فرماتے ہیں اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔ ظفرالاسلام سیفی

سوشل میڈیا کے نامعلوم گوشوں سے فرسودہ اتہامات کی از سرنو صدائے بازگشت سنائی دی جانے لگی ہے، فرماتے ہیں کہ”Islam   was spread by the sword. مگرنظر کی اس سطحیت اور فکر کی اس پراگندگی کا جواب تھامس کارلائل نے ”sword of opinion“ کہہ کر شاید سب سے خوبصورت دیا۔مطالعاتی کسمپرسی وتحقیقی بے مائیگی کا شکار ہمارے یہ کرم فرماجس منطق کا حوالہ دیتے ہیں وہ جتنی سطحی ہے اتنی ہی مضحکہ خیز بھی ۔ کسی قوم کی ارتقائی تاریخ میں چند جنگوں کا وجود کوئی معنی رکھتا ہے نہ ظالم وجابر ہونے کی دلیل ، غزوہ بدر واحد ،خندق وحنین کے عسکری حوالے دینے والے ارباب فکر ونظر کیا ان جنگوں کا تناظر بتلانا گوارہ فرمائیں گے؟لاریب کہ دفاعی جنگوں کے ساتھ اقدامی کاروائیاں بھی کی گئی مگر کس شائستگی ومتانت کے ساتھ کبھی زحمت تحقیق گوارہ فرمائیں گے؟یثرب کے جس انتہائی محدوددائرے میں سرورکائنات قدم رنجہ فرماتے ہیں جانتے ہو حضور کے بوقت وفات اس کی وسعتیں کتنی بڑھ چکیں تھیں؟جی ہاں یثرب مدینہ سے اور وہ محدود دائرہ تیس لاکھ مربع کلومیٹر کی ان لامحدود وسعتوں سے بدل چکا تھا جن کا یومیہ اوسط آٹھ صد پنتالیس مربع کلومیٹر تھا،ترقی پذیر اقوام اپنی محدود ارتقائی تاریخ میں لہو سے داغدار کردار رکھتی ہیں مگر پوچھیے مورخین سے کہ دو دہائیوں پر مشتمل سرورکائنات کی زندگی میں اسلام کا یہ ارتقائی سفر کتنا شائستہ،مہذب، اوررحمت وشفقت سے بھرپور تھا؟

ڈی لیسی او لیری ”Islam at the cross road“ میں ببانگ دھل لکھتے ہیں کہ
”تاریخ بہرحال یہ حقیقت واضح کر دیتی ہے کہ مسلمانوں کے متعلق روایتی تعصب پر مبنی کہانیاں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا سب نامعقول اور فضول باتیں ہیں “

صرف سپین میں مسلمانوں کے آٹھ سوسالہ دور اقتدار کاموازنہ عیسائیوں کے فرڈی نینڈ کے چند ماہ کے دور حکومت سے ہی کرلیا جائے تومتعصب مورخین کا مکروہ کردار طشت از بام ہوجائے گا،یورپ کے بطن سے جنم لینے والایہ اعتراض صرف تاریخی ناانصافی ہی نہیں عیسائی ویہودی تاریخ کی سفاکیت سے دنیا کی نظریں پھیرنے کی ایک دانستہ کوشش بھی ہے،شہنشاہ قسطنطین کے قبول عیسائیت اور سینٹ پال کی متجددانہ تخریبی کارروائی کے بعد کی عیسائی تاریخ پر ذرا اک نظر دوڑا لی جائے ۔۔

یورپ کی طبیعت کی صفائی کے لیے تاریخ کے یہ دو اوراق ہی کافی ہوں گے،سینٹ پال کی متجددانہ تخریب کاری نے عیسائیت کو مسیح ابن مریم کی تعلیمات سے خود ساختہ تصورات اور خدائے وحدہ لاشریک لہ سے اقانیم ثلاثۃ کی طرف موڑ دیا اور پھر خود بزوربازو اپنے ہی عیسائیوں پر سفاکیت ودردندگی کی جو مثالیں رقم کی گئی تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

ورطہ حیرت میں ہوں کہ جس دین کی بنیاد ہی امن وسلامتی کے بنیادی فلسفے پر رکھی گئی ہواس پر طعن کیا جائے کہ وہ بزور بازو پھیلا،میری گذارشات کا مقصدہرگز اسلامی نظریہ جہادکی نفی نہیں،اقدامی جہاد بھی اسلام میں نہ صرف جائز بلکہ بعض حالات میں مرغوب بھی ہے مگر اس کی بنیاد پر اسلام کی استدلالی،علمی،عملی والہامی بنیاد کو غیر موثر قرار دے کر فقط زور بازو یا تلوار کو اس کی اشاعت میں موثر قرار دینا زبردست کم علمی ہی نہیں کم عقلی بھی ہے ، منٹو نے سچ کہا کہ
”بے وقوف ہیں وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ مذاہب تلوار کی نوک پر فتح کیے جا سکتے ہیں “۔

خوب فرمایا کہ نظریات بھلا کب تلوار وزور بازو سے فتح کیے جا سکتے ہیں،اسلام کیادنیا کا کوئی بھی مذہب بزور بازو پھیلا ہے نہ پھیل سکتا ہے،اسلام ہی وہ پہلا دین تھا جو انسانیت کو انسانیت کی غلامی سے آزاد کر کے وحدہ لا شریک لہ کی اطاعت میں لایا،جس نے انسانیت کی ذہنی تربیت کی کہ خدا کی نظروں میں سوائے تقوی کے کسی کو کوئی برتری حاصل نہیں،جس نے ظالم وجابر بادشاہ کے سامنے حق پہ ڈٹ جانے کا نہ صرف درس دیا بلکہ اسے افضل جہاد بھی فرمایا،جس نے اظہار رائے کی آزادی دی،اقلیتوں کے حقوق متعین کیے اور غیرمسلموں کے مذاہب،عبادت گاہوں اور ان کے نظریات کے احترام کا درس دیا،جس کے پیغمبر نے امن وآشتی کے وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے دنیا جس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ہمارے کرم فرماوں کے نزدیک وہی دین دہشت گردی کا اور وہی پیغمبرتشدد پسند اور وہی دین تلوار کے زور پر پھیلا ۔فیا للعجب

ارشاد فرمائیے کہ بیعت عقبہ اولی اور ثانیہ کے بعد ہجرت مدینہ سے پہلے مدینہ کے اکثر مسلمان ہونے والے لوگوں کو کس نے اور کب تلوار ماری تھی؟سرورکائنات کی وفات کے وقت تیس لاکھ مربع کلومیٹر کی فتوحات کے لیے کتنی تلواریں اٹھائیں گئی؟عرب پر 1400 سال حکومت کے باوجود اب بھی 14 ملین لوگ ایسے ہیں جو نسلاً  عیسائی چلے آرہے ہیں ان کا وجود تلوار سے کیسے بچ پایا؟ ”ریڈز ڈائجسٹ“ کی رپورٹ کے مطابق 1934سے 1984 تک پچاس سالہ دور میں اسلام 235 فیصد جبکہ عیسائیت 47فیصد پھیلا،بتلائیے اس دور میں کتنی تلواریں یہاں چلیں؟ the plain truth بھی انہی اعدادوشمار کی تصدیق کرتا ہے بتلائیے تلواریں کون سا جہاں ہے جہاں چلتی رہیں؟
آخر وہ کونسی وجہ تھی جس نے جارج برنارڈشا کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ
”if any religion had the chance of ruling over england nay europe within the next hundred years, it could be islam

ڈاکٹر جوزف آدم پیٹرسن واضح طور پر  کہتے ہیں کہ
”جو لوگ فکر مند ہیں کہ ایٹمی ہتھیار ایک دن عرب کے ہاتھ لگ جائیں گے وہ اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام ہیں کہ اسلامی بم پہلے سے ہی گرایا جا چکا ہے اور وہ اس دن گرا یا گیا جس دن محمد پیدا ہوئے تھے“۔
پروفیسر آرنلڈ کو پڑھیے جو بہت کچھ غلط لکھنے کے باوجود اسلام کی حقانیت اور اس کی اشاعت کی وجہ اس کی دعوت وتبلیغ بتلاتے ہیں، ان کی تصنیف کردہ کتاب preaching of  Islam اعتراضات کے باوجود ایک اچھی کاوش ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ چند متعصب مستشرقین نے بے تکے اعتراضات کا نشانہ اسلام کو بنایا مگر ان اعتراضات کا نہایت عالمانہ تعاقب علمائے وقت نے کیا،الیٹ کی مشہور کتاب the history of  India as told  by  its own historians اوربمبئی کے گورنر الفسٹن نے اسلام پر تلوار کے زور سے پھیلنے کا الزام لگایا تو مولانا کیرانوی نے ازالۃ الاوھام اور ازالۃ الشکوک لکھ کر خوبصورت علمی تعاقب کیا ، ایم اے ٹائیٹس بولے تو مولانا مونگیری کو سامنے پایا،لندن ٹائمز نے قرآن پرعدم الصحۃ کا الزام لگایا تو مولانا شبلی اٹھ کھڑے ہوئے،پادری بروجلی نے تعدد ازواج اور سلوک غیر مسلم کے مسئلے پر جسارت کی تو شبلی ایک بار پھر سینہ تان کر کھڑے ہو گئے اور حقوق الزمیین اور الجزیہ لکھ کر اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کو خوبصورتی سے بیان کیا،ہندوستانی مورخ سرجاؤناتھ نے ہسٹری آف اورنگزیب لکھی تو مولانا کیرانوی نے اظہار الحق لکھی،ڈاکٹر اوم پرکاش ہوں یا ایشوری پرساد،آشر وادی لال ہوں یا ڈاکٹر ستیش چندر ہر ایک کا مسکت جواب اہل قلم وعلم نے دیا۔

مجھے نجانے کیوں لگتا ہے کہ معترضین کا مسئلہ صرف اور صرف تاریخ کا سطحی مطالعہ اور فکر کا قصور ہے،میری نظر میں اگر وہ حالات کی واقعیت اور حقائق تک رسائی چاہتے ہیں تو اس فکری مغالطے سے انہیں خود کی تحقیق اور صائب خطوط پر مطالعہ ہی بچاسکتا ہے،میرا دعوی ہے کہ اسلام پر جملہ اعتراضات مطالعے وتحقیق کی کمزور بنیادوں پر کھڑے ہیں،مگر مقام تاسف ہے کہ ہمارے کچھ مرعوبین مغرب بغیر کسی تحقیق وجستجو کے وہی اتہامات کو دہرانے لگتے ہیں جو مغرب کی جانب سے بارہا کیے جانے کی وجہ سے فرسودہ ہوچکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے لبرلز کا مسئلہ اسلام ودیگر مذاہب سے ذیادہ مشرق ومغرب ہے،وہ کسی امر کی صداقت کا معیار اور کسی مذہب کی حقانیت کی دلیل مغرب کی قبولیت وعدم قبولیت کو سمجھتے ہیں، ان کی نظر میں وہ سب غلط ہے جو ہم کہتے ہیں اور وہ سب درست ہے جو اہل یورپ کہتے ہیں، مطالعہ وہ کرتے ہیں نہ انہیں اس سے کوئی سروکار ہے،تحقیق کی انہیں عادت ہے نہ وہ کرنا چاہتے ہیں، تجرباتی طور پر بارہا مشاہداتی بے نتیجگی کے باوجودنجانے کیوں مجھے پھر بھی توقع خیر ہے اس لیے فکری مغالطوں کے شکار اپنے ان سادہ لوح محقیقین کی توجہ تحقیق ومطالعہ کی طرف مبذول کروانا چاہوں گا،میری نظر میں یہ جہاں ان کی فکری تسلی اورتحقیقی اطمینان کے لیے ضروری ہے وہیں ا ن کے ایمانی استحکام اور عملی پختگی کے لیے بھی ضروری ہے۔

Facebook Comments

ظفر الاسلام
ظفرالاسلام سیفی ادبی دنیا کے صاحب طرز ادیب ہیں ، آپ اردو ادب کا منفرد مگر ستھرا ذوق رکھتے ہیں ،شاعر مصنف ومحقق ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply