پاکستان رہے گا/راؤ کامران علی

میڈیکل کی زبان میں ہاف لائف یا آدھی زندگی سے مراد ہوتی ہے وہ وقت جس کے دوران کھائی ہوئی آدھی دوائی جسم سے نکل جائے۔ مثلاً فرض کریں کہ آپ نے ایک ایسی دوائی کھائی جس کی ہاف لائف چوبیس گھنٹے ہے تو اگلے دن وہ آدھی رہ جائے گی، اس سے اگلے دن ایک چوتھائی یا پچیس فیصد، اس سے اگلے دن بارہ فیصد اس سے اگلے دن چھ فیصد! گویا تقریباً سات ہاف لائف میں یا سات دنوں میں وہ جسم سے نکل جائے گی۔

 

 

پاکستان گزشتہ چھہتر سالوں میں سول اور ملٹری طالع آزما دیکھ چکا اور آج بھی قائم و دائم ہے، مضبوط ہے اور رہے گا۔ معذرت کے ساتھ میں اس میں “مذہبی ٹچ” نہیں دے سکتا ہوں (وہ خان صاحب نے patent کروا رکھا ہے) نہ  ہی یہ کہ یہ ملک کوئی اللہ کے رازوں میں سے راز ہے یا پھر یہ رمضان میں بنا تو اسکی کوئی خاص اہمیت ہے۔ آج آپ رومانٹک رات گزاریں تو خیر سے آنے والے رمضان میں ہونے والا آپکا بچہ کوئی قدرت کا راز نہیں ہوگا ہاں نعمت یا رحمت ضرور ہوگا جیسے پاکستان ہے۔ بچے کا دھیان نہیں رکھیں گے تو اسے صحت کا یا حادثاتی طور پر (اللہ نہ کرے) نقصان پہنچے گا، جیسے پاکستان کو 1971 میں پہنچا اور یہ بھی کوئی حکمت یا راز نہیں تھا؛ ایف اے پاس کنکریٹ دماغوں والے جرنیلوں اور لالچی سیاستدانوں کی خود غرضی کے ملاپ سے ہونے والا ابارشن تھا!

لیکن طبعی طور پر تمام ممالک ان مسائل سے گزرتے ہیں۔ پاکستان بالخصوص اور برصغیر بالعموم کے لوگ سخت جان ہیں اور مثبت سوچ کے حامل ہیں۔ کوئی تو وجہ ہے کہ واسکوڈے گاما سے لیکر کولمبس تک یہاں آنا چاہتا تھا۔ سوچیں یہ خطہ نہ ہوتا تو امریکہ کا وجود ہی نہ ہوتا! تو یہ جغرافیائی طور پر مضبوط اور رہنے والا خطہ ہے اور یہ انشااللہ زندہ باد اور قائم دائم اپنی فطری قوت برداشت اور اسکے عوام کے باعث رہے گا۔

ہاف لائف کا ذکر اس لئے آیا کہ کرپٹ سے کرپٹ لیڈر یا افسر اور اسکے پہنچائے نقصان کی ہاف لائف ہے اور وہ چلا جائے گا ساتھ اسکی برائی بھی چلی جائے گی۔ ایوب سے لیکر ضیا اور لیاقت علی خان سے لیکر بھٹو تک چلے گئے۔ نواز زرداری اور عمران کتنا جی لیں گے لیکن یہ ملک رہے گا۔ باجوہ آج اس ملک سے باہر فٹ پاتھ پر نہیں چل سکتا، یا کسی جزیرے پر کالے پانی کی طرح رہے گا یا واپس اسی ملک میں آئے گا لیکن یہ ملک رہے گا۔ مشرف ایک عبرت کا نشان تھا؛ چلا گیا لیکن ملک ہے اور رہے گا! فوج نو مئی کی دہشت کتنی دیر تک قائم رکھ سکے گی ،دیکھنا یہ ہے کہ دہشت کو واپس عزت میں کیسے بدل پائے گی لیکن یہ ملک رہے گا۔

گزشتہ دس سالوں میں اندرون اور بیرون ملک پاکستانیوں کا شعور بڑھا ہے۔ جو عمران خان کو سپورٹ کررہے تھے انھوں نے اسکے آخری سال میں اس کا نام تک لینا بند کردیا لیکن نکالے جانے کے بعد پھر اسکے ساتھ ہوگئے۔ یہ اتار چڑھاؤ ایک مثبت سوچ کی علامت ہے اس سے پہلے میاں کے جانثار یا بھٹو کو زندہ دیکھنے والے جامد غلام بن کر رہتے تھے۔ عمران کسی وجہ سے واپس وزیراعظم بن بھی گیا تو اب وہ کرپشن کے اربوں واپس لانے والے ڈرامے نہیں چلیں گے،یا ڈلیور کرے گا یا پھر دِلوں سے بھی فارغ۔ ۔گزشتہ ایک سال میں ن  لیگ اور پی پی پی کا حال تو دیکھ ہی لیا ہوگا۔ آنے والے دنوں میں انکی طبیعت مزید صاف ہوگی۔ لیکن یہ صورتحال، مثبت تغیر کی علامت ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ کس پارٹی کے وزیراعظم اپنا اور اہل خانہ کا علاج کروانے لندن امریکہ جاتے ہیں خواہ انکے ووٹرز اسی بیماری کے باعث اپنے ہی ملک میں ایڑیاں رگڑ کر مر جائیں اور کس پارٹی کا وزیراعظم اپنا علاج اسی ملک میں کرواتا ہے؟ کب تک عوام پاگل بن کر اس فرق کو برداشت یا نظر انداز کرے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کور کمانڈرز کی ہاف لائف کتنی رہ گئی ہے؟ اسکے بعد کتنے ایسے آئیں گے اور کب تک یہ سمجھ نہیں پائیں گے کہ کینٹ اور ڈیفنس کی خوشحال زندگی اور اس سے چند فرلانگ باہر آکر کسمپرسی کی زندگی بہت دیر تک درمیان کا بیرئیر قائم نہیں رکھ پائے گی۔ معاشی اور سماجی اوسموسس سے یہ کب تک بچ پائے گی۔ یہی ہاف لائف ایسے افسران کو ضرور آگے لائے گی جو کم خود غرض ہوں اور دور رس نتائج دیکھ سکتے ہوں۔ کرپٹ سے کرپٹ ایس ایچ او، ڈی سی، ایم پی اے، وزیر، سیکرٹری؛ ان سب کی ہاف لائف ہے۔ آنے والے ان سے بہتر ہی آئیں گے کیونکہ یہی ارتقا ہے۔ جو بہتر نہیں ہوگا وہ ایسے ہی بہترینوں میں ٹِک نہیں پائے گا جیسے آجکل اچھے افسران بُروں میں ٹک نہیں پاتے ہیں۔ موسم آئیں گے اور جائیں گے ، اچھے یا بُرے دن آئیں گے اور جائیں گے یہ ملک تھا، ہے اور رہے گا! آپ سب کو جشن آزادی مبارک ہو! پاکستان زندہ باد!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply