امام حسنؑ اور امام حسینؑ، باہم(1)۔۔ثاقب اکبر

محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی بعض کم فہم یا کج فکر افراد یہ بحث بھی چھیڑ دیتے ہیں کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کا طرز عمل مختلف تھا اور ایسا کیوں تھا۔ امام حسینؑ کے عظیم کردار اور قربانی کے موضوع سے سادہ اندیش مسلمانوں کا رخ موڑنے کے لیے ایسی بحثوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ علماء اور محققین نے اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے اور تمام سوالات و اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ اپنے کالم کی گنجائش کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم مختصر مطالب اس حوالے سے قلم بند کرتے ہیں۔ اس پر تمام اہل فکر و نظر کا اتفاق ہے کہ بڑی شخصیات کے اقدامات کو زمان و مکان کے تقاضوں کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم سرسری نظر ڈالیں تو ہمیں انبیاء کے طرز عمل میں بھی فرق دکھائی دے گا، لیکن سب کی روح ایک ہوتی ہے۔ ویسے تو بظاہر موسیٰ و ہارون بھی مختلف دکھائی دیتے ہیں اور نوح و ابراہیمؑ بھی، جبکہ قرآن انبیاء کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ “ہم اپنے رسولوں میں کوئی فرق نہیں کرتے۔”

اتنا ہی نہیں بلکہ ایک ہی نبی یا رسول کی زندگی کے مختلف مراحل میں اس کا طرز عمل مختلف دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ بھی حالات و شرائط کی تبدیلی ہوتی ہے اور حکمت کا تقاضا یہی رہے گا کہ حالات و شرائط اور زمان و مکان کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے طرز عمل اختیار کیا جائے۔ امام حسنؑ اور امام حسینؑ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند ہیں اور ایک جیسے مقام پر فائز ہیں۔ انھوں نے مختلف حالات میں مختلف طرز عمل اختیار کیا تو یہ تائید الٰہی اور انبیاء کی سنت کے مطابق تھا۔ قرآن حکیم کی مختلف آیات اور احادیث نبوی کو سامنے رکھ کر ہم یہ جان سکتے ہیں کہ دونوں بزرگوں کا اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک نہایت بلند مقام ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بدگمانی کرنا، انسان کو پرلے درجے کی گمراہی و انحراف سے دوچار کرسکتا ہے۔

آئیے چند ایک آیات اور احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
۱۔ قرآن حکیم میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ دونوں کو آیہ مباہلہ میں اَبْنَآءَنَا کا مصداق قرار دیا گیا ہے۔ یعنی دونوں کو رسول اللہؐ کا بیٹا کہا گیا ہے۔ صحابہ کرامؓ بھی انھیں یا بن رسول اللہ! کہہ کر پکارتے تھے۔ حضرت علیؑ بھی ان کے اس خصوصی مقام کو ملحوظ رکھتے تھے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا تھا کہ اے علی!ؑ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کو اپنے صلب سے اولاد عطا کی ہے اور مجھے تمھارے صلب سے۔
۲۔ آیت تطہیر کے نزول کے وقت چادر کے نیچے نبی کریمؐ کے علاوہ امام علیؑ، حضرت فاطمہؑ اور ان کے دونوں فرزند امام حسنؑ اور امام حسینؑ موجود تھے، یعنی دونوں کو اللہ تعالیٰ نے آیت تطہیر میں اہل بیت کا مصداق قرار دیا اور ان کی پاکیزگی و طہارت کی گواہی دی۔ اس مرتبے میں بھی دونوں برابر ہیں۔

۳۔ جب آیہ مودّت نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓ نے پوچھا: یا رسول اللہؐ! یہ کون آپ کے فی القربیٰ ہیں، جن کی محبت و مودّت ہم پر واجب قرار دی گئی ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا: علی ؑ، فاطمہؑ اور ان کے دونوں بیٹے۔ یہاں بھی اگر ہم دیکھیں تو دونوں کی ایک جیسی محبت و مودّت امت پر فرض قرار دی گئی۔ چنانچہ ابن عباس کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: لما نزلت : قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی قالوا یا رسول اللہ و من قرابتک ھولاء الذین وجبت علینا مودتھم؟ قال :’’علی و فاطمۃ و ابناھما‘‘

۴۔ امام حسنؑ اور امام حسینؑ دونوں کو سبطِ رسول کہا جاتا ہے۔ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی روشنی میں ہی ہے۔ چنانچہ آپ کا ارشاد ہے: الحسن والحسین سبطان من الاسباط۔ (امام حاکم نے یہ حدیث مستدرک میں نقل کی ہے اور امام ذہبی نے اپنی تلخیص میں باقی رکھی ہے۔)
۵۔ امام حسنؑ اور امام حسینؑ دونوں سورہ کوثر میں ’’کوثر‘‘ کا مصداق ہیں اور دونوں کی اولاد اسی مصداق کا تسلسل ہے اور سادات فاطمی کہلاتی ہے۔
۶۔ دونوں اماموں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور و صحیح السند حدیث ہے کہ حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔
۷۔ نبی کریمؐ کی یہ حدیث بھی مشہور ہے کہ ’’اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ اِمامانِ قاما اَوْ قَعَدا‘‘ یعنی “امام حسنؑ و حسینؑ دونوں امام ہیں، چاہے کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں۔”

۸۔ سنن ترمذی کی ایک روایت جو حضرت اسامہ بن زید سے منقول ہے، میں ہے کہ ایک روز رسول اللہؐ اپنی چادر میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو ڈھانپے ہوئے تھے، میرے پوچھنے پر آپ نے چادر ہٹائی تو فرمایا کہ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ! میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اور اس سے بھی محبت رکھ جو ان دونوں سے محبت رکھتا ہے۔
۹۔ مختلف روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ امام حسنؑ و حسینؑ سب سے زیادہ آنحضرتؐ سے مشابہ تھے۔ اس مفہوم کی ایک روایت ابن سیرین نے حضرت انس سے نقل کی ہے۔
۱۰۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ جو ان دونوں سے محبت کرتا ہے، وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو ان دونوں سے دشمنی رکھتا ہے، وہ مجھے سے دشمنی رکھتا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: “من احبھما فقد احبنی، ومن ابغضھما فقد ابغضنی۔” امام حاکم نے اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط پر صحیح الاسناد قرار دیا ہے ۔

۱۱۔ حضرت سلمانؓ سے نبی پاکؐ کی یہ حدیث امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے بارے میں مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: “من احبھما احببتہ،ومن احبببتہ احبہ اللہ، ومن احبہ اللہ ادخلہ جنات النعیم، ومن ابغضھما او بغی علیہما ابغضتہ، ومن ابغضتہ ابغضہ اللہ، ومن ابغضہ اللہ ادخلہ عذاب جھنم ولہ عذاب مقیم۔”، “جو ان دونوں سے محبت کرتا ہے، میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جس سے میں محبت کرتا ہوں، اس سے اللہ محبت کرتا ہے اور جس سے اللہ محبت کرتا ہے، وہ اسے باغات بہشت میں داخل کرتا ہے اور جو ان دونوں سے دشمنی رکھتا ہے یا ان کے خلاف بغاوت یا جنگ کرتا ہے، میں اس سے دشمنی رکھتا ہوں اور جس سے میں دشمنی رکھتا ہوں، اللہ اس سے دشمنی رکھتا ہے اور جس سے اللہ دشمنی رکھتا ہے، اسے وہ عذاب دوزخ میں داخل کرتا ہے اور اس کے لیے دائمی عذاب ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

ان آیات و روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امامین حسنین کریمین علیہما الصلوۃ والسلام دونوں اللہ اور اس کے رسول کے محبوب ہیں اور دونوں بلند مرتبہ پیشوا ہیں اور دونوں عظمت کے ایک مقام عالی پر فائز ہیں۔ ان کی باقی زندگی اور اقدامات کو ان آیات و روایات کی روشنی میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر کچھ مزید مطالب ہم آئندہ کی نشست میں پیش کریں گے۔اسلام ٹائمز
جاری ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply