• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دنیا بدلنا ممکن نہیں البتہ اپنی ذات میں تبدیلی ممکن ہے ۔۔غیور شاہ ترمذی

دنیا بدلنا ممکن نہیں البتہ اپنی ذات میں تبدیلی ممکن ہے ۔۔غیور شاہ ترمذی

کچھ سال پہلے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی جس میں وہ ڈبلیو ڈبلیو ای کے ریسلرز سٹون کولڈ سٹیو آسٹن اور بوبی لیشلے کے ساتھ مل کر ڈبلیو ڈبلیو ای کے چیئرمین مسٹر میک موہن کے سر پر ماہر حجام کی طرح مشین چلاتے ہوئے اسے گنجا کر رہے تھے۔بظاہر تب ڈونلڈ ٹرمپ کا کاروبار رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اور ہوٹل انڈسٹری تھا۔ وہ پیدائشی ارب پتی بھی تھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کے خون میں حجامت کے جراثیم موجود رہے ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دادا فریڈرک ٹرمپ جرمنی میں شراب بنانے کے کارخانہ میں ملازم    والدین کے گھر پیدا ہوا۔ سنہ 1885ء میں فریڈرک نیویارک ہجرت کر گیا جہاں اُس نے حجام کا کام کرنا شروع کر دیا۔وہ کئی سال تک حجامت کے کاروبار سے وابستہ رہا۔ اگرچہ بعد میں اس نے ٹیکس چوری، ہوٹلنگ انڈسٹری اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے اربوں ڈالر بنائے لیکن حجامت اس کے خون میں شامل رہی جس کا دنیا کے سامنے اظہار اس کے پوتے ڈونلڈ ٹرمپ نے کر دیا۔ سچ ہے کہ انسان کچھ بھی کر لے لیکن اپنی سرشت نہیں بدل سکتا۔

لیکن یہ عین ممکن ہے کہ ہم اپنی سوچ، زندگی گزارنے کے نظریے، اپنے رویے، توقعات، لوگوں سے تعلقات، کام کرنے کے انداز اورعادتوں کو بدل کر بہتر زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہم خود کو بدلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے البتہ دنیا کو بدل دینے کا بلند و بالا عزم رکھتے ہیں۔ ٹالسٹائی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ “ہر کوئی دُنیا کو تبدیل کرنے کا سوچتا ہے، لیکن کوئی بھی خود کو تبدیل کرنے کا نہیں سوچتا”۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دُنیا میں تقریباً 98فیصد  ایسے لوگ ہیں جو صرف خود کو بدلنے کے سوا اور کچھ نہیں بدل سکتے مگر صرف 2 فیصد انسان ایسے ہیں جو دُنیا کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ 98فیصد  لوگ جو خود کو بدلنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتے, وہی خود کو بدلنے کے علاوہ باقی دُنیا کو بدلنے کی بھر پور کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ مولانا رومیؒ نےکہا تھا کہ۔ “ کل تک میں چالاک تھا، میں دُنیا کو تبدیل کرنا چاہتا تھا۔ آج میں عقل مند ہوں، کیو نکہ میں خود کو تبدیل کر رہا ہوں”۔

بہتری کے لئے کی جانے والی تبدیلی ایک خوبصورت اور بہت وسیع اور روحانی عمل ہے جس کی  بنیاد میں ایک مکمل فلسفہ ہے لیکن بد قسمتی سے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے پاکستان میں اس خوبصورت عمل کا بے مقصد استعمال اس طرح کیا گیا ہے کہ یہ لفظ ہی ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ وہ تبدیلی جو معاشرے اور انسان کی بقاء کی ضمانت ہوتی ہے۔ وہ تبدیلی کہ جس کے بغیر  کوئی بھی معاشرہ اور انسان کسی بھی عہد میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس تبدیلی کا ذکر جب پاکستان میں کبھی آ جائے تو چند لوگوں کے سوا 22 کروڑ عوام کے شعور میں جھرجھری آ جاتی ہے۔ البرٹ آئین سٹائن کا کہنا ہے کہ ”یہ دُنیا جو ہم نے تخلیق کی ہے، ہماری سوچ کا عمل ہے۔ یہ ہرگز تبدیل نہیں ہو سکتی جب تک ہم اپنی سوچ نہیں تبدیل کر سکتے“ ۔

آج سے 3 سال قبل ہوئے عام انتخابات سے پہلے عمران خان نے بھی اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں اپنے آپ کو تبدیلی کے استعارہ کے طور پر پیش کیا۔ فطری طور پر پوری قوم ایسی خوش بخت تبدیلی کی خواہاں تھی جس سے پاکستان کے وجود میں آنے کا مقصد بھی پورا ہو اور عوام کی مشکلات بھی دور ہو جائیں۔ تبدیلی کی خواہاں نوجوان نسل کو عمران خاں نے یقین دلایا کہ ہزاروں سال نہیں مگر 70 سال تک نرگس (ملت پاکستان) کے اپنی بے نوری پہ روتے رہنے کے بعد قدرت نے بڑی مشکل سے پاکستانی چمن میں ان کی شکل میں دیدہ ور پیدا کیا ہے جو عوام کی قسمت روشن کر دے گا۔

الیکشن میں جیت کر حکومت میں آنے تک عمران خان یہ یقین دلاتے رہے کہ اگر انہیں لولی لنگڑی، کمزور اور بے اختیار حکومت کرنے کا موقع ملا تو وہ انکار کر دیں گے اور بیساکھیوں پر اپنی حکومت قائم نہیں کریں گے جبکہ حکومت بنانے کے لئے جو کچھ ہوا وہ اس کے منافی تھا۔ سادگی اختیار کرنے والے نعروں، تمام بڑی سرکاری عمارات اور محلات کو عوام کی خدمت کے لئے وقف کئے جانے کی یقین دہانیاں کروائی گئیں۔ کرپشن کے خاتمہ اور لوٹی ہوئی ہزاروں  ارب روپے کی کرپشن کی رقوم ملک میں واپس لانے کے نعرے لگائے گئے۔
پھر الیکشن ہوئے، اور عملاً یہ ہوا کہ کرپشن کے خاتمہ کے لئے تمام کرپٹ لوگوں کو پکڑنا تھا مگر سوائے شریف خاندان کےباقی سارے کرپٹ سیاستدان اور مافیاز کو عمران خاں نے اپنی چھتری تلے اکٹھا کر لیا جو آج تک ان کی پارٹی اور ان کی مالی اعانت کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ سادگی کا نعرہ بلند و بالا طریقہ سے لگانے والے عمران خاں بڑی سرکاری عمارتوں کو عوام کی تحویل میں کیا دیتے وہ تو اپنی ذاتی شاہانہ طرز زندگی سے بھی دستبردار نہ ہو سکے۔ عمران خاں کے قریبی ساتھیوں کی شاہ خرچیاں، بڑےبڑے کھانچے،حیرت انگیز تنخواہیں، مشیروں کی فوج ظفر موج اور مراعات خزانے پر بھاری بھرکم بوجھ سے کم نہیں۔ اتحادیوں کا تو خیر کوئی ذکر اذکار ہی نہیں، خود عمران خاں کی اپنی پارٹی کے کارکن اپنے مشیروں، وزیروں سے سخت نالاں ہیں۔ یہ سب نااہل اور کرپٹ لوگ الیکشن لڑ کر، اپنا پیسہ خرچ کرکے ایوانوں میں تو آگئے مگر قانون سازی، خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی اور حکومتی پالیسی کا حال یہ ہے کہ کسی کو پتہ نہیں کہ حکومت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

معلوم ہوتا ہے جیسے حکومت مافیاز ہی چلا رہے ہیں۔ وزیراعظم اپنے ذاتی دوستوں اور احباب پر مشتمل مخصوص گروہ میں گھرے رہتے ہیں اور انہیں پر اعتماد کرتے ہیں۔ جو کچھ انہیں بتایا جاتا ہے، وہ اس پر یقین کر لیتے ہیں، جب ہی تو آئے روز وزیراعظم کے بیانات میں اعداد و شمار، معاہدات کی تفاصیل اور دیگر اطلاعات سب غلط ثابت ہو جاتی ہیں۔ اب تک ملک کی تعمیر وترقی کے لئے کوئی بھی عوام دوست فیصلہ نہ کیا گیا۔ حکومت کے فیصلوں سے ہر دفعہ کسی نہ کسی مافیا کو ہی فائدہ پہنچتا ہے ۔عوام سے صرف اب تک قربانیاں ہی مانگی گئیں ہیں مگر بدلے میں انہیں کیا دیا گیا؟ انصاف کے لئے کہا جاتا ہے کہ نہ صرف انصاف ہونا چا ہیے، بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چا ہیے مگر آج ہمارے پیارے وطن میں کسی بھی شعبے میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ لوگوں کے مسائل سے یکسر بے خبر، آنکھوں، کانوں پر پٹی باندھے ایسی حکمرانی کا انجام بلآخر کیا ہوگا؟۔ یہ سب نوشتہ دیوار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس تبدیلی کے پاکستانی علمبرداروں نے لفظ تبدیلی کو اتنا پراگندہ بنا دیا ہے کہ اب کسی عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا وہ اپنی زندگی تبدیل کرنا چاہے گا تو وہ بدک کر سوال پوچھنے والے سے دور کھڑا ہو جائے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تبدیلی کے بغیر ایک خوشگوارزندگی کا حصول ممکن نہیں۔ خوشی اور سکون کے لئے چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں انسان کی زندگی کو بہتر کرتی ہیں۔ مغرب کی دُنیا اتنی ترقی اسی لئے کر سکی کیونکہ وہاں کے رہنے والوں نے ماضی کی نسبت خود کو تبدیل کیا۔ مغرب نے اگر اپنے سوچنے کا انداز نہ بدلا ہوتا تو آج یہ ترقی ان کے لئے کبھی ممکن نہ ہوتی۔ فریڈرک نطشے نے کہا تھا کہ ”جو سانپ اپنی کھال تبدیل نہ کرسکے، اُسے مرنا ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ ذہن بھی جو اپنے خیالات/افکار کو تبدیل کرنے سے اجتناب کرتے ہیں؛ وہ دماغ رکھنے سے رُک جاتے ہیں“۔ اس لئے حکومتی پارٹی کے نعروں جیسی تبدیلی لانے کی بجائے اپنی زندگی میں خود حقیقی تبدیلی لانے کا سوچیے۔ کرنا صرف یہ ہو گا کہ ہمیں دنیا اور دوسروں کو تبدیل کرنے کی بجائے اپنی سوچ، زندگی گزارنے کے نظرئیے، اپنے رویے، توقعات، لوگوں سے تعلقات، کام کرنے کے انداز اورعادتوں کو بدل کر خود میں تبدیلی لانی پڑے گی تاکہ ہم بہتر زندگی حاصل کر سکیں اور اپنی اگلی نسلوں کو مہذب ،پُر امن اور ترقی یافتہ معاشرہ منتقل کر سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply