیت شمال کی طرف اشارہ کرتی ہے، پھر جنوب کی طرف، پھر شمال کی طرف، پھر جنوب کی طرف۔ اور ایک دھاری پہاڑی سلسلے کی لمبائی تک چلتی ہے۔ اور یہ اس سے زیادہ عجیب ہے۔ کہ پہاڑوں کے دونوں طرف کی دھاریاں بالکل ایک ہی طرح ہیں۔ ایسے، جیسے آئینے کا عکس ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا لنک 1962 میں دو برطانوی سائنسدانوں فریڈ وائن اور ڈرمنڈ ہوائل میتھیوز نے بنایا۔ جیولوجی کے یہ عجائب ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوبصورتی سے جڑ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کیا ایسا تو نہیں کہ سمندر کی تہہ کے آتش فشاں سمندر کی تہہ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ سے براعظم دور دھکیلے جا رہے ہیں؟ جہاں پہاڑ ہیں، وہاں پر مقناطیسیت کی سمت بالکل وہی ہے جو کہ آج کا مقناطیسی فیلڈ ہے۔ لیکن جب براعظم سرک کر دور ہو رہے ہں تو اس ابھار کے دونوں اطراف میں درمیان سے آنے والی چٹانیں جا رہی ہیں اور درمیان میں نئی چٹانیں بن رہی ہیں۔ جب مقناطیسی فیلڈ الٹتا ہے تو نئے لاوا کی مقناطیسیت بھی الٹتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک دھاری بن جاتی ہے جو کہ الٹ سمت کی مقناطیست کی سیدھ میں ہے۔ اور جس وجہ سے اس ابھار کے دونوں اطراف کی دھاریاں ایک دوسرے کا عکس ہیں، وہ یہی ہے کیونکہ درمیان میں بننے والی نئی چٹانیں پرانی کو دونوں طرف برابر ایک ہی طرح سے سرکا دیتی ہیں۔ اور ہر دھاری زمین کے مقناطیسیت کے ایک دور کی نمائندگی کرتی ہے۔
اس وقت ہونے والی دوسری دریافتیں ان جگہوں کو دکھا رہی تھیں جہاں سے سمندر کی پرانی تہہ تباہ ہو رہی تھی۔ اور یہ اہم تھا کیونکہ ہماری زمین تو کا سائز تو تبدیل نہیں ہو رہا۔
جنوبی امریکہ کی دوسری طرف کوہِ اینڈیز اس لئے موجود ہیںکہ یہاں پر بحرالکاہل کی پرانی سمندری تہہ برِاعظم کے نیچے دھکیلی جا رہی ہے اور یہ زمین کے مینٹل کی طرف جا رہی ہے۔
ایک بار آپ کو یہ پتا لگ گیا کہ برِاعظم حرکت میں ہو سکتے ہیں، ٹکرا سکتے ہیں اور الگ ہو سکتے ہیں، سمندری تہہ بن سکتی ہے اور تباہ ہو سکتی ہے تو پھر ارضیات کے ان سب پیٹرن کی سمجھ آ جاتی ہے۔
یہ جیولوجی کی سائنس کا سب سے اہم مرحلہ تھا۔ اور پلیٹ ٹیکٹانکس کی دریافت تھی۔ زمین ایسی کیوں ہے؟ ان سب وضاحتوں کے لئے پلیٹ ٹیکٹانکس آج ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
برِاعظم سرکتے رہتے ہیں لیکن سمندر کی تہہ کے اوپر نہیں۔ ان کے نیچے جو ہے، یہ اس کے اوپر تیرتے ہیں۔ اور زمین کی سطح کے نیچے کے کنوکشن کرنٹ ان کو ساتھ لے کر پھرتی ہیں۔ اور یہ پراسس صرف ماضی میں نہیں ہوتا رہا۔ یہ جاری ہے۔ بحرِاوقیانوس اس وقت بھی چوڑا ہو رہا ہے۔ اس کی رفتار ڈیڑھ انچ سالانہ ہے۔ آج بھی اسی رفتار سے یہ مقناطیسی دھاریاں بن رہی ہیں۔ اس بات پر قائل ہونے میں بہت وقت اور شواہد لگے کہ زمین کی سطح اس قدر متحرک ہو سکتی ہے لیکن سمندر کی تہہ کے مقناطیسی پیٹرن ناقابلِ تردید تھے۔
جیولوجیکل ٹائم سکیل اتنے بڑے ہیں اور انسانی تاریخ اس قدر مختصر کہ بہت سے لوگ ان تبدیلیوں کا ادراک کر نہیں پاتے لیکن آج ہم براعظموں کی اس حرکت کی پیمائش بھی کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس بہت ہی ایکوریٹ ڈیٹا ہے جو GPS سے آتا ہے اور ہم اس انجن کو ایکشن میں دیکھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الفریڈ ویگینیر کا جسم اس وقت گرین لینڈ کے شمال میں سو میٹر برف کے نیچے دبا ہے لیکن ان کی جاننے کی مسلسل دھن نے ہمیں بہت سے سوالات کے جواب دے دئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ زمین پر یہ اونچے پہاڑ کیسے بنے؟ زمین پر زندگی کی تاریخ کیا ہے؟ زلزلے جن جگہوں پر زیادہ آتے ہیں، وہ کیوں اور زلزلے آتے ہی کیوں ہیں؟ زمین میں کب کب برِاعظم کس شکل میں رہے؟ بحیرہ احمر کیسے بنا یا بحیرہ روم کب ختم ہو گا؟ زمین کی تہہ کے نیچے کیا عوامل جاری ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply