سانحہ لورالائی کا آنکھوں دیکھا منظر۔۔۔۔۔حمل داؤد

29 جنوری 2019 بلوچستان کی تاریخ میں دہشت گردی کے حوالے سے ایک سیاہ دن تصور کیا جائے گا۔ جب بلوچستان کے علاقے لورالائی میں ڈی آئی جی آفس کو دہشت گردوں نے اس نیت سے حملے کا نشانہ بنایا کہ بلوچستان پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے امیدوار ٹیسٹ دینے آئے ہوئے تھے۔ دہشت گردوں کے اس بزدلانہ حملے سے صاف واضح ہے کہ وہ پاکستان کے ہر سیکورٹی ادارے سے خوف زدہ ہیں۔ لیکن اس دن بلوچستان پولیس کے جوانوں نے جس ہمت، جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا، اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا، اس کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

ہوا کچھ یوں کہ 29 جنوری کو 800 امیدوار بلوچستان پولیس میں بھرتی کے لیے صبح ساڑھے 9 بجے ڈی آئی جی آفس پہنچے جہاں انہوں نے تحریری ٹیسٹ دینا تھا۔ تحریری ٹیسٹ سے فارغ ہو کر ساڑھے 12 بجے جب وہ ڈی آئی جی آفس کے چھوٹے گیٹ کی طرف باہر جانے کے لیے جمع ہونے لگے تو اسی دوران رش کا فائدہ اٹھا کر دہشت گرد جو بالکل پولیس یونیفارم کی طرح سیاہ شلوار قمیض اور کیپ پہنے ہوئے تھے، ڈی آئی جی آفس کے اندر گھسنے میں کامیاب ہو گئے۔

اندر آتے ہی انہوں نے دستی بم پھینک کر فائرنگ شروع کر دی۔ اس اچانک رونما ہونے والی صورت حال سے امیدواروں میں افراتفری مچ گئی۔ گیٹ پر موجود بی سی کے سپاہی غلام محمد کو اور ٹیسٹ دینے کے لیے آنے والے ایک امیدوار سمیت معذور سپاہی جاوید اقبال کو دہشت گردوں نے شہید کر دیا۔

گیٹ کے ساتھ بائیں طرف ڈی آئی جی ہاؤس اور دائیں طرف ڈی آئی جی آفس تھا، ان کے بیک سائیڈ پر وہ گراؤنڈ تھا جہاں امیدواروں نے تحریری ٹیسٹ دیا تھا۔

دہشت گرد فائرنگ کرتے ہوئے ڈی آئی جی آفس کی طرف بڑھنے لگے تو ان کے سامنے آنے والے پہلا شخص اے ٹی ایف سپاہی صادق ابڑو تھا جس نے سینہ تان کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور ان کو آگے بڑھنے سے روکے رکھا۔ مسلسل جاری فائرنگ کی آوازیں سن کر ایس ایس پی لورالائی کے گن مین اخلاص خان اور بی سی کے سپاہی احسان اللہ نے جلدی جلدی چھت کا رخ کر کے اپنا اپنا مورچہ سنبھال لیا اور دہشت گردوں پر فائرنگ شروع کر دی۔

آفس کے سامنے ایس ایس پی لورالائی کی دو گاڑیاں موجود تھیں جن میں ایک بلوٹ پروف تھی جب کہ دوسری ایک حفاظتی گاڑی تھی، ان کے ڈرائیورز جان بچاتے ہوئے بولٹ پروف گاڑی میں گھس گئے۔

ڈرائیورز کے مطابق دہشت گرد تعداد میں 2 تھے اور ان کا حلیہ بالکل غیر ملکی افغانیوں جیسا تھا، ان کی عمریں لگ بھگ 18 سے 20 سال کے درمیان تھیں۔

20 منٹ تک دہشت گردوں کا اخلاص اور احسان کے ساتھ شدید فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔ اسی دوران اخلاص نے ایک دہشت گرد کے بارود سے بھرے خودکش جیکٹ پر فائر کر دیا جو زور دار دھماکے سے پھٹ پڑا۔ دھماکے کے نتیجے میں بم کے چھرے اخلاص کی آنکھوں پر جا لگے جس سے وہ زخمی ہو گیا جب کہ اس وقت صادق ابڑو جو نیچے دہشت گردوں کے ساتھ لڑ رہا تھا، کو دہشت گردوں نے شہید کر دیا تھا۔

ڈی آئی جی آفس میں قیامت کا سماں تھا ہر طرف دھواں فائرنگ نے پورے ایریا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

دوسری طرف پولیس فورس، اے ٹی ایف اور بی سی کے جوانوں نے مورچے سمبھال لیے تھے اور دہشت گردوں کے ساتھ ان کا مقابلہ جاری تھا۔
ڈی آئی جی آفس میں موجود اے ایس پی عطا ترین جو امیدواروں کے پیپر چیک کر رہے تھے، انہوں نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنے گن مین کی گن لے کر مقابلے کے لیے تیاری کر لی۔

ایک دہشت گرد فائرنگ سے خود کو بچاتے ہوئے ڈی آئی جی ہاؤس میں گھسنے میں کامیاب ہو گیا جہاں موجود 5 سویلین ملازمین کو اس نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ ڈی آئی جی آفس کا باورچی امیر زمان آفریدی جو ہاؤس کے پیچھے کی طرف اپنے کوارٹر میں موجود تھا، اپنا ذاتی پستول لے کر اپنے ساتھیوں کو بچانے کی نیت سے میدان میں آ گیا لیکن اسے دہشت گرد نے پہلے ہی گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔

اے ایس پی عطا ترین جو آفس میں موجود تھے، بکتر بند گاڑی لے کر ڈی آئی جی ہاؤس میں داخل ہوئے۔ اس وقت ڈی آئی جی ہاؤس کسی میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ہاؤس میں موجود دہشت گرد ایک تھا یا ایک سے زائد تھے؟۔

دو گھنٹے کے سخت مقابلے کے بعد اے ایس پی عطا ترین نے ڈرائیور سے کہا کہ اب دوسرا کوئی راستہ نہیں، گاڑی دہشت گرد پہ چڑھا دو۔

دہشت گرد کے لیے اب بچنے اور مقابلہ کرنے کے تمام راستے بند ہو چکے تھے، اس سے پہلے کی بکتر بند گاڑی اس کے قریب پہنچتی، اس نے خود کو زوردار دھماکے سے اڑا دیا۔

دھماکہ اتنا شدید تھا کہ دہشت گرد کے جسم کے اعضا بکھر گئے۔

پاک آرمی اور ایف سی کے جوان بھی پہنچ گئے۔ انہوں نے علاقے کا کنٹرول سنبھال کر ڈی آئی جی آفس اور ڈی آئی جی ہاؤس کو سرچ آپریشن کے بعد کلیئر قرار دے دیا۔

یوں یہ لڑائی ساڑھے 12 بجے شروع ہو کر ساڑھے 3 بجے ختم ہو گئی۔

سانحہ لورالائی ایک عظیم سانحہ تھا جس میں دہشت گردوں کا ہدف وہ امیدوار تھے جو پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے ٹیسٹ دینے آئے تھے لیکن لورالائی پولیس نے دہشت گردوں کے اس مقصد کو بری طرح ناکام بنا دیا اور 800 تک کی تعداد میں موجود امیدواروں کو اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر بچا کر جرات اور بہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔

اس سانحہ میں اے ایس پی عطا ترین، زخمی اخلاص خان اور احسان اللہ سمیت شہید صادق ابڑو نے لورالائی کو ایک بہت بڑے سانحے سے بچا لیا۔ اگر یہ بروقت کارروائی نہ کرتے تو لوگ APS اور PTC پولیس سنٹر سانحے سے بھی بڑا سانحہ دیکھتے۔

وزیراعظم پاکستان، چیف آف آرمی سٹاف، وزیراعلیٰ بلوچستان، آئی جی پولیس بلوچستان اور آئی جی ایف سی بلوچستان سے درخواست ہے کہ مادرِ وطن پاکستان کے ان چار بہادر سپوتوں کو قائداعظم پریزیڈنٹ پولیس مڈل سے نوازا جائے۔ تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو سکے کہ ہمارے ملک میں بہادری سے دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ کر کے ان کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانے والوں کو پورے ملک میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لورالائی پولیس کے اے ایس پی عطا ترین، سپاہی اخلاص خان، سپاہی احسان اللہ اور شہید سپاہی صادق ابڑو نے جس جواں مردی اور بہادری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا، جس طرح اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر شہریوں کی حفاظت کو اپنا اولین فرض سمجھ کر دہشت گردوں کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑے ہو کر ان کو اپنے مقصد میں ناکام بنا دیا، اسے پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply